آخر تمہیں آنا ہے۔۔مرزا مدثر نواز

ان کے والد نے بہت زیادہ جائیداد بنائی‘ جو جمع پونجی ہوتی اس سے مزید زمین خرید لی جاتی۔ کام کاج کے سلسلے میں دونوں بھائی بھی یورپ چلے گئے‘ زندگی خوشحالی سے مزید خوشحالی کی طرف رواں دواں ہو گئی۔ والد کا انتقال ہوا تو کچھ عرصہ بعد وراثت کی تقسیم پر دونوں بھائیوں کے درمیان اختلافات سر اٹھانے لگے جن میں وقت کے ساتھ شدت آتی گئی۔ وراثت تقسیم ہو گئی لیکن دلوں میں نہ ختم ہونے والی ناراضگی کا بیج بو گئی۔ وہ بھائی جو کبھی ایک دوسرے کی آنکھ کا تارا تھے‘ایک دوسرے کی رائے و صلاح کے بغیر کوئی کام نہیں کرتے تھے‘ اب آمنا سامنا ہونے پر نظریں چرانے لگے۔ اسی کش مکش میں کچھ عرصہ بعد چھوٹا بھائی بھی اچانک اس جہان فانی سے پردہ فرما گیاجبکہ زمینیں‘ جائیدادیں‘ محلات‘مستقبل کے منصوبے‘ رشتہ داروں سے ناراضگیاں ادھر ہی رہ گئیں۔
؎آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں
سامان سو برس کا ہے پل کی خبر نہیں

ہم اکثر اس بات پر چونک جاتے اور سکتے میں آ جاتے ہیں کہ ہمارا جاننے والا‘ دوست‘ ساتھی‘ عزیز جو ابھی کل ہمارے ساتھ تھا‘ آج اس دنیا میں نہیں رہا۔ ایسے واقعات ہمیں یہ پیغام دیتے ہیں اور جھنجھوڑتے ہیں کہ اگر فلاں اس دنیا میں نہیں رہا تو جلد یا بدیر ہم بھی نہیں ہوں گے۔ لیکن کچھ دیر کی عارضی کیفیت کے بعد ہم پھر بھول جاتے ہیں اور مشغلات دنیا میں کھو جاتے ہیں‘ یہی خیال کرتے ہیں کہ جس کو قبر میں اتار رہے ہیں‘ مرنا اسی نے تھا جبکہ میری تو ابھی بہت لمبی عمر باقی ہے۔ ہر چلنے والے کی ایک منزل ہے اور ہر پیدا ہونے والے نے ایک نہ ایک دن اس دنیا کو چھوڑنا ہے۔ مرنا ایک حقیقت ہے جس کو جھٹلایا نہیں جا سکتا‘ خالق کائنات پر یقین نہ رکھنے والے نہ جانے کیوں فلسفہ موت و حیات پر غور نہیں کرتے‘ نظام ہستی کو چلانے والے کی موجودگی کی اس سے بڑی دلیل کیا ہو سکتی ہے؟کتاب لا ریب میں ہمیں یہ بتا دیا گیا ہے کہ ہر ذی روح چیز نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے‘ ایک اور مقام پر ارشاد ہوتا ہے‘ ترجمہ:”زمین پر جو ہیں سب فنا ہونے والے ہیں۔صرف تیرے رب کی ذات جو عظمت اور عزت والی ہے باقی رہ جائے گی“(الرحمٰن)۔ ”اور اللہ کے ساتھ اور کسی معبود کو نہ پکار‘ اس کے سوا اور کوئی معبود نہیں‘ اس کی ذات کے سواہر چیز فنا ہونے والی ہے‘ اسی کا حکم ہے اور اسی کی طرف تم لوٹ کر جاؤ گے“ (القصص‘۸۸)۔

زندگی انتہائی مختصر ہے جس کو اچھے اور نیک کاموں میں گزارنے کی سعی کرنی چاہیے۔ ایک دن مرنے اور پھر موت کے بعد جی اٹھنے پر ایمان رکھنے کے باوجود نہ جانے کیوں‘ میں بنی نوع انسان اپنے ہم جنسوں کو دکھ دینے سے باز نہیں آتا‘ آسانیاں بانٹنے کی بجائے مشکلات پیدا کرنے کی تگ و دو میں لگا رہتا ہوں‘ لوگوں کی زمینوں پر ناجائز قبضے کرنے کی کوشش کرتا ہوں‘ فلاحی کاموں میں روڑے اٹکاتا ہوں اور جو فلاحی کا م کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں ان کی ٹانگیں کھینچتا ہوں‘ جائز و ناجائز‘ غلط و درست‘ حلال و حرام میں تمیز نہیں کرتا‘ ذاتی فائدے کے لیے رشوت لینے اور دینے میں پیش پیش ہوتا ہوں‘ لوگوں کی سہولت کی خاطر گزرگاہوں کو کشادہ کرنے کی بجائے اور تنگ کر دیتا ہوں‘ حسد‘ بغض‘ کینہ جیسی بیماریوں و کیفیات کو اپنے اوپر طاری کر لیتا ہوں‘ ہمسائے کو خوش و خوشحال نہیں دیکھ سکتا اور اس کے دین میں بیان کیے گئے حقوق کی پرواہ نہیں کرتا‘ اپنے دوسرے مسلمان بھائیوں کی جان‘ عزت‘ مال کو احترام کی نگاہ سے نہیں دیکھتا‘ اپنے اندر کے چودھری کو مغلوب کرنے کی بجائے اپنے اوپر غالب ہونے دیتا ہوں اور ہمیشہ اپنے ہی مفاد کو کیوں ترجیح دیتا ہوں؟

Advertisements
julia rana solicitors

یہ سوچنا چاہیے کہ مرنے کے بعد اپنے حقیقی خالق کے سامنے اپنے اعمال کی جواب دہی پر کیا میں سچے دل سے ایمان رکھتا بھی ہوں یا نہیں؟ داناؤں نے کیا خوب کہا ہے کہ ”نصیحت کے لیے موت ہی کافی ہے“۔ ”لذتوں کو ختم کرنے والی موت کو کثرت سے یاد کیا کرو“۔ ”موت کو یاد رکھنا نفس کی تمام بیماریوں کی شفاء ہے“۔ ”تین چیزوں کو یاد رکھو‘ احسان‘ نصیحت‘ موت“۔ ”قریب تر چیز موت ہے“۔ ”انسان اپنی زندگی میں ہر چیز کے پیچھے بھاگے گا مگر دو چیزیں اس کا پیچھا کریں گی‘ اس کا رزق اور اس کی موت“۔”جو موت کو اکثر یاد رکھتا ہے وہ دنیا کی تھوڑی شے پر راضی ہو جاتا ہے“۔ ”جب تمہیں دنیاوی رنج و غم پہنچے تو موت کو یاد کر لیا کرواس کا سہنا آسان ہو جائے گا“۔ انسان کو یہ بات اچھی طرح سمجھنی چاہیے کہ اس کی اصل دنیا موت کے بعد والی دنیا ہے اور یہ دنیا جو سانس کی ڈوری کے ساتھ چل رہی ہے‘ صرف آنکھوں کا دھوکہ ہے‘ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے‘
؎تیرا نام صرف تیرے سانس تک ہے
تجھے بھول جائے گی لمحوں میں دنیا!

Facebook Comments

مرِزا مدثر نواز
ٹیلی کام انجینئر- ایم ایس سی ٹیلی کمیونیکیشن انجنیئرنگ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply