انسان اپنی زندگی میں متعد انواع کی غلطیاں کرتا ہے. یہ غلطیاں کبھی عجلت و جذبات, کبھی کم علمی و کم فہمی تو کبھی انتقام و عناد میں سرزد ہوتی ہیں، ان غلطیوں میں بعض غلطیاں اتنی سنگین ہوتی ہیں کہ ان سے بسا اوقات انسان کے پورے وجود کو خوف و خطر لاحق ہو جاتا ہے. یہی معاملہ اس وقت مسلم لیگ ن کا ہے۔
تاریخ سے قطع نظر, حالیہ چند سالوں کا اگر جائزہ لیا جائے تو ن لیگ سے ایسی ہی دو بڑی غلطیاں سرزد ہوئی ہیں۔
پہلی بنیادی غلطی انتخابات سے محض ڈیڑھ سال قبل, ایک چلتی ہوئی حکومت کو گرا کر اور ایک ایسے وقت جب ملکی معشیت انتہائی نازک دور سے گزر رہی تھی میں اقتدار کا حصول تھی۔دوسری غلطی جو دراصل پہلی غلطی سے مربوط و مسبوط ہے وہ اقتدار کے حصول کے لیے فوج کی معاونت حاصل کرنا ہے۔ جبکہ حصول اقتدار سے کچھ مدت قبل تک ن لیگ کا بیانیہ “ووٹ کو عزت دو” اور تحریک انصاف و فوج اتحاد کی مخالفت تھا۔
متعین طور پر یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ ن لیگ کے حصول اقتدار میں کیا خاص حکمت پنہاں تھی البتہ بادی نظر میں تاثر یہی ہے کہ ن لیگ دراصل اس مدت اقتدار میں بالعموم اپنے راہنماؤں اور بالخصوص مریم و نواز شریف کے مقدمات کو ختم کر نا چاہتی ہے۔ ایک دوسرا تاثر یہ ہے کہ ن لیگ اس مدت میں کچھ نمایاں اقدامات کر کے اگلے انتخابات تک مجموعی عوامی تاثر کو بہتر کرنا چاہتی تھی تاکہ وہ آئندہ انتخابات میں کامیابی حاصل کر سکے، لیکن واقعہ یہ ہے کہ ان دونوں محاذوں پر ن لیگ بظاہر ناکام ہی نظر آتی ہے۔
دوسری اساسی غلطی جو ن لیگ سے ہوئی اور ہو رہی ہے وہ یہ کہ ن لیگ اپنے لیے نہ تو کوئی بیانیہ تشکیل دے سکی ہے اور نہ آئندہ کی سیاست کا کوئی لائحہ عمل طے کر سکی ہے۔ن لیگ کی موجودہ سیاست کا مدار کسی بیانیہ کے بجائے عمران مخالف سیاست پر ہے۔ اس طرز عمل سے ن لیگ کے دیرینہ ووٹرز تو متاثر ہو سکتے ہیں اور انکو نفسیاتی تسکین بھی میسر آ سکتی ہے لیکن یہ طرز عمل ووٹ بینک میں اضافے کا موجب نہیں ہو سکتا ہے۔نئے ووٹر کی شمولیت سیاسی جماعت سے ایک مستقل بیانیہ و لائحہ عمل کا تقاضا کرتی ہے وگرنہ بصورت دیگر سیاسی جماعت اس سے محروم رہتی ہے۔

ن لیگ اگر آئندہ بھی اپنی سیاست کا مدار کسی مستقل بیانیہ و لائحہ عمل پر رکھنے کے بجائے, عمران مخالف سیاست ہی کرتی رہی تو اس سے عمران خان کو تو شاید کوئی نقصان نہ پہنچے لیکن ن لیگ کی سیاست کو بری طرح سے نقصان پہنچے گا ۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں