برق نام سے ان کی محبت و عقیدت کا ایک تجربہ مجھے بھی ہوا ہے۔2010ء میں بریگیڈیئر سیمسن صاحب کے آرٹیکل پڑھنے کے بعد جب میں ا پنے سسرال گیا تومیں نے اپنے چچا سسر سے پوچھا برق صاحب کا خاندان کہاں رہتا تھا تو انہوں نے اپنے گھر کے بالکل سامنے والے گھر کی طرف اشارہ کرکے کہا(جو اس وقت ایک خالی پلاٹ کی شکل میں تھا) یہ گھر تھابرق خاندان کا۔ 60 کی دہائی تک ماما برقنی (ایس ایم برق کی والدہ بشیر بیگم) یہیں رہتی تھیں۔ ان کے بچے تو سارے یورپ، امریکا، کینیڈا آباد ہو گئے تھے۔ لیکن ماما برقنی (سیموئیل مارٹن برق کی والدہ) سال کے کچھ مہینے یہاں گزارتی ایک تو گوری چٹی ہونے کی وجہ سے اور دوسرے زیادہ تر بچوں کے ساتھ یورپ کینیڈا گزارنے کی وجہ سے انگریزی لباس پہنتی۔ اس لیے مارٹن پور میں آج بھی جن بزرگوں نے ماما برقنی (بشیر بیگم والدہ ایس ایم برق)کو دیکھا ہے وہ کسی چھوٹی بچی کو اسکرٹ میں دیکھ کر کہتے ہیں ”بیٹا تم تو ماما برقنی بنی ہوئی ہو“۔ لیکن ایسے لوگ کم رہ گئے ہیں۔ نئی نسل بالکل نہیں جانتی کہ برق صاحب کون تھے بلکہ برق صاحب کے ایک بھائی کا بیٹا فیروزبرق جس کے ماں باپ بہن بھائی سب ہجرت کر گئے(برق صاحب کے سارے بہن بھائی یورپ، کینیڈا، امریکا ہجرت کر گئے) تھے لیکن وہ گاؤں رہ گیا۔ اس کی آل اولاد صرف اپنے باپ سے سنی سنائی اس بات کو دوہراتی ہے کہ بالی وڈ اسٹار رنویر سنگھ ہمارا رشتے دار ہے تو گاؤں کے لوگ مذاق اْڑاتے ہیں۔ یہی حقیقت ساجدہ مومن نے 2009ء میں ایس ایم برق سے ملاقات کے بعد لکھے گئے آرٹیکل میں بیان کی۔ کچھ دن پہلے اس مضمون کی تیاری سے پہلے میں نے اپنی بیگم کے بھائی صفدر گل جو آج کل کراچی چھوڑ چھاڑ کر کھیتی باڑی کا شوق پورا کر رہا ہے، سے کہا میری فیروز برق سے تو بات کروانا تو اس نے مذاق میں کہا ٹھیک ہے بات تو کروا دوں لیکن وہ بْور بڑا کرتے ہیں کہ رنویر سنگھ کو بھی اپنا قریبی رشتے دار قرار دیتے ہیں۔ میں نے کہا کہ یہ بات سچ ہے۔ وہ ان کی سگی پھوپھی کا پوتا ہے۔ ایس ایم برق کی سگی بہن چاندبرق جس نے قیام پاکستان سے پہلے فلم انڈسٹری جوائن کی،رنویر سنگھ کی دادی ہیں۔ صفدر نے کہا آپ کہہ رہے ہیں تو چلو مان لیتے ہیں آپ کی تصدیق سے ان کا بھلا ہو گیا ورنہ گاؤں کے لوگ تو یہ بات سن کر ان کا مذاق اْڑاتے ہیں۔
سموئیل مارٹن برق کا یہ بھتیجا اپنی زندگی کے شب و روز میں مست ہے۔ صفدر کی بیوی نے میری ان سے بات کروائی۔میں نے ان سے ان کا ٹیلی فون نمبر لیااور پوچھا کیا آپ کی دادی بشیر بی بی المعروف ماما برقنی مارٹن پور میں ہی دفن ہیں تو انہوں نے کہا ہاں وہ یہیں دفن ہیں۔ میرے ذہن میں اس سوال نے جنم لیا کہ کھوج لگانی چاہیے کہ بشیر بی بی کی وفات کب ہوئی؟کیا بیٹا ماں کی وفات پر پاکستان آیا تھا یا نہیں؟ میں نے فیروز برق سے کہا آپ مجھے اپنی دادی کی قبر کی تصویر تو بھیجیں۔ وہ اپنی زندگی میں مست ایک ایسا شخص جو بہت ساری ماضی کی باتیں شاید یاد رکھنا ہی نہیں چاہتا۔ انہوں نے کہا میں تو بہت مصروف ہوں لیکن میں کسی کو کہوں گا۔ میں نے اپنے سسرالیوں، رشتے داروں کو کہا۔ انہوں نے پہلے ٹال مٹول کی اورپھر ان کے فون خراب ہونے شروع ہو گئے۔ وہ عملی لوگ ہیں اور عملی لوگوں کے پاس ایسی فضولیات کے لیے وقت نہیں ہوتا۔عملی لوگ پنجابی کے اس محاورے پر بھی یقین رکھتے ہیں کہ (بندہ کماں نال ای ملدا سوہنا لگدا اے) بندہ کاموں کے ساتھ ہی ملتا جلتا اچھا لگتا ہے۔عملی لوگ اس محاورے کا مطلب یوں لیتے ہیں کہ بندہ اپنے کام سے ہی ملتا اچھا لگتا ہے۔
اس دوران میں مسلسل فیروز برق صاحب کو بھی تنگ کرتا رہا اور ایک دن میں نے عمران جولین سے کہا۔انہوں نے فوراً مارٹن سموئیل برق کے کسی چچا زاد بھائی کے پوتے مقصود جلال سے میری بات کروائی۔ ان دونوں نے جا کر خیر الدین برق اور بشیر بی بی برق کی قبروں کی تصویریں بھجوائیں جس کے مطابق بشیر بی بی کی تاریخ وفات7جون1976ء تھی اور تاریخ پیدائش 23جنوری 1888ء۔اب یہ سوال میرے دل میں اور گہرا ہوا کہ عظیم سفارت کار جو بقول عمران جولین کے رشتے کے دادا 1958ء میں آخری دفعہ گاؤں آیا تھا۔ کیا 1976ء میں گاؤں آیاتھا یانہیں۔ میں فیروز برق سے یہ پوچھتا رہا۔انہی دنوں میرے ایک اور سالے سیمسون گل کی شادی فیروز برق کی بیٹی سے ہو گئی یہ خاتون مطلقہ اور سیمسون گل رنڈوا تھا۔ اس شادی نے بھی اس تحقیق کو آگے بڑھایا کیونکہ فیروز برق نے اس کی نئی رشتے داری کا پاس رکھتے ہوئے یامیرے مسلسل کہنے سے تنگ آ کر ایک دن فیروز برق نے اپنے بیٹے سے کہا انہیں اپنے چاچو راجہ چنگیز کا نمبر دے دو۔ اس نمبر پر میں نے فون کیا۔ ڈاکٹر راجہ چنگیز کے بیٹے سے بات ہوئی۔ انہوں نے بتایا میرے والد فار ایسٹ گئے ہوئے ہیں۔ وہ کچھ دنوں میں آ رہے ہیں آپ کی بات کرواؤں گا۔
مشنریوں نے 1890 میں مارٹن پور گاؤں کی بنیاد رکھی تو چوہدری اللہ دتہ بھی ان 72خاندانوں میں سے ایک تھا جنہیں ڈاکٹر مارٹن سموئیل نے (بانی مارٹن پورگاؤں) ان کی سماجی معاشرتی بھلائی کے لیے بنائے گئے اس منصوبے کے تحت وہاں بسایا تھا۔ چوہدری اللہ دتہ کے تین بیٹے تھے خیرالدین برق، عزیز دین اور برکت گو کہ چوہدری اللہ دتہ مسیحیت قبول کر چکا تھا لیکن اس کے بھائی راجہ گلاب خان نے اس کے باوجود ا پنی بیٹی بشیر بی بی کی شادی اپنے بھائی کے بیٹے خیر الدین سے کر دی۔بشیر بی بی بھی اس دور میں میٹرک پاس تھی۔ خیر الدین نے بی اے بی ایڈ کیا ہوا تھا اور فارسی شاعری کرتا تھا اور کچھ عرصہ مارٹن پور اسکول میں بطور ٹیچر بھی کام کرتا رہا۔ وہ اس وقت کے مشہور مشنری اسکول رنگ محل لاہور میں بطور سیکنڈ ہیڈ ماسٹر اور شملہ میں بھی مشنری اسکولوں میں پڑھاتے رہے۔ بشیر بی بی نے بھی ٹیچر ٹریننگ کر لی اور وہ بھی مشنری اسکولوں میں بطور ٹیچر پڑھاتی رہی۔ راجہ چنگیز اکبر کی بتائی تفصیلات اور اسکول کے آنر بورڈ سے یہ بات یقینی ہے کہ خیر الدین برق المعروف کے ڈی برق کبھی بھی مارٹن پور ہائی اسکول میں ہیڈ ماسٹر نہیں رہے اور سموئیل مارٹن برق کا میٹرک بھی رنگ محل سی ٹی آئی یا شملہ کے کسی مشنری اسکول سے ہو گا کیونکہ سمووئیل مارٹن برق نے1928 میں آئی سی ایس میں شمولیت اختیار کی۔ اس کامطلب ہے کہ ان کی میٹرک1920یا 1922ء کے قریب کی ہو گی جب کہ اس وقت مارٹن پور اسکول پرائمری یا مڈل اسکول ہو گا۔ اس سے پتہ لگتا ہے کہ مارٹن سموئیل برق نے ابتدائی یا مڈل تک تعلیم مارٹن پور اسکول سے حاصل کی ہو گی میٹرک کہیں اور سے کیا ہو گا۔ جیسے کہ پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے سمو ئیل مارٹن اپنے والدین کی بارہ اولادوں میں سے چوتھے نمبر پر تھے۔ ان سے پہلے ان کے تین بہن بھائی اوائل عمری میں انتقال کر گئے۔ ایس ایم برق کے چار اور بھائی تھے عمانوئیل ایل برق پھر ایل جی برق پھر ڈینئیل برق جو کہ فیروز برق کے والد تھے پھر راجہ اکبر برق جو کہ راجہ چنگیز کے والد تھے۔ اس کے بعد ان کی چار بہنیں تھیں سب سے پہلے جو زفین جن کی شادی کسی سینئر نیول انگریز افسر سے ہوئی وہ کینیڈا ہجرت کر گئے۔ اس کے بعد آئی لین جن کی شادی الکانہ خاندان میں ہوئی وہ بھی کینیڈا ہیں۔ پھر نور جہاں برق جن کی شادی ایک مسلمان آرمی افسر سلیم شیخ سے ہوئی۔ پھر چاند برق جو کہ فلم انڈسٹری سے وابستہ تھی ان کی شادی سکھ خاندان میں ہوئی ان کے پوتے رنویر سنگھ ہیں۔ ان کے بھائی راجہ اکبر برق (والد راجہ چنگیز برق نے اسلام قبول کر لیا۔ اور ان کا گھرانہ لاہور میں مقیم ہے۔ باقی تینوں بھائی بھی کینیڈا ہجرت کر گئے۔انہی میں سے ایک کی بیٹی گریس سپروےGrace Spurvey ہے۔
میری تسلی پھر بھی نہیں ہو رہی تھی میں نے راجہ چنگیز کو کہا کہ ساجدہ مومن نے برق صاحب کی زندگی میں جو ان پر آرٹیکل لکھا تھا ان چھ کتابوں کے علاوہ ان کی سوانح حیات لائف آف فْل فِلمنٹA Life of Fulfillment کے بارے میں لکھا ہے آپ کے پاس اگر وہ کتاب ہے تو مجھے دیں راجہ صاحب نے کہا کہ میں چیک کرتا ہوں۔ مگر ان کے پاس نہیں ملی تو میں نے انہیں صلاح دی کہ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے کزنز کو اور خاص کر برق صاحب کی بچیوں کو گزار ش کریں۔ انہوں نے بہت کوشش کی آخر کار ان کی ایک کزن گریس سپروےGrace Spurvey کینیڈا کے شہر البرٹا سے اطلاع دی کہ میرے پاس یہ کتاب ہے۔ راجہ صاحب نے میرے کہنے پر ان سے گزارش کی کہ اسکین کرکے واٹس اپ کر دیں۔ لیکن یہ بیل بھی منڈے نہ چڑی کیونکہ وہ خاتون کوورڈ کی وجہ سے اپنے دفتر جاتی نہیں اور گھر میں انہیں فون کے ذریعے اسکین کرنا آتا نہیں پھر بھی انہوں نے کوشش کرکے چند صفحات بھجوائے۔ پھر کینیڈا ٹورنٹو میں تحریک شناخت کے رضا کار ڈینئیل نیامت سے درخواست کی آپ ان سے کسی بھی طرح فوٹو کاپی لے کر بھجوا دیں۔ ڈینئیل صاحب اور میں نے اس خاتون کو درخواست کی البرٹا میں ہمارا کوئی دوست آپ سے کتاب لے کر اس کی کاپی کرکے آپ کو کتاب واپس کر دے گا۔ لیکن محترمہ گریس نے اس کا بھی کوئی جواب نہیں دیا۔ اس سے پہلے میں نے برطانیہ میں مقیم اپنی تایا زاد بہن جوزفین جارج اور ان کے میاں شمیم جارج کو اس کام پر لگا چکا تھا۔ یہ دونوں میاں بیوی تحریک شناخت کے انتہائی سرگرم رضا کار ہیں۔ انہوں نے بہت کوشش کی کہ کہیں سے یہ کتاب مل جائے۔ یا برق صاحب کی بیٹیوں سے کوئی رابطہ ہو جائے۔ لیکن کامیابی نہ ہوئی حتیٰ کہ جوزفین نے کووورڈ کے دوران اپنے بیٹی شان جارج کے ساتھ کئی لائبریریوں کو بھی چھان مارا اور ان کے فرمانبردار پڑھے لکھے بیٹوں نے انٹرنیٹ پر بھی سرچ کیا مگر کہیں سے بھی کوئی کھوج نہیں لگا۔ میں نے ایک دن پھر راجہ صاحب سے کہا کہ برق صاحب کی بیٹیوں میں سے کسی ایک کا نمبر دیں۔ یوکے میں تحریک شناخت کے بہت رضا کار ہیں۔ وہ وہاں ان کے پاس جا کر ان سے کتاب لے کر کاپی کروا کر انہیں کتاب واپس کر دیں گے۔ راجہ صاحب نے برق صاحب کی بیٹی نوئیل پارسنز کا فیس بک لنک بھجوا دیا۔ میں اور جوزفین مسلسل مسز نوئیل کو یہ درخواست بھیج رہے ہیں۔ مگر کوئی جواب نہیں ملا۔جب جوزفین اور اس کے بچے شان جارج ایس ایم برق کی بیٹیوں اور نواسے اور نواسیوں کی تلاس میں تھے انہیں دنوں مجھے برق صاحب کی بیٹی نوئیل پرسنز کے فیس بک پر بریگیڈیئر سیمسن شرف صاحب نظر آئے میں نے فوراً انہیں فون کیاانہوں نے برق صاحب کی ایک نواسی کا نام اور پتہ دیا میں نے وہ جوزفین کو فارورڈ کیا۔ شان اور جوزفین کی ان کی نواسی ساچا سے بات بھی ہو گئی انہوں نے برق صاحب کی آب بیتی بھجوانے کا وعدہ بھی کر لیا۔ لیکن یہ سطریں لکھنے تک ابھی آٹو بائی گرافی ہمارے ہاتھ نہیں لگ سکی تھی۔ اس لئے جو چند صفحات برق صاحب کی بھتیجی نے بھجوائے تھے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس آب بیتی میں سے ان کے بارے میں ہر تفصیل درج ہے۔ کیونکہ یہ صفحات کتاب کے پہلے صفحات پرمبنی ہیں جس میں مضامین کی فہرست ہے۔
جاری ہے
تعارف:اعظم معراج کا تعلق رئیل اسٹیٹ کے شعبے سے ہے۔ وہ ایک فکری تحریک تحریک شناخت کے بانی رضا کار اور 18کتب کے مصنف ہیں۔جن میں “رئیل سٹیٹ مینجمنٹ نظری و عملی”،پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار”،دھرتی جائے کیوں پرائے”پاکستان کے مسیحی معمار”شان سبزو سفید”“کئی خط اک متن” اور “شناخت نامہ”نمایاں ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں