شکار

مجھے شکار اتنا پسند کیوں ہے کچھ معلوم نہیں یار لوگوں کے بقول پختون خون کا اثر ہے لیکن جو بھی ہے شکار کا ایک الگ ہی مزہ ہے اور یہ میری زندگی میں اس وقت شامل ہوا جب میری عمر تقریبا 6 سال تھی اور والد صاحب نے اپنے ایک برطانوی دوست سے ایک عدد ائیر گن خرید کر لے دی۔ اس وقت ان چیزوں کا تو پتہ نا تھا لیکن سب سے زیادہ خوشی اس بات پر ہوتی تھی جب چھرہ نشانہ پر لگتا تھا اور ٹھاہ ٹھاہ کی آواز آتی تھی۔ یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا چھپکلیاں نشانہ بنی اور جلد ہی پورے محلے ہیں خان چھپکلی مار کے طور پر مشہور ہو گئے۔ اب کبھی کبھی دل میں خیال آتا ہے کے اس دور میں چھپکلیوں کی نسل کشی میں احقر پیش پیش رہا اس کے بعد چڑیاں کبوتر جنگلی خرگوش اور حلال و مکر و ہر طرح کے پرندے میرے نشانہ پر رہے اور یہ سلسلہ ابھی تک رواں دواں ہے۔
اور یہ پرانی یادیں اس وقت ازسرنو ہوئیں جب
چند دن پہلے اپنے زیر تصرف زرعی رقبہ جو کے ضلع جھنگ میں واقع ہے کا چکر لگا۔ گندم کی فصل کو پہلا پانی لگ چکا تھا اور اب کھاد اور سپرے کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا اور اس موسم میں ہمارے علاقہ میں خرگوش اور بٹیر کافی تعداد میں ہوتے ہیں اور میرے جیسے اناڑی بھی تھیلا بھر شکار کر لیتے ہیں۔
سردیوں کے دن چھوٹے اور راتیں بڑی اسی وجہ سے بعض اوقات رات ڈیرہ پر ہی گزاری جاتی ہے کیونکہ رہائش، رقبہ سے کم از کم 20 کلومیٹر دور ہے۔ اور اس علاقے میں اہل تشیع حضرات کی اکثریت ہے اور میرے گاؤں کے 300 مربع اراضی کے 90% سے زائد مالک شیرازی اور گردیزی کہلاتے ہیں اور ایک بات جو سب میں مشترک ہے وہ شکار سے پرہیز ہے، اور میں ٹھہرا کچھ باغی طبعیت کا لیکن اس کے باوجود نا میں نے کبھی اس ممانعت کے بارے میں پوچھا اور نا ہی کبھی انہوں نے مجھے منع کیا۔

اس دن ڈیرہ پر سر شام ہی آگ جلائی اور منشی نے چاۓ چولہے پر چھڑھانے کے ساتھ ساتھ حقہ تازہ کر کے رکھ دیا، تاکہ قریب کے رہائشی اور آنے جانے والے آگ سینکیں چاۓ کے ساتھ حقہ گڑگڑاتے رہیں کیونکہ دائیں بائیں کی فصلوں کو پانی لگ رہا تھا اور اس سخت سردی کے موسم میں بھی کافی چہل پہل تھی۔ اسی دوران ایک شیرازی صاحب ڈیرہ پر تشریف لاۓ جن کو کے سب علاقہ مکین پیر صاحب کے نام سے جانتا ہے آتے ہی چاۓ کا کپ اٹھایا اور گرم چاۓ حلق سے نیچے اتارنے کے بعد سلام دعا ہوئی، کہنے لگے کے آج پانی کی باری ہے اس لئے رات آپ کے ہی ڈیرہ پر گزاروں گا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اور پھر باتوں کا نا رکنے والا سلسلہ شروع ہو گیا مجھ سے لاہور اور میں جھنگ کی باتیں پوچھنے لگا ان ہی گپوں کے دوران نا جانے کہاں سے کماد کے کھیت سے ایک گیدڑ مٹر گشتی کرتا ہوا نکلا اور انتہائی مستانی چال میں شیرازی صاحب کے سامنے سے گزرا۔
شیرازی صاحب نے حقہ کی نڑی ہونٹوں کے قریب لے جاتے ہوے ایک فقرہ کسا۔۔۔خان تو شکار کے اتنے شوقین ہوتے ہیں کے اگر کچھ نہ ملے تو گیدڑ ہی مار کے کھا جاتے ہیں
میں نے انتہائی اطمنان سے گرم بھاپ اڑاتی چاۓ کا ایک گھونٹ بھرا اور عرض کی۔ پیر صاحب اگر پکڑے جائیں تو حرام وگرنہ گدھے اور کتے بھی حلال ہو جاتے ہیں۔
اور حقہ کا دھواں شیرازی صاحب کے حلق میں پھنس کے رہ گیا۔۔۔

Facebook Comments

حسام دُرانی
A Frozen Flame

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply