ابھی وقت ہے۔۔آغرؔ ندیم سحر

ابھی وقت ہے۔۔آغرؔ ندیم سحر/سانحہ سیالکوٹ ہوا،میڈیا، سیاست دان اور تقریباً تمام اہم علمائے کرام ایک پیج پر اکٹھے ہوگئے،سب اسی بات پر متفق نظر آئے کہ اسلام امن و سلامتی کا مذہب ہے لہٰذا ایسے واقعات کی ہمارے ہاں کوئی گنجائش نہیں۔مگر سوال یہ ہے کہ کیا ایسا تکلیف دہ واقعہ پاکستان میں پہلی دفعہ ہوا؟اس سے قبل مشعال خان کی سرعام ہلاکت،خوشاب میں بینک مینجر کا قتل اور اب سیالکوٹ میں ہندو پریانتھا کا قتل۔ایسے افسوس ناک واقعات رونما ہونے کے باوجود ملک میں ایسے واقعات ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے۔سینٹر آف سوشل جسٹس کی ایک تازہ رپورٹ میں کہا گیا کہ 2020ء میں توہین مذہب و رسالتﷺ کے ریکارڈ مقدمات درج ہوئے،رپورٹ میں کہا گیا کہ مجموعی طور پر گزشتہ برس دو سو مقدمات درج ہوئے جب کہ 1987ء سے 2020ء کے درمیان کم از کم 1855افراد کوپاکستان پینل کوڈ کی دفعہ B-295 اور C-298کے سیکشنز کے تحت سزا ہو چکی،اس رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا کہ یہ مقدمات 75فیصد مسلمانوں کے خلاف،تین فیصد مسیحوں کے خلاف،ایک فیصد ہندوؤں کے خلاف تھے،جب کہ یہ مقدمات صفر اعشاریہ پانچ فیصد ایسے افراد کے خلاف درج ہوئے جن کی مذہبی شناخت معلوم نہیں ہو سکی۔سینٹر آف سوشل جسٹس کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر پیٹر جیکب کا کہنا ہے:”ان مقدمات کا ایک رنگ فرقہ وارانہ ہے“۔فرقہ واریت کی آگ نے جیسے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے،ایسے واقعات کے پیچھے بھی عموماً ایسے ہی معاملہ نکلتا ہے۔

ایسا ہی ایک واقعہ دو سال قبل بہاولپور میں بھی ہو ا۔وہاں کے ایک مقامی کالج کے گریجویشن کے طالب علم خطیب حسین نے اپنے ہی کالج کے استاد پروفیسر حمید کو قتل کر دیا تھا،اس طالب علم کے بقول اس کا استاد مذہب کے خلاف گستاخانہ الفاظ استعمال کیا کرتا تھا،خطیب حسین اپنے اس طرزِ عمل پر نادم ہونے کی بجائے فخر کرتا رہا اور اس کا ویڈیو بیان اس بات کی غمازی کر رہا تھا کہ کیسے اس کے دماغ میں زہر بھرا گیا۔میں سمجھتا ہوں کہ ایسے گروہوں کا قلع قمع کرنا انتہائی ضروری ہے جو مذہب کو بنیاد بنا کر معاشرے میں تشدد کے رجحانات کو فروغ دیتے ہیں۔ایسے تمام گروہوں اور اداروں کے خلاف ایکشن کی ضرورت ہے جو نئی نسل کو مذہبی، لسانی،ثقافتی اور سیاسی بنیاد پر مختلف فریقین،اپنے مخصوص بیانیے کی بنیاد پرانتہا پسندی کی طرف مائل کر رہے ہیں اور خود اپنی سطح پر ان رجحانات کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔پاکستان نے سانحہ پشاور کے بعد ایک بیس نکاتی قومی ایکشن پلان ترتیب دیا تھا،اس میں زیادہ تر نکات کا تعلق اسی بات سے تھا کہ ملک میں کیسے امن، رواداری، برداشت اور سیاسی و سماجی ہم آہنگی کو فروغ دیا جائے۔اس ایکشن پلان کی ایک اہم خوبی یہ بھی تھی کہ اس میں ہمارے تعلیمی اداروں،مدارس کی تعلیم، استاد اور شاگرد،سب کو بنیاد بنایا گیا تھا۔اس ایکشن پلان پر کتنا عمل ہوا اور یا کہاں تک نافذ العمل ہوا،یہ ایک طویل بحث ہے مگر اہم بات یہ ہے کہ ریاست اس بات کو سمجھتی ہے کہ مذہبی شدت پسندی کی تعلیم کلاس رومز سے شروع ہوتی ہے،دنیوی تعلیمی ادارے ہوں یا مدارس،کالج و یونیورسٹی کا پروفیسر ہو یا پھر مدرسے کا قاری،اس انتہا پسندی کو ختم کرنے یا اسے فرو غ دینے میں یہ سب کہیں نہ کہیں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔استاد یا مسجد کا قاری اگر اپنے بچے کو اس بات کی تبلیغ کرے گا کہ جہاں کوئی تمہارے نقطہ نظر سے اختلاف کرے، وہاں سب سے بہترین حل بندوق کی گولی ہے،تو ایسے میں رواداری اور امن پسندی کیسے ممکن ہو سکتی ہے؟

ہمارا تعلیمی تدریسی نظام بنیادی طور پر کئی طرح کے فکری تضادات سے جڑا ہوا ہے،ایسے میں بچے کی ذہنی تشکیل اور نشو نما کیسے ممکن ہے؟جہاں غم و غصہ،متشدد رویہ،متعصب خیالات ترویج پانے لگ جائیں وہاں کوئی بھی مثبت تبدیلی کی توقع محض فانوسِ خیال ہے۔کیا ہم بحیثیت قوم اس قدر دیوالیہ ہو چکے ہیں کہ توہین رسالتﷺ جیسے عظیم گناہ کا سن کر تحقیق کرنا بھی گوارا نہیں کرتے،کیا ہماری تربیت میں اس قدر کمی رہ گئی یا کیا ہمارا تعلیمی اسٹرکچر اس قدر افسردہ ہو چکا کہ ہم اس سے کچھ نہیں سیکھ سکے۔سانحہ سیالکوٹ تو ایک مذہبی مسئلہ ہے،آپ اس کے علاوہ اپنے تعلیمی اداروں پر نظر دوڑائیں،سیاسی و سماجی سطح پر بھی ایسے لا تعداد واقعات ہمیں اپنے تعلیمی اداروں سمیت،معاشرے میں جگہ جگہ نظر آئیں گے۔ہمارے ہاں اس نقطہ نظر کی ترویج کی گئی کہ جو انسان آپ سے اختلاف کرتاہے،اسے زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں اور وہ اس زمین پر بوجھ ہے۔ایسا کیوں ہے کہ ایک طرف ریاست مذاہب کے درمیان ہم آہنگی کے نام پر امن کمیٹیاں بنا رہی ہے تودوسری طرف معاشرے سے امن،رواداری اور برداشت مٹتی جا رہی ہے؟کیا تمام اسٹیک ہولڈرزان متشدد رویوں کو ختم کرنے میں ناکام ہو گئے؟ یا طبقاتی تقسیم،فرقہ واریت،نسل پرستی،لسانی جنگ و جدل،ثقافتی تعصب اور علاقائی تقسیم نے پورے پاکستان کو بری طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے جس سے کنارہ کرنا ریاست کے بس سے باہر ہو گیا ہے؟

Advertisements
julia rana solicitors

ہمیں انتہائی سنجیدگی سے سوچنا ہوگا کہ ہم کس طرف جا رہے ہیں،آخر کہاں کمی رہ گئی ہے کہ ہم اخلاقی طور پر دیوالیہ ہو گئے؟ہم بحیثیت قوم اپنی آنے والی نسلوں کو کیادے کر جا رہے ہیں،ہماری نئی نسل کی تربیت اور ذہن سازی کون کر رہا ہے،کون ہے جو ہمیں سوچی سمجھی پلاننگ کے تحت دنیا میں ذلیل و رسوا کر رہا ہے۔آخر وہ کون سے عناصر ہیں جنھوں نے معاشرے میں اس خون ریزی کی بنیاد رکھی تھی، کون تھا جس نے یہ تشدد،نفرت اورمذہبی انتہا پسندی کی فصل بوئی تھی جو آج پورا پاکستان کاٹ رہا ہے۔کون ہمارے سروں پر مسلط ہے جو جمہوریت کے نام پر ملک میں آمریت کو فروغ دے رہا،کون ہے جس نے تعلیمی اداروں سے لے کر مدارس تک کو یرغمال بنایا،کون ہے جس نے خود کو مذہب کا ٹھیکیدار سمجھ رکھا ہے،جو جب چاہے،جہاں چاہے،جیسے چاہے ملک میں انتشار پھیلا سکتا ہے؟کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم سب کٹھ پتلیاں ہیں،ہم سب نچائے جا رہے ہیں اور ہمیں اس کا علم بھی نہیں،ہمیں سوچنا ہوگا۔تمام اسٹیک ہولڈرز،سیاسی،مذہبی و معاشرتی اداروں کو سرجوڑ کر بیٹھنا ہوگا اور ملک کے مستقبل کا فیصلہ کرنا ہوگا۔اگر آج بھی ہم نے سانحہ سیالکوٹ سے سبق نہ سیکھا تو نفرت،تعصب اور غصے کی یہ آگ پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لی گی اور ہم سب کہیں نہ کہیں،کسی نہ کسی چوک میں،کسی نہ کسی من گھڑت الزام میں لٹکا دیے جائیں گے،ابھی وقت ہے کہ ہم سمجھ جائیں ورنہ۔۔

Facebook Comments

آغر ندیم سحر
تعارف آغر ندیم سحر کا تعلق منڈی بہاءالدین سے ہے۔گزشتہ پندرہ سال سے شعبہ صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔آپ مختلف قومی اخبارات و جرائد میں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔گزشتہ تین سال سے روزنامہ نئی بات کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہیں۔گورنمنٹ کینٹ کالج فار بوائز،لاہور کینٹ میں بطور استاد شعبہ اردو اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔اس سے قبل بھی کئی اہم ترین تعلیمی اداروں میں بطور استاد اہنی خدمات سرانجام دیتے رہے۔معروف علمی دانش گاہ اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم اے جبکہ گورنمنٹ کالج و یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم فل ادبیات کی ڈگری حاصل کی۔۔2012 میں آپ کا پہلا شعری مجموعہ لوح_ادراک شائع ہوا جبکہ 2013 میں ایک کہانیوں کا انتخاب چھپا۔2017 میں آپ کی مزاحمتی شاعری پر آسیہ جبیں نامی طالبہ نے یونیورسٹی آف لاہور نے ایم فل اردو کا تحقیقی مقالہ لکھا۔۔پندرہ قومی و بین الاقوامی اردو کانفرنسوں میں بطور مندوب شرکت کی اور اپنے تحقیق مقالہ جات پیش کیے۔ملک بھر کی ادبی تنظیموں کی طرف سے پچاس سے زائد علمی و ادبی ایوارڈز حاصل کیے۔2017 میں آپ کو"برین آف منڈی بہاؤالدین"کا ایوارڈ بھی دیا گیا جبکہ اس سے قبل 2012 میں آپ کو مضمون نگاری میں وزارتی ایوارڈ بھی دیا جا چکا ہے۔۔۔آپ مکالمہ کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہو گئے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply