کینسر (57) ۔ معمے کا ٹکڑا/وہاراامباکر

میموگرافی سادہ تکنیک ہے جو ہائی رسک خواتین میں کینسر جلد تشخیص کر کے عمر بڑھا سکتی ہے۔ لیکن آخر ایسا کیوں ہے کہ اتنی سادہ، سستی اور آسان تکنیک سے ہونے والے فائدہ کو جانچنے میں پانچ دہائیاں اور نو ٹرائل لگ گئے؟

Advertisements
julia rana solicitors london

اس کے جواب کا ایک حصہ تو ٹرائل کرنے میں کمزوریوں میں تھا۔ لیکن ایک حصہ اس پرانے مخمصے کا ہے جو ضرورت سے زیادہ اور ضرورت سے کم حساسیت کا ہے، جس میں ایک اہم نکتے کا اضافہ بھی ہے۔
میموگرام ابتدائی کینسر دریافت کرنے کے لئے بہت اچھا آلہ نہیں ہے۔ اس کے غلط مثبت اور غلط منفی کا انحصار مریض کی عمر پر ہے۔ پچپن سال سے زیادہ عمر کی خواتین میں چھاتی کا کینسر اتنا عام ہے کہ سکریننگ کروانا طویل مدت میں فائدہ دیتا ہے۔ جبکہ چالیس سے پچپن سال میں غلط مثبت کا تناسب زیادہ ہے۔ اور میموگرافی کو جتنے بھی بہترین طریقے سے کر لیا جائے، یہ عمر کے اس حصے میں سکریننگ کے لئے بہت اچھا اوزار نہیں۔
اور اس جواب کا ایک حصہ ہمارے تصور کے بارے میں ہے۔ ہم ایک ویژوئل نوع ہیں۔ ہم چیزوں کو “دیکھنا” چاہتے ہیں۔ اور کینسر کو ابتدائی شکل میں دیکھ لینے کو ہم اس کو بچا لینے کے مترادف سمجھتے ہیں۔ جیسا کہ گلیڈویل کہتے ہیں۔ “کینسر کے خلاف جنگ اسی طرح ہونی چاہیے۔ طاقتور کیمرہ لیں۔ اس سے تفصیلی تصویر کھینچیں۔ ٹیومر کو جلد سے جلد دریافت کر لیں۔ اس سے جتنا خطرہ ہے، وہ ہمیں نظر آ جائے گا۔ بڑا ہو تو یہ برا ہے۔ جتنا چھوٹا ہو، اتنا بہتر ہے”۔
لیکن کینسر ایسے کام نہیں کرتا۔ میٹاسٹیسس وہ شے ہے جو مریضوں کو مار دیتی ہے۔ اور میٹاسٹییسس سے قبل کا ٹیومر پکڑ لینا خواتین کی جان بچاتا ہے۔ لیکن کونسا ٹیومر میٹاسٹیٹک سے قبل والی حالت میں ہے؟ اس کا انحصار اس کے سائز پر نہیں۔ اتنے چھوٹے ٹیومر جو بمشکل میموگرافی سے پکڑے جائیں، ایسے جینیاتی پروگرام رکھ سکتے ہیں کہ یہ جلد میٹاسٹیسائز ہو جائیں۔ جبکہ بڑے ٹیومر ہو سکتے ہیں جو جینیاتی طور پر بے ضرر ہوں اور میٹاسٹیسائز نہ ہوں۔ سائز سے فرق تو پڑتا ہے لیکن صرف ایک حد تک۔ ٹیومر میں نہ صرف مقدار اہم ہے بلکہ اس کے بڑھنے کا رویہ بھی۔
ایک تصویر یہ سب نہیں بتا سکتی۔ محاورہ ہے کہ “دیکھ لینے سے یقین ہوتا ہے”۔ لیکن چھوٹا ٹیومر دیکھ لینے اور اس کو نکال دینے سے آزاد ہونے کی گارنٹی نہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے جس کو یقین کرنا ہمارے لئے مشکل ہے۔
میموگرام یا پیپ سمئیر کینسر کی ابتدا میں بنائی گئی تصویر ہیں۔ اور کسی بھی تصویر کی طرح، یہ اس امید پر بنائی جاتی ہیں کہ یہ ہمیں موضوع کے بارے میں سب کچھ بتا دے گی۔ اس کی نفسیات، اس کی اندرونی حالت، اس کا مستقبل اور اس کا رویہ۔
جیسا کہ تصویر نگار رچرڈ ایویڈون کا کہنا ہے، “تمام فوٹوگراف درست ہوتے ہیں۔ لیکن ان میں سے کوئی “سچ” نہیں ہوتا”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن اگر ہر کینسر کے “سچ” کا انحصار اس کے رویے پر ہے تو پھر اس پرسرار صفت کو کیسے پہچانا جائے؟ آخر کیسے سائنسدان صرف دیکھنے پر منحصر نہ رہیں بلکہ اس کے مستقبل کے بارے میں پیشن گوئی کر سکیں؟
اور 1980 کی دہائی کے آخر میں، کینسر کے بچاوٗ کا پورا ڈسپلن اس اہم سوال پر رک چکا تھا۔ اس معمے میں جو غیرحل شدہ ٹکڑا تھا، وہ کارسنوجینیسس کی گہری سمجھ تھی۔ یعنی ایسے مکینزم کو سمجھنا جو عام خلیے کو کینسرزدہ خلیے کی طرف لے جاتا ہے۔ دائمی سوزش جو ہیپاٹائٹس بی کا وائرس یا ایچ پائلوری پیدا کرتے ہیں کارسنوجینسس کا مارچ شروع کرتے ہیں لیکن کس راستے سے؟ ایمس ٹیسٹ ثابت کرتا تھا کہ میوٹیشن کا تعلق کینسر سے ہے لیکن کونسی جینز کی کونسی میوٹیشن سے اور کس مکینزم کی تحت؟
اور اگر ایسی میوٹیشن کا معلوم ہو جائے تو کیا اس علم کی مدد سے کینسر سے بچانے کے لئے زیادہ ذہین کوشش کی جا سکتی ہے؟ کیا دہائیوں پر محیط طویل ٹرائلز (جیسا کہ میموگرافی کے ساتھ ہوا) کے بجائے سمارٹ ٹرائل چلائے جا سکتے ہیں؟ رسک کو پہچانا جا سکتا ہے تا کہ زیادہ رسک والوں کی طرف زیادہ توجہ دی جا سکے؟ کیا ایسی حکمتِ عملی بہتر ٹیکنالوجی کے ساتھ ملکر کینسر کی شناخت ایک خالی تصویر کے مقابلے میں بہتر طریقے سے کر سکتی ہے؟
دوسری طرف، کینسر کے معالج بھی اسی جگہ پر آ کر پھنس چکے تھے۔ ہگنز اور والپول نے دکھایا تھا کہ کینسر کے خلیے کی اندرونی مشینری اس کی منفرد کمزوریوں کو بے نقاب کر سکتی ہے۔ لیکن یہ مروجہ طریقہ تحقیق سے الٹ سمت تھی۔ یعنی کہ کینسر کے خلیے کی سمجھ سے علاج تک کا راستہ تھا۔
بروس شیبنر نے کہا، “اونکولوجی کا پورا شعبہ علم ۔۔ علاج بھی اور بچاو بھی ۔۔ علم کی ایک بنیادی حد کی وجہ سے ٹھہر گیا تھا۔ ہم کینسر سے لڑائی اس کو سمجھے بغیر کر رہے تھے۔ یہ ویسا تھا جیسا کہ انٹرنل کمبسشن انجن کی سمجھ کے بغیر راکٹ بنائے جا رہے ہوں”۔
لیکن دوسرے ان سے اتفاق نہیں کرتے تھے۔ سکریننگ ٹیسٹ مسائل کا شکار تھے۔ کینسر کی میکانکی سمجھ اپنی ابتدائی شکل میں تھی۔ علاج کے بڑے پیمانے پر حملے شروع کرنے کی بے صبری تھی۔
کیموتھراپیوٹک زہر ایک زہر تھا۔ اور کسی کو زہر سے مارنے کے لئے اسے سمجھنا ضروری نہیں ہوتا۔
ریڈیکل سرجن کی جنریشن نے اپنے گرد پردے گرا لئے تھے۔ زیادہ سے زیادہ کاٹ کر کینسر سے نجات دلوائی جا سکتی ہے۔ ریڈیکل کیموتھراپسٹ کی جنریشن کا بھی یہی طریقہ کار تھا۔ اگر کینسر سے نجات دلوانے کے لئے جسم میں ہر تقسیم کر دینے والے خلیے کو ختم کر دینا پڑتا ہے تو پھر ٹھیک ہے۔ ایسا کیوں نہ کیا جائے؟
یہ وہ وقت تھا جب اینا ڈیوئیر سمتھ نے لکھا تھا۔ “کینسر تھراپی ویسے ہے جیسے کسی کی جوئیں نکالنے کے لئے اسے ڈنڈوں سے پیٹا جائے”۔ کیموتھراپسٹ اور سرجن اپنے کام پر اعتماد رکھتے تھے اور اسے اپنی حدود تک لے کر جا رہے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کینسر کی بنیادی بائیولوجی معمے کا بڑا گمشدہ ٹکڑا تھی۔ اچھی بات یہ تھی کہ اس سمت میں بھی پیشرفت ہونے لگی تھی۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply