سیمون بولیوار (1830-1783)۔۔ہمایوں احتشام

جنوبی امریکہ انقلابوں اور مزاحمت و مزاحمتی قائدین کی پیدائش کے لئے ہمیشہ سے ایک زرخیز خطہ زمین رہا ہے۔ ہسپانوی و پرتگیزی نوآبادیاتی نظام کے خلاف قبائلی جدوجہد سے لے کر انکائی، مایائی اور ازٹک اقوام کی جدوجہد تک، پھر کرئیولوں کی جدوجہدیں اور آخر میں استعمار کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے اور انقلاب لانے تک کی جدوجہد میں لاطینی امریکی عوام ہراول سربکف کھڑی نظر آتی ہیں۔پچھلی صدی میں میکسیکو سے گریناڈا، نکارا گوا سے پانامہ اور کولمبیا سے چلی تک استعمار و سرمایہ داری مخالف قومی بغاوتیں یانکی سامراج کے لئے خطرے کی گھنٹی بنے رہیں، اور ہمیشہ اس کو اپنے گھر کا پچھلا صحن خطرے میں محسوس ہوا۔ شاید ان کو مزاحمت سیمون بولیوار سے ورثے میں ملی ہے۔

سیمون بولیوار جنوبی امریکی عوام کے بلاشرکت غیرے سب سے معروف اور غیر متنازعہ قومی رہنما ہیں۔ سیمون بولیوار نے وینزویلا، کولمبیا، پانامہ، ایکواڈور، بولیویا اور پیرو کی آزادی میں کلیدی کردار ادا کیا۔ انھی کی جنگی حکمت عملیوں اور سٹریٹجیز کی بناء پر وائسرائلٹی آف بالائی پیرو اور وائسرائلٹی آف نیو گریناڈا (گران کولمبیا) شکست و ریخت کا شکار ہوئیں۔

سائمن بولیوار (ہسپانوی لہجے میں سیمون وولیبار) کا پورا نام سیمون حوسے آنتونیو دی سانتیسما دی ترینیداد وولیبار پونتے پلاسیوس تھا۔ جناب کا مشہور زمانہ لقب “ایل لیبرادور” یعنی آزادی بخشنے والا ہے۔ سیمون بولیوار جولائی 1783 میں کراکس، وینزویلا میں پیدا ہوئے۔ والدین کافی امیر اور خوشحال تھے۔ مگر جب سیمون تین سال کے تھے تو والد کا انتقال ہوگیا اور چھ سال کی عمر کے وقت والدہ انتقال کر گئیں۔ جس کے بعد پرورش کی زمے داری چچا نے سنبھال لی۔ سیمون بولیوار نسلی اعتبار سے ہسپانوی تھے۔ سیمون بولیوار کی تعلیمی استعداد بڑھانے کے لئے چچا نے بہت سے اساتذہ کو اس کام کے لئے رکھا، جن میں سے ایک سیمون رودریگز تھے، جو روسو کے شاگرد تھے۔ انھوں نے سیمون تک اٹھارویں صدی کے لبرل خیالات کی رسائی ممکن کی۔ اس کے بعد سولہ یا سترہ سال کی عمر میں سیمون کو یورپ بھیج دیا گیا اور وہ وہاں تین سال تک تعلیم حاصل کرتے رہے۔ ایک دلہن کے ساتھ وینزویلا واپس لوٹے، ماریہ تریسا دی ایل تورو ایک ہسپانوی حکومتی درباری اہلکار کی بیٹی تھیں۔ وینزویلا واپسی کے ایک سال کے اندر اندر محترمہ ماریہ کی زرد بخار سے وفات ہوگئی، اور پھر سیمون نے عمر بھر شادی نہیں کی۔

سیمون بولیوار خود اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ ان کی بیوی کی ناگہانی موت نے ان کو وقت سے پہلے سیاست کے کار زار میں دھکیل دیا۔ 1804 میں پھر یورپ گئے، وہاں ایک جرمن سیاح الیگزینڈر سے ملاقات ہوئی، جس نے بتایا کہ ان کے ہسپانوی امریکہ میں قیام کے دران ان کو یہ اندازہ ہوا کہ ہسپانوی امریکی نوآبادیاں آزادی کے حصول کے لئے بے تاب ہیں، بس ہلکی سی چنگاری درکار ہے۔ روم میں مقدس پہاڑ پر کھڑے ہوکر سیمون اور ان کے استاد نے یسوع سے وعدہ کیا کہ وہ اپنے وطن کو ہسپانوی قبضے سے ضرور آزاد کروائیں گے۔

سیمون بولیوار نیپولین سے خاصے متاثر تھے۔ اسی لئے اپنے لئے “ایل لیبرادور” کے علاوہ کوئی دوسرا لقب وصول نہ کیا۔ ان کا خیال تھا کہ شہنشاہ، بادشاہ اور عظیم قائد سے زیادہ عوام کو پسند ان کو آزادی کی نعمت سے نوازنے والا ہوتا ہے۔

انیسویں صدی کے پہلے عشرے میں فرانس نے سپین پر فوج کشی کردی۔ جس سے ہسپانوی نوآبادیات کا مرکز کمزور ہوگیا، طاقت کا ارتکاز وائسرائے اور گورنر کے ہاتھ سے نکل کر نوزائیدہ طاقتور گروہ (جنتا) کے پاس چلا گیا۔ سیمون بولیوار اسی جنتا کا حصہ بنے اور وائسرائلٹی آف نیو گریناڈا کی آزادی کی حمایت حاصل کرنے کے لئے برطانیہ جا پہنچے، لیکن وہاں سے کوئی امید اور حمایت نہ ملی۔ مگر اس قیام کے دران انھوں نے برطانوی طرز حکومت اور پارلیمانی نظام کا مطالعہ کیا، جو بعد میں ان کا آئیڈیل بن گیا۔

مارچ 1811 میں پہلی آزادی کانگریس کے موقعہ پر سیمون بولیوار نے تاریخی جملے ادا کئے ” آئیں آگے بڑھیں امریکی براعظم کی آزادی کے لئے، کیونکہ ہماری ہچکچاہٹ ہمارے فنا ہوجانے کے مترادف ہوگی۔” جولائی 1811 میں وائسرائلٹی آف نیو گریناڈا کے صوبے وینزویلا نے آزادی کا اعلان کردیا۔ پہلی وینزویلن جمہوریہ کا قیام عمل میں آگیا۔

1812 میں بولیوار کے ایک افسر نے شاہی قلعے کا دروازہ غداری کرتے ہوئے کھول دیا۔ جس سے ہسپانوی فوج قلعہ میں داخل ہوگئی۔ اس صورت حال میں وینزویلا کی پہلی جمہوریہ کا انہدام ہوگیا اور سیمون بولیوار کو فرار ہوکر قرتاجنہ، گران کولمبیا جانا پڑا۔ قرتاجنہ میں انھوں نے اپنا مشہور “ایل مینی فیسٹو دی قرتاجنہ” لکھا۔ جس میں انھوں نے طاقتور حکومت کی عدم موجودگی اور استعمار مخالف طاقتوں کا متحد نہ ہونا، کو پہلی جمہوریہ کے سقوط کی وجہ قرار دیا۔

نیو گریناڈا سے محب وطن لوگوں کی کمک لے کر سیمون بولیوار نے ڈیڑھ سال کے اندر اندر چھ جنگیں لڑیں اور ہسپانویوں کو شکست فاش دے کر کراکس میں قدم رکھا۔

اگست 1813 میں دوسری جمہوریہ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ لیکن 1814 کے ابتدا میں ہسپانویوں نے سیمون بولیوار کو زبردست شکست دی اور اس کے بعد وینزویلا میں موجود ہسپانوی وفادار کرئیولز نے حوسے ٹامس بووز کی “کاوئے بوائے” فورس کے زریعے سیمون بولیوار کی افواج پر اندرونی طور پر حملے شروع کردیے۔ یہ انتہائی خوفناک بے ترتیب زمینی فوج تھی۔ اس سے نمٹنے کے لئے سیمون نے اپنے ہاتھوں سے کئی شر پسندوں کو گولیاں ماریں۔ 1814 میں بووز نے کراکس اور بڑے شہروں کا کنٹرول سنبھال لیا اور دوسری جمہوریہ بھی انہدام پذیر ہوئی۔ بڑی مشکل سے جان بچاتے بولیوار کو وینزویلا سے فرار ہونا پڑا۔

قرتاجنہ میں قیام کے دران سیمون بولیوار نے اس شہر کو بیس بنا کر وینزویلا میں کاروائیاں کرنے کے بارے میں سوچا مگر وہ ناکام ہوئے اور ان کو یہاں سے بھی جلا وطن کردیا گیا۔ نیو گریناڈا سے جمیکا گئے، برطانیہ اور امریکہ سے حمایت اور امداد طلب کی لیکن نا ملی۔ اسی دران ہسپانیہ نے تاریخ کا سب سے بڑا بیڑہ پابلو موریو کی قیادت میں بغاوت زدہ نوآبادیاں میں باغی عناصر کی سرکوبی کے لئے روانہ کردیا۔ سیمون بولیوار جمیکا سے ہیٹی جا نکلے، جو نیا نیا فرنچ نوآبادیاتی نظام سے آزاد ہوا تھا۔ ہیٹی نے سیمون بولیوار کی مالی اور اسلحے سے مدد کی۔

1816 میں اپنے براعظم واپسی کے بعد بولیوار نے بیشمار جنگیں لڑیں اور آخر کار 1821 میں گران کولمبیا یعنی (ایکواڈور، پانامہ، کولمبیا، وینزویلا) کا کنٹرول حاصل کرلیا۔ 1824 تک وائسرائلٹی آف پیرو پر بھی نوآبادیاتی پرچم سرنگوں کردیا گیا۔ 1825 میں بالائی پیرو نے بولیویا کے نام سے اپنی آزادی کا اعلان کردیا۔ بولیویا نام دراصل سیمون بولیوار کے نام سے ہی ماخوذ ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

1824 میں سیمون بولیوار نے خود کو پیرو کا آمر ڈیکلیئر کردیا۔ اور 1828 تک اس عہدے پر متمکن رہے۔ 1829 تک گران کولمبیا کے صدارت کے عہدے پر متمکن رہے۔ اسی سال کے آخر میں قتل کی واردات میں بال بال بچے۔ جنوبی امریکی ریاستوں اور اقوام کے اتحاد کی کوششوں کے باوجود جب اندرونی عناصر نے ہی اتحاد قائم نہ ہونے دیا تو بولیوار بددل ہوگئے۔ انھوں نے صدارت سے مستعفی ہوکر یورپ میں جلاوطنی کا قصد باندھا مگر پھر کولمبیا میں اپنے ایک ہسپانوی دوست کے پاس منتقل ہوگئے اور سانتا مارتا، کولمبیا کے مقام پر تپ دق کی بیماری سے لڑتے ہوئے 17 دسمبر 1830 کو وفات پاگئے۔

Facebook Comments

ہمایوں احتشام
مارکسزم کی آفاقیت پہ یقین رکھنے والا، مارکسزم لینن ازم کا طالب علم، اور گلی محلوں کی درسگاہوں سے حصولِ علم کا متلاشی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply