ہم سے تعبیر سنبھالی نہ گئی۔۔پروفیسر رضوانہ انجم

کروڑوں مسلمانوں کی پُرشوق آنکھوں نے جاگتے میں ایک مشترکہ خواب دیکھا کہ ایک مملکت خدا داد ہے اور مثل جنت ارضی ہے جس میں وہ سب اپنے پروردگار کی رضا کے رنگوں میں رنگے اور حبِ رسول کریمﷺ  میں ڈوبے امن،سکون،محبت اوراخوت سے زندگی گزار رہے ہیں۔انہی  میں سےایک گروہ نمودار ہوا اور ان کے خوابوں کی تعبیر ڈھونڈنے چل  پڑا ۔

مخالفتوں،دشمنیوں،رقابتوں اور مذہبی عناد کے مہیب جنگلوں میں بھٹکتا،انسانی خون،کٹے ہوئے اعضاء،لٹی ہوئی عزتوں،بھوک، ذہنی اور جسمانی اذیتوں کی پُرہول وادیوں سے گزرتا بالآخر تعبیر کی سرسبز و شاداب ،بیشمار دریاؤں،پہاڑوں،میدانوں،کھیتوں اور کھلیانوں ،ساحلوں اور بلند پربتوں کی سرزمین پر جا پہنچا۔۔۔۔تعبیر پالی لیکن خواب ٹوٹ گیا،توڑ دیا گیا ۔افسوس!صد افسوس!

پہلے اپنے پرائے  کی سازشوں سے خواب کا ایک مور پنکھ ٹوٹا۔۔۔ پھر بارہا فوجی بوٹوں کی دھمک نے جمہوریت کے بدن کو روندا ۔پھر ضمیر بکے،ذہن بکے،کتاب بکی،نصاب بکے،راز بکے،پگڑیاں بکیں،پگڑیوں والے بکے۔۔۔تخت بکے،تخت نشین بکے حتیٰ کہ نوزائیدہ آنکھیں سوتے میں بھی خواب دیکھنا بھول گئیں۔ خواب بھی ٹوٹ گیا اور تعبیر بھی زمانے کی تیز قدم ٹھوکروں سے فیتی فیتی ہوگئی۔ امن اور محبت کی جگہ بم دھماکوں میں اپنوں کی لاشوں کے چیتھڑے اڑے،رضائے الٰہی کی جگہ رضائے فرنگی نے لے لی۔حب رسول  ﷺ  کو فرقہ واریت نے میرا مسلک تیرا مسلک کی نفرتوں میں تقسیم کردیا۔بت تو نہیں پوجے گئے لیکن شخصیتوں کے بت ہر ذہن میں پوجے گئے۔

ایسا نہیں کہ مملکت خدا داد نے مادی ترقی نہ کی ہو،دولت کا ارتکاز اور استعمال نہ بڑھا ہو،کارخانے نہ چلے  ہوں،اشیاء وخدمات پیدا نہ کی گئی ہوں،اسلحے کے انبار نہ لگے ہوں۔

مادے نے مادیت کمائی اور چند تجوریوں میں بند کردی۔تجوریوں کے باہر ہجوم غفیر عام انسانی ضرورتوں کے لیے کل بھی ترستا رہا اور آج بھی ترس رہا ہے اور شاید آئندہ بھی ترستا رہے گا۔

آج مملکت خداداد میں جنگ جیتنے کے لیے چاغی کے پہاڑ کی گواہی اور کہوٹہ کے ایٹمی پلانٹ کی ضمانت تو ہے،لیکن غریب کے ہاتھ اور پڑولےاب بھی خالی ہیں۔طالب علم کا مستقبل اور دیہاڑی دار کی روٹی آج بھی داؤ پر لگے ہیں۔

جس قوم کا اندرونی خوف ایٹم بم بھی دور نہ کرسکا اسکی نوجوان نسل نئے خواب کیسے دیکھے گی ؟

Advertisements
julia rana solicitors

ہم سے تو پہلے خواب کی تعبیر ہی نہ سنبھالی گئی۔۔۔افسوس،صد افسوس!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply