ایکسپائر دوائیاں کہاں جاتی ہیں ؟۔۔ڈاکٹر عزیر سرویا

سرکاری ہسپتالوں سے عوام الناس کو جو دوائیاں مفت ملتی ہیں ان کی کہانی بڑی دلچسپ ہے۔
نوّے فیصد سٹاک چھوٹی لوکل کمپنیوں سے لیا جاتا ہے، کیونکہ ان کے لوگ ہسپتال انتظامیہ سے لے کر سیکریٹیریٹ تک سب کو پیسے کھلاتے ہیں۔ ظاہر ہے رشوت میں دیے جانے  کے بعد ان پیسوں کو دوا کا معیار بہتر بنانے پہ  تو لگایا نہیں جا سکتا، سو جو چیز ملتی ہے اس کے بارے سیانے کہتے ہیں کہ بندہ ٹھیک ہو نہ ہو، اگر وہ پہلے سے مزید بیمار نہ ہوا تو یہ بھی کامیابی ہے۔ ایک پروفیسر صاحب بتایا کرتے تھے کہ انہوں نے سرکاری ہسپتال سے کھانسی کا سیرپ لے کے لیبارٹری میں چیک کیا تو اس میں amoeba (جو پیٹ کا  انفیکشن کرتا ہے) نظر آیا تھا۔ یعنی دوا میں لوکل کمپنیوں والے پانی بھی گٹر والا استعمال کر لیتے ہیں اگر رشوت میں زیادہ ہی رقم دینی پڑ گئی ہو۔

پھر مزے کی بات یہ کہ دوائی کتنی منگوانی ہے اس میں بھی کوئی خاص حساب کتاب لگانے کی زحمت اکثر نہیں کی جاتی۔ نتیجتاً کروڑوں کا سٹاک استعمال نہ ہونے کے سبب ایکسپائر ہو جاتا ہے۔ ایکسپائر دوائی بارے ہدایت یہ ہے کہ اس کو ضائع کر دیا جائے۔

اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ٹیکس گزار کے کروڑوں روپے ہسپتال والے ضائع کر دیتے ہیں!

جناب بالکل نہیں! ایکسپائر شدہ دوائیوں کو عملہ و انتظامیہ کے بندے اٹھاتے ہیں، اوپر سے سٹیکر وغیرہ اتارتے ہیں اور ایک چوتھائی ریٹ پہ  بیچ دیتے ہیں۔ پھر لوکل کمپنیوں والے ان کی ری پیکیجنگ کر کے دوبارہ مارکیٹ میں لے آتے ہیں۔ بالکل علامہ اقبال کی تعلیمات کے مطابق:
نہیں ہے چیز نکمی کوئی زمانے میں
کوئی بُرا نہیں قدرت کے کارخانے میں

Advertisements
julia rana solicitors london

اللہ بھلا کرے پلاسیبو ایفیکٹ کا، کہ سرکاری دواؤں سے بھی لوگ شِفا سمیٹ رہے ہیں۔ ایک دفعہ مریض میرے پاس سیرپ لایا جو اس نے تازہ تازہ ہسپتال کی فارمیسی سے لیا تھا۔ مجھے ڈرتے ڈرتے کہتا ڈاکٹر صاحب یہ سیرپ میں سے کیا ہمیشہ بدبو آتی ہے؟ میں نے رُوکھا سا جواب دیا کہ بھائی دوا تو کڑوی اور بدبودار ہوتی ہی ہے، کہنے لگا ڈاکٹر صاحب ذرا اس کو سونگھیں تو سہی۔ میں نے بے دلی سے سیرپ اس کے ہاتھ سے پکڑ کے ڈھکن کھولا تو غشی سی چھانے لگی ایسی غلیظ بدبو تھی۔ میں نے فوراً ڈھکن واپس لگایا اور اسے کہا بھائی اس میں کچھ گڑبڑ لگ رہی ہے۔ مریض نے پوچھا اب کیا کرنا ہے، میں نے کہا باہر سے اپنا خرید لو۔ اس نے کہا پیسے نہیں ہیں، میں نے کہا بھائی پھر اللہ کا نام لے کے ناک بند کر کے یہی پی لو یا پھر لائن میں واپس لگ کے آدھا گھنٹہ خرچ کر کے سیرپ ریپلیس کروا لو۔ پاکستان میں رہتے ہو، خدا کا خوف کرو اصلی اور خالص چیز کی امید (وہ بھی مفت کی) کرتے تمہیں ویسے ہی شرم آنی چاہیے! اس نے ہنستے ہوئے اثبات میں سر ہلایا اور واپس لائن میں لگ گیا!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply