کلبھوشن یادیو کیس ! فیصلے میں کیا ہوا؟۔۔۔۔احمد صہیب اسلم

کلبھوشن یادیو کیس کا فیصلہ آئے، ایک سال گزر گیا ہے ، اس فیصلے کی عام فہم اور درست تشریح تو لندن میں موجود ایک پاکستانی وکیل انعام رانا نے محب الوطن کے سطحی اور غیر ضروری لبادے کو ایک طرف رکھتے ہوئے قانون کی نظر سے درست درست لکھ دی تھی ۔ کلبھوشن یادیو کیس کے سیاسی ، قانونی اور بین الاقوامی پہلوؤں کی بجائے ہم کیوں نہ وہ بتائیں ، جو کہ ہم نے کورٹ روم میں دیکھا تھا ۔

۱۷ جولائ ۲۰۱۹ کو انڈین سفیر انٹر نیشنل کورٹ آف جسٹس کے ہال میں کلبھوشن یادیو کیس کا فیصلہ شروع ہونے سے لیکرفیصلے کے اختتام تک ٹینشن میں ہی نظر آئے، وہ فیصلے کو سننے کے ساتھ ساتھ عبارت تحریر کرتے کرتے دو سے تین صفحات بھی مکمل کر گئے ۔انہوں نے بازو بصورت قیام آگے لے جا کر اپنی انگلیوں کے کڑا کے بھی نکالے۔ وہ کبھی عینک اتارتے، کبھی پہنتے اور کبھی بچوں یا تھری ایڈ یٹس والے عامر خان کی طرح اپنے گالوں کو اپنے ہی ہاتھوں میں دبوچ لیتے ۔

انڈین سفیر کے برعکس ، پاکستانی سفیر شجاعت علی راٹھور کافی کمپوذڈ تھے ، انہوں نے کچی پنسل سے صفحے پر چند الفاظ ہی لکھے ہوں گے ، اس کے علاوہ وہ بہت دیر کے بعد ایک لفظ   لکھتے ، پھر پنسل کو اُلٹا کرتے اور ربڑ سے مٹا دیتے البتہ جب کورٹ نے کلبھوشن یادیو کو قونصلر رسائی دینے کا فیصلہ سنایا تو اضطراب میں وہ پنسل کے دونوں سرے دونوں ہاتھوں میں پکڑ کر پنسل کو کچھ دیر گھماتے رہے ، اس کے بعد نام لکھ کر مٹانے کی حرکت انہوں نے چند بار ہی کی البتہ وہ کچھ سیکنڈزاپنے ناخن کی بیس اور میڈیل بارڈر کا جائزہ اپنے دوسرے ناخن کو اس ناخن پر دبا کر لیتے رہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

مجموعی طور پر پاکستانی سفیر ، انڈین ایمبیسڈر سے زیادہ کمپوذڈ اور مطمئن دکھائی دیئے ۔اگرچہ جج صاحب کچھ بین الاقوامی امور کو درست نہ سمجھنے پر برابھلا پاکستان کو کہتے تھے مگر اضطراب انڈین سفیر کے چہرے پردکھائی دیتا تھا اس لئے نیدرلینڈ میں موجود انڈیا کے سفیر کو بھی پاکستان کا سفیر سمجھا جائے۔

Facebook Comments