کیا رواں ماہ کے باقی ایام یا اس سے اگلے چند مہینوں کے اندر سیاسی، سماجی، اور امور مملکت کے معاملات کچھ ایسا نیا رخ لے رہے ہیں، جس کے بعد پاکستان میں ہر چیز پہلے جیسی نہ رہے گی؟ یہ سوال ایسا ہے جو کہ آج کل مملکت پاکستان کے ہر با شعور شہری کی سوچوں میں تلاطم بپا کر رہا ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان موجودہ تلخ ترین صورتحال میں کسی بھی قسم کی سیاسی و سماجی محاذ آرائی کا متحمل نہیں ہو سکتا، لیکن سٹیٹس کو کی مخالف خاص طور پر کچھ مذہبی مکتبہ نظر کے کسی حد تک عوام الناس میں راسخ اثر رکھنے والے زعماء کے مطابق حالات کو اپنی ہی ڈگر پر بہنے کے لیے بھی نہیں چھوڑا جا سکتا۔
یہ واقعی ہی ایک مُسلمہ حقیقت ہے کہ پاکستان جس ڈگر پر ہے، خاص طور پر جبکہ معاشی میدان میں ہماری ریاست کو تلخ ترین حقائق کا سامنا ہے، ان حالات میں پاکستان نہ تو کسی غیر فطری تصادم کا ذرا سا بھی متحمل ہو سکتا ہے، اور نہ ہی موجودہ، بہت حد تک ایک ناکامی سے دوچار طریقہ پر اپنا سفر جاری رکھ سکتا ہے۔
چنانچہ موجودہ حالات میں پاکستان کے لیے بہترین حکمت عملی یہی ہے کہ تمام قوم چاہے وہ مذہبی طبقہ ہو یا سیاسی، یا پھر کوئی اور، سب لوگ عرش سے فرش پر آ جائیں۔ اپنے آپ کو فرشتہ اور دوسروں کو شیطان سمجھنا چھوڑ دیں۔ آج کل کے دور میں کسی کے بھی عیب چھپے نہیں رہ سکتے، سو حکمت و دانشمندی کا تقاضا یہی ہے کہ ایک دوسرے کو سربازار ننگا کرنا چھوڑ دیں ورنہ کل دوسرا بھی نفرت کے زور پر طاقت پکڑ کر آپ کو سربازار گھسیٹتا نظر آئے گا۔ سو پاکستانی قوم کی بہتری اسی میں ہے کہ ایک دوسرے کے قصور معاف کر کے ایک دوسرے کو محبت سے گلے لگا لیں۔ اور کوئی بھی اپنے آپ کو فرشتہ اور دوسرے کو شیطان سمجھنا چھوڑ دے۔
اگر نفرت کے بیج بونے کی روش جاری رہی تو آنے والے ایام قیامت خیز تلخیاں لانے کا ہی باعث بنیں گے اور پاکستان کے تمام کے تمام بااختیار اور عوام الناس میں اثر و رسوخ رکھنے والے لوگ بحیثیت مجموعی پاکستان کو اپنی نادانی، نااہلی اور نالائقی کے باعث ایک ایسی دلدل میں دھکیل دیں گے جہاں سے ریاست کی واپسی شاید ممکن نہ ہو سکے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں