وقت اور انسانی شعور۔۔ڈاکٹر مختیار ملغانی

صبح کا وقت نصابی کاروائیوں کیلئے معین ہے، غیر نصابی سرگرمیاں شام کو عمل میں لائی جاتی ہیں، نصابیات اپنی فطرت میں ثقیل، بدمزہ، غیر دلچسپ بلکہ کسی حد تک ڈراؤنی واقع ہوئی ہیں کیونکہ ان کا تعلق روزمرہ زندگی کے تلخ حقائق سے ہے اور انسانی اعصاب ایسی رودادوں پر چشم پوشی کو ترجیح دیتے ہیں، البتہ غیر نصابی سرگرمیاں چونکہ سماجی یا اخلاقی پہلوؤں سے جبری نہیں اس لیے ان میں دلچسپی اور نفسیاتی اطمینان ناگزیر ہیں، نصابی مشاغل سماجی اور انتظامی نکتہ نگاہ سے اپنی جگہ یقینا اہم ہیں لیکن فنون لطیفہ، سائنس اور دیگر علوم کے حقیقی فن پارے غیر نصابی مصروفیات کا نتیجہ ہیں۔

عملی زندگی کے فیصلوں کیلئے بہترین وقت صبح کا ہے جبکہ عمومی مغز ماری کی لکیر سے باہر نکلنے کیلئے غروب آفتاب کا انتظار کیا جانا چاہیے۔ حقیقت سے دور لکھے گئے تمام افسانے شام کے مرہون منت ہیں، انسانی تہذیب میں رائج اساطیری کہانیاں بلاشبہ غیر نصابی وقت میں لکھی گئیں، اساطیری کہانیوں کی بابت یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کہ کہانی کے ہیرو کا کبھی بھی صرف ایک رخ نہ دکھایا گیا بلکہ اس بات پہ زور دیا گیا کہ شام کے حسین مناظر سے جڑے حسن و عشق کے گہرے جذبات میں ڈوبا ہیرو زندگی کے تلخ حقائق، جیسے روزگار، سماجی روایات، کوہ کنی و دیگر مرئی و غیر مرئی بلاؤں کے سامنے بھی سینہ سپر رہتا ہے، ایسا اس لیے کیا گیا کہ لوک کہانیاں سماج کے روزوشب میں مقبول رہیں، وگرنہ یہ تمام داستانیں مختصر عمر پاتیں۔

وقت ِ شام اور غیر نصابی سرگرمیوں نے ہی عظیم ترین دریافتوں کا در کھولا، اسی اہمیت کو دیکھتے ہوئے مغرب میں Pub culture متعارف ہوا، جہاں اعلیٰ  اذہان تبادلۂ خیال کیا کرتے، مشرق کے موسم اور روایات میں چونکہ یہ خاص مشروب اپنی جگہ نہ بنا پایا، اس لئے یہاں حقہ زیادہ مقبول ہوا، دونوں کا مقصد ایک ہی ہے کہ زندگی کی نصابی بدمزگی سے بلند ہوکر نہ صرف اعصابی سکون کا سامان کیا جائے بلکہ انسانی ذہن کے پوشیدہ تہہ خانوں کی کنجی تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کی جائے، یہاں غور کرنے کیلئے  ایک ذیلی نکتہ یہ بھی ہے کہ برصغیر کے سینماؤں میں عقلی یا منطقی (Rational) فلموں کا رواج اس لیے نہیں کہ یہاں بندۂ مزدور کے اوقات بہت سخت ہیں، اپنی شام اور غیر نصابیت کو وہ اس سختی سے دور رکھنا چاہتا ہے، اسی لیے جذبات و افسانویت سے بھرپور کہانیاں ہی اس کی دلچسپی کا مرکز ہیں۔

انسانی ذہن پہ صبح و شام کے مختلف اثرات پر سب سے خوبصورت بحث امریکی پروفیسر جوزف کیمبل نے کی ہے، انہوں نے دریا کو کوزے میں بند کرتے ہوئے فرمایا کہ صبح انسانی شعور ہے اور شام لاشعور، صبح کے وقت تمام حواس خمسہ پوری طرح ہوشیار ہوتے ہیں، اس کی وجہ ایریکسن نامی ہارمون ہے جو سورج کی پہلی شعاعوں سے جسم میں پیدا ہوتا ہے، جبکہ شام کا معاملہ بالکل مختلف ہے، اس وقت حواس خمسہ مدھم پڑ جاتے ہیں، نتیجے میں چھٹی حس متحرک ہوتی ہے ، سورج کے غروب ہونے پر میلاٹینین ہارمون جسم میں ریلیز ہونا شروع ہوتا ہے، یہ فرد کی نیند کیلئے  جوابدہ ہے، نیند ہی سے خواب جڑے ہیں، خواب ہی نے فرد کو بیکراں کا تصور دیا، درحقیقت ارتقائی سفر میں شب خوابی ہی نہ صرف بے خوابی کی اصل وجہ بنی بلکہ دن کو خواب دیکھنے والا معاملہ بھی شب کے اسی خوابوں سے جڑا ہے جس نے فرد کو قیدو بند سے باہر کی دنیا دکھائی، انہی خوابوں کے نتیجے میں انسانوں نے مادی دنیا میں باہری کائنات پر غور وفکر کیا اور غیر مادیت کو لے کر شعور کی اوپری سطح سے لاشعور کی گہری تہہ میں غوطہ زنی کی مشق شروع کی۔

انسانی شعور کائنات میں پھیلی معلومات تک کوئی رسائی نہیں رکھتا، یہ لاشعور ہے جسے اس “تہہ خانے” میں تانک جھانک کی اجازت ہے، یہی آنکھ مچولی درحقیقت پیش بینی، پیش گوئی، وجدان ، چھٹی حس، دریافت اور فنون لطیفہ کے فن پاروں کا منبع ہے ۔

انسانی ذہن تک معلومات کے پہنچنے کے دو ہی ذرائع ہیں، ایک ذریعہ معلومات کا بیرونی دنیا سے دخول ہے، یہ معلومات حواس خمسہ کی مدد سے کی گئی تشریح و تفسیر کہلائی جا سکتی ہیں، دوسرا دروازہ اندرونی دنیا کا ہے ، یعنی لاشعور سے جو معلومات انسانی ذہن میں داخل ہوتی ہیں، یہ معلومات کسی باکرہ دوشیزہ کی طرح پوتر اور ان چھوئی ہوتی ہیں اور اس کا انحصار ذہن پر ہے کہ وہ اس کی کیسے تشریح کرتا ہے ۔ ضمنی طور پر یہاں یہ ذکر بے سود نہ ہوگا کہ سرسید احمد خان کا خیال تھا کہ وحی اپنی اصل میں روحانی علم کا اسی لاشعور کے دروازے سے انبیاء کے شعور پر دستک دینے کا نام ہے، اسی لیے وہ فرشتوں کے وجود کے قائل نہ تھے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

وقت کی رفتار کو لے کر انسان ہمیشہ متجسس رہا، اس تجسس کا اصل مقصد وقت پہ قابو پانا ہے، شاید ایسا عملی طور پر ممکن نہ ہو ، لیکن کم از کم رفتار کے اس احساس کو کسی نہ کسی طرح بدلا ضرور جا سکتا ہے، ہمارے ایک دوست نے اپنے کچھ تجربات شیئر کئے ہیں، انہی تجربات میں ایک یہ بھی تھا کہ صبح اور شام کے اوقات کو اگر مصنوعی طور پر بدل دیا جائے، یعنی صبح کو اندھیرے کمرے میں رہا جائے تو ایسے میں وقت کی رفتار پر کچھ فرق نہیں پڑتا، لیکن اگر شام کے تاریک سائے میں انگیٹھی میں آگ کا بندوبست کیا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ وقت کی رفتار سست پڑ گئی ہے، وصل کے لمحات میں عشاق کیلئے یہ دیومالائی نسخہ ایک آسمانی ہدیہ ثابت ہو سکتا ہے ۔ شام اپنے اندر بڑی وسعت لئے ہوئے ہے، یہیں سے انسانی ذہن پر طاری حدود پامال ہوتی ہیں، شاید اسی لئے عمر خیام نے کہا تھا کہ رات کے گناہ کو گناہ نہ گردانا جائے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply