• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • قاسم سلیمانی- یہ ٹھیک ہے کہ شہید زندہ ہوتے ہیں۔۔نذر حافی

قاسم سلیمانی- یہ ٹھیک ہے کہ شہید زندہ ہوتے ہیں۔۔نذر حافی

3 جنوری 2020ء کی بات ہے، ابھی صبح نے رات کی سیاہ چادر اوڑھی ہوئی تھی۔ بغداد ائیرپورٹ پر تاریکی اور سردی کا سماں تھا۔ ہمیشہ گمنامی میں رہنے والا ایک فوجی آج بھی اندھیرے میں اپنا آخری سفرکر رہا تھا۔ آہ! اُس کیلئے یہ سفر کتنا کٹھن اور دُشوار ہُوا ہوگا۔ وہ آج بھی بہت جلدی میں تھا۔ جس نے صدیوں کا فاصلہ لمحوں میں طے کرنا ہو تو اُسے جلدی تو ہوتی ہی ہے۔ ویسے بھی ایک فوجی کی زندگی میں عجلت، فوری، دوڑو، ابھی ابھی، جلدی جلدی۔۔۔ کے سوا ہوتا ہی کیا ہے۔ خیر قسمت ساتھ دے تو کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ ایک فوجی کی قسمت میں جو کچھ ہوتا ہے، وہ سب اُس کے پاس تھا۔ زحمت، مشقت، پریشانی، مصیبت، جنگ، بارود، دھواں، آگ، دشمنوں کی بھرمار اور درندوں کی للکار۔۔۔ اس  بھرمار اور للکار کے درمیان وہ خاموشی سے اپنی منزل کی طرف چل رہا تھا۔ بہرحال وہ ایک فوجی تھا، اس نے بحیثیت فوجی اپنا نام کمایا اور تادمِ آخر اس کی وردی ہی اُس کی شناخت رہی۔

بات یہ نہیں کہ اسے سیاست سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ دلچسپی تو تھی لیکن اپنوں کے خلاف کسی مہم کا حصّہ بننا اُس کی تربیت، نظریئے اور پیشے کے خلاف تھا۔ سیاست کے نام پر وہ اپنے حقیقی دشمنوں کو چھوڑ کر اپنوں کے ساتھ الجھنے کا قائل ہی نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اُس کی سیاسی بصیرت اور بے لاگ تجزیات کے سبھی معترف تھے۔ اُس کی عوامی مقبولیت اور سیاسی استعداد کا یہ عالم تھا کہ اگر وہ انتخابات میں حصّہ لیتا تو یقیناً فتح اُسی کی ہوتی۔ اُس کی شخصیت اس قدر مضبوط تھی کہ اس پر ایک پائی کی کرپشن کا گمان بھی ممکن نہیں۔ وہ دنیا کے تمام میدانوں میں اپنے تمام ہوش و حواس کے ساتھ اپنے دوستوں اور دشمنوں کو اچھی طرح پہچانتا تھا۔

اگر وہ چاہتا تو اپنی خدمت، بصیرت اور استعداد کو صرف اپنے ہی ملک تک محدود رکھ سکتا تھا، لیکن وہ اس سے مختلف تھا۔ وہ جنگ کے شعلوں کے درمیان اپنی جان کے بجائے دوسروں کو بچانے کیلئے فکر مند رہتا تھا۔ چنانچہ اُس نے صرف اپنے ملک کے بجائے ساری دنیا کے مظلوم انسانوں کی حفاظت اور خدمت کا بیڑہ اٹھا لیا۔ ساری دنیا کے انسانوں کو شیطانوں سے بچانا، یہ اُس کی پیشہ وارانہ تربیت، دینی تعلیم اور مکتبی نظریئے کا تقاضا تھا۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ دشمنوں کے مدِّمقابل ایک نظریاتی انسان غیر جانبدار رہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ دکھی اور مظلوم انسانیت کی طرفداری اور جانبداری اُس کی شناخت تھی۔ اسی جانبداری کے باعث اس نے استعمار کے خلاف ائیرکنڈیشنڈ رومز میں بیٹھ کر احکامات جاری کرنے یا نعرے بازی کو کافی نہیں سمجھا۔ چنانچہ وہ ہمیشہ مجاہدینِ اسلام کے ہمراہ میدانِ عمل میں پایا گیا، یعنی ہر لمحے اُس کے قدم اُس کے نظریئے کے عین مطابق اٹھتے تھے۔

کون نہیں جانتا کہ اس نے عالمی استعمار کے خلاف شام ، عراق، لبنان اور فلسطین سمیت ہر محاذ پر اپنے وجود اور موجودگی کا اظہار کیا۔ یہی کوئی چند سال پہلے جب ساری اسلامی دنیا نے استعمار کے سامنے ہتھیار ڈال دئیے تھے۔ جب دنیا بھر کی اقوام القاعدہ، طالبان اور داعش کے سامنے پسپا ہوتی جا رہی تھیں اور جب دہشت گردی کا سیلاب تیزی سے ممالک کے جغرافیے بدلتا جا رہا تھا تو اُس وقت وہ استعمار کے خلاف ہر مورچے پر لڑ رہا تھا۔ وہ ہر محاذ پر پہرہ دے رہا تھا، لیکن کسی محاز پر بھی اُس نے اپنے نام کا پرچم نہیں گاڑھا۔ اُس نے ہر منطقے میں وہاں کی مقامی آبادی کو ہی استعماری طاقتوں کے خلاف سینہ سپر کیا۔ اُس کی بصیرت کا اندازہ اس سے لگایئے کہ اُس نے غزہ کی پٹی، حزب اللہ لبنان اور عراقی مقامی قبائل کے مُٹھی بھر مجاہدوں کو ایسا حوصلہ عطا کیا کہ استعمار کے چھکّے چھوٹ گئے۔

وہ اتنا باعمل، بلند کردار اور عظیم النفّس تھا کہ دنیا کی سب سے بڑی شیطانی سلطنت کے حاکم ٹرمپ نے اُس کی جان لینے کا حکم صادر کیا۔ وہ پہلے سے ہی جان ہتھیلی پر رکھے پھر رہا تھا۔ آخر میدانِ جنگ کا آدمی تھا، عین میدانِ جنگ سے اپنے ربّ کی طرف لوٹ گیا۔ اُس کی فعال زندگی کی طرح اُس کی متحرک موت بھی عالمِ انسانیت کیلئے مزید بیداری اور استقامت کا باعث بنی۔ اُس کی شہادت کے بعد میں نے یہ سوچنا شروع کیا کہ دنیا و اخرت میں اس انسان کی کامیابی کا راز کیا ہوسکتا ہے!؟ میں نے سوچنے کے ساتھ ساتھ دوسروں سے  پوچھنا اور مطالعہ کرنا بھی شروع کیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میرے مطابق اُس کی کامیابی کا راز اگر ایک جملے میں سما جائے تو وہ ایک جملہ یہ ہوگا کہ وہ زیادہ باتیں کرنے پر تھوڑا سا عمل کرنے کو ترجیح دیتا تھا، صرف یہی نہیں بلکہ وہ اپنے زیادہ سے زیادہ عمل کو بھی تھوڑا سمجھتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اُس نے اپنے پیشہ وارانہ طرزِ عمل اور مسلسل عمل سے دنیا بھر کے سپہ سالاروں کو یہ پیغام دیا ہے کہ محاذ جنگ پر رہ کر بھی عوام کے دلوں پر حکومت کی جا سکتی ہے۔ مجھے اُس کے طرزِ زندگی سے بس یہی بات سمجھ میں آئی ہے کہ یہ ٹھیک ہے کہ شہید زندہ ہوتے ہیں، لیکن یہ بھی مانئے کہ زندہ لوگ ہی شہید ہوتے ہیں۔ مُردے کبھی شہید نہیں ہوتے، چونکہ مُردے کبھی زندہ نہیں ہوتے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply