“آئرن لیڈی ” کانفرنس۔۔محمد وقاص رشید

“آئرن لیڈی ” کانفرنس۔۔محمد وقاص رشید/کہیں پڑھا تھا کہ اگر خدا پورے دین کی جگہ ایک امر نازل کرنا چاہتا تو وہ ہوتا “اعدلو” یعنی عدل کرو  ۔جسکا مطلب ہے جس شئے  کا جو حق ہے اسے ملے۔ اسکا مطلب اگر اسلام کو عدل و انصاف کا نظام کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ انفرادی اور اجتماعی زندگی میں زمین پر عدل و انصاف کرنے کا نام ہی اسلام ہے۔ خدا کی عبادت اس لیے ہے کہ یہ اس کا حق ہے، حقوق العباد خدا کے احکامات کی روشنی میں دوسرے انسانوں کے ہم پر حقوق ہیں ۔

رسالت ماب  ﷺکی سیرت کا آغاز انفرادی حیثیت میں  ہوا ،اور آخرِ کار آپ ﷺ نے ایک ریاست کا نظمِ اجتماعی قائم کیا ۔۔لیکن سوال یہ ہے کہ خدا کے آخری پیغمبر کے بعد اجتماعی حیات کا تعین ریاست میں کیسے ہو گا ۔ اسکے لیے استاد محترم غامدی صاحب کی فکر کے مطابق “و امرھم شوری بینھم ” نے مسلمانوں کو نظمِ حکومت کے قیام کے متعلق رہنمائی فراہم کی ، جسکی جدید ترین شکل ہمارے سامنے جمہوریت ہے۔

اب اگر اپنی اس تمہید کو یکجا کر کے دیکھا جائے تو کسی ریاست میں اسلامی حکومت کی نظریاتی اساس یہ ہو گی کہ، عدل و انصاف قائم کرتا ایک جمہوری نظامِ حکومت ۔بعینہ وہی الفاظ بنتے ہیں جو قائد اعظم محمد علی جناح کے ذہن میں پاکستان کی نظریاتی اساس تھی ۔
Pakistan Would be a democratic state based on Islamic principles of social justice
“سماجی انصاف کے اسلامی اصولوں کی بنیاد پر قائم ایک جمہوری ریاست “۔

ہندوستان میں دو قومیں صدیوں سے بستی تھیں  لیکن مسلمانوں کو یوں لگا کہ ہمارے ساتھ انگریز کے انخلا کے بعد عدل نہیں ہو گا  اور اسلام کیونکہ” اعدلو ” کے مطابق حق دار کو اسکاحق دینے کا مذہب ہے اس لیے ہمیں علیحدہ وطن درکار ہے جس میں ہم عدل و انصاف کا نظام قائم کر سکیں  ۔ اس طرزِ فکر سے بیشتر مسلمانوں ہی نے اختلاف بھی کیا لیکن بہرحال عدل و انصاف کے جمہوری نظام کے قیام کے لئے پاکستان لاکھوں عام مخلص لوگوں کی قربانیوں سے معرضِ وجود میں آ گیا ۔۔رکیے!

آئیے خود سے ایک سوال پوچھتے ہیں کیا وہ نظام قائم ہو گیا؟ “اعدلو کا نظام ” قائم ہوا  ۔؟

ارد گرد نظر دوڑائیے کہیں آپ کو کسی کو اسکا حق ملتا ہوا نظر آتا ہے؟ ۔ہاں حق چھیننے یا خریدنے کے مناظر ضرور نظر آتے ہیں اور یہ سلسلہ پاکستان کی تعمیر کے فوراً  بعد ہی شروع ہو گیا تھا ۔آغاز ہی میں قائد اعظم کی جیب کے کھوٹے سکے آج پون صدی کے بعد تک قوم کی منزل کھوٹی کرنے کی بنیاد ڈال چکے تھے،اسلامی اصولوں پر سماجی انصاف کا جمہوری نظام شروع ہی میں آمرانہ سازشوں اور ہتھکنڈوں کا شکار ہو کر آج بد ترین حالت میں ہمارے سامنے موجود ہے ۔ ایسا کیوں ہے کہ جو ملک بنا ہی “اعدلو” کے نام پر تھا اس میں حق تلفی کا یہ عالم ۔؟ یہی عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں پوچھا جانے والا بنیادی سوال تھا ۔

کون تھیں محترمہ عاصمہ جہانگیر صاحبہ  ؟۔ ایک ایسی خاتون کہ ایک بد ترین آمر کے ہاتھوں اپنے والد کی قید و بند کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئیں۔ ایک والد کے ہاتھوں میں پڑی ناحق ہتھکڑیوں اور پیروں میں پڑی بیڑیوں کو دیکھ کر ایک غیور اور بہادر بیٹی کی روح یوں تڑپی،  یوں مچلی، یوں کسمسائی کہ اس نے اس سماج میں عورت ہونے کے ناطے اپنے پیروں اور ہاتھوں کی زنجیروں کو پاش پاش کر دیا۔  وہ ایک ایسی آزاد منش ہستی بن کر سامنے آئی کہ جنرل ضیاءالحق کی ملک کو مجموعی طور پر موجودہ حال میں پہنچانے والی بد ترین آمریت کے سامنے تو مزاحمت کی سیسہ پلائی ہوئی دیوار ثابت ہوئی ہی۔۔  لیکن بعد میں بھی اپنی آخری سانس تک ہر ظلم و ستم ،جبرو استبداد اور آمریت و آمرانہ رویوں کے خلاف پسے ہوئے طبقات اور مظلوم و مجبور عوام کے حق میں ایک فولادی چٹان بن کر تن کر کھڑی رہیں۔
انہیں “آئرن لیڈی ” اسی لیے کہا جاتا ہے۔

عاصمہ جہانگیرپاکستان کی پہلی سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی خاتون صدر تھیں جو کہ جیتے جی بھی اس سر زمین پر انسانی حقوق کی آواز تھی۔ مر کر بھی اس روئے زمین پر گونج رہی ہیں  ۔خدا کی کتاب کہتی ہے کہ “لوگوں میں بہتر وہ ہے جو لوگوں کے لیے بہتر ہے”۔  میرا ماننا ہے کہ انسانوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے والے صرف ظاہری طور پر مرتے ہیں، روحانی ،باطنی طور پر اپنی خدمتِ خلق کے ساتھ زندہ رہتے ہیں  اور پسے ہوئے کروڑوں محروموں کو انکے حقوق دلانے کے لئے ایک ریاست کو اسکا آئینی عہد یاد دلاتے ہوئے گونگوں کی آواز بننے سے بڑی کیا خدمتِ خلق ہو سکتی ہے۔

طالب علم ہر ایسی کاوش کو ، ایسی آواز کو ایسی تحریر کو اس عظیم جستجو کا حصہ سمجھتا ہے جو کہ “اعدلو” کا وہ نظام رائج کرنے پر منتج ہو گی جس کی خاطر لاکھوں لوگوں نے اپنی قیمتی ترین جانوں کا نذرانہ پیش کیا  اور اپنے مخلص لہو کو اس خواب کی تعبیر کے لیے بطورِ خراج پیش کیا۔

مایوسیوں کی گھٹن میں ایک امید کا تازہ جھونکا بنتی اس عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں سماج کے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے منسلک افراد نے شرکت کی۔ جن کا تعلق سیاست ، عدلیہ ،وکالت ، صحافت ، تعلیم اور سول سوسائٹی سے تھا ۔بہت سی تقاریر ہوئیں، وکلاء تحریک کے سرخیل جناب علی احمد کرد نے دھواں دار خطاب کیا اور جس میں انہوں نے بنیادی طور پر اعلیٰ  عدلیہ کے کردار برائےانسانی حقوق اور جمہوریت پر اپنے مخصوص انداز میں لب کشائی کی۔ انکا یہ خطاب تاریخی نوعیت کا حامل تھا ۔ اس خطاب کے جواب میں جہاں چیف جسٹس سپریم کورٹ جناب گلزار احمد نے اسے اداروں کے خلاف غلط فہمیاں پیدا کرنا قرار دیا تواسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ،جسٹس اطہر من اللہ نے ان کا بحیثیت بار کے عہدے دار بینچ کو اپنی ذمہ داریوں کی یاد دہانی پر شکریہ ادا کیا۔  اور پاکستان کی سمت تبدیل کرنے والے جسٹس منیر کے 1954 کے پہلے بے ضمیر فیصلے سے لے کر آج تک آمروں کے اقدامات کی توثیق کرتے ہر عدالتی فیصلے کے زیراثر اپنی ذمہ داری کو قبول کیا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے آخر میں ایک بار پھر اس کانفرنس میں سچ بولنے کا ماحول پیدا کرنے پر جناب علی احمد کرد کا شکریہ ادا کیا۔

کچھ عرصے سے “بوجوہ” خبروں کی زینت رہنے والے جسٹس فائز عیسیٰ  صاحب کا انگریزی خطاب بھی ایک تاریخی نوعیت کا خطاب تھا۔ جس میں سیرت النبی ﷺ  کے حوالوں سے عدل و انصاف کو اسلام کی روح قرار دیتی مذہبی تفہیم شامل تھی ۔ قائداعظم محمد علی جناح کے پاکستان کو اسلام کے سماجی انصاف کے اصولوں پر قائم ہونے والی ریاست کے خواب سے لے کر آغاز ہی سے آمروں کے ہاتھوں اسکی تعبیر کا شیرازہ بکھرنے کی تمام داستان کا اعادہ کیا گیا تھا۔

اس کانفرنس سے جن سیاسی رہنماؤں نے خطاب کیا ان میں جناب رسول بخش پلیجو ،جناب قمر زمان کائرہ جناب فرحت اللہ بابر جناب افراسیاب خٹک جناب کامران مرتضی اور جناب نواز شریف شامل تھے۔  صحافیوں میں محترمہ نسیم زہرہ اور محترمہ امبر شمسی جناب حامد میر جناب مطیع اللہ جان جناب ضرار کھوڑو جناب ابصار عالم شامل تھے۔

اس تقریب میں ایک اور اہم ترین اور دردناک خطاب منظور پشتین صاحب کا تھا۔۔  جناب منظور پشتین کی تقریر سنتے ہوئے بہت سے مواقع پر آنکھوں سے بے بسی کے آنسو بہہ نکلے۔ ایسی ایسی لرزہ خیر داستان اس نے اپنے سادہ سے انداز میں پیش کی الامان الحفیظ۔۔اس وقت تو جیسے اپنی بے مائیگی اور نظریہ پاکستان کی کرچیاں اپنی روح میں چبھتی محسوس ہوئیں جب اس نے کہا کہ کلبھوشن یادیو کے لیے تو عالمی عدالت سے پاکستان کی پارلیمان میں بل پاس ہونے تک ہر بنیادی انسانی حقوق دیے جا سکتے ہیں لیکن سالوں سے اپنے حقوق کے لیے روتے پیٹتے ہم پشتونوں کے لیے نہ کوئی عدالت ہے نہ کوئی کمیشن نہ پارلیمان نہ ہی کوئی قانون۔۔ منظور پشتین نے یہ کہہ کر اس ریاست کو ایک بہت بڑا چیلنج دیا ہے کہ اگر ایک ٹروتھ کمیشن میں یہ حقائق غلط ثابت ہو جائیں تو مجھے پھانسی دے دو۔۔۔ جس ریاست کا حاکم نا صرف مدینے کی ریاست کی بات کرتا ہے بلکہ منظور پشتین کے جلسے میں جا کر اسکے مطالبات کی تائید بھی کرتا تھا۔۔۔۔خدا کا واسطہ ہے اس خدا کا جسکے دین یعنی عدل و انصاف یعنی اعدلو کے نام پر ہم نے یہ ملک بنایا تھا کہ ان مظلوموں کی داد رسی کی جائے۔۔۔۔۔ کوئی سوچے تو سہی سالہا سال سے اپنے پیاروں کی راہ دیکھتے لوگوں کے دلوں پر کیا بیتتی ہو گی اور اگر یہ ریاستی بیانیے کے مطابق جھوٹے الزام تراشنے والا غدار ہے تو اس سے بہتر موقع کیا ہو سکتا ہے اسے آئین کے مطابق کیفرِکردار تک پہنچانے کا جب وہ جھوٹا ہونے کی صورت میں خود اپنے لیے پھانسی کی سزا تجویز کررہا ہے۔۔۔۔الہی اے عدل و انصاف کے رب انکی مدد فرما۔

ملک کے تینوں دفعہ متنازع انداز میں ہٹائے گئے وزیراعظم نواز شریف صاحب نے بھی تقریر کی  اور عاصمہ جہانگیر صاحبہ کی بیٹی نے انکا تعارف بڑے دلچسپ انداز میں کروایا۔ ۔کہ جن سے لوگوں کو بے شمار امیدیں ہیں۔۔  اور نواز شریف صاحب نے بھی آئینِ پاکستان کی اسکی اصل روح میں بحالی کے لیے تمام مکتبہ ہائے فکر کے لوگوں کی شمولیت کے ساتھ ایک قومی تحریک کا عندیہ بھی دیا۔

جے یو آئی کے سینٹر کامران مرتضیٰ نے بھی دل کے پھپھولے پھوڑے اور 10 لا وارث لاشوں کی ایدھی کے ذریعے تدفین کا ماتم کیا  اور چھوٹے صوبوں کی محرومی کا رونا روتے ہوئے  قوم کو اس دردمندانہ خدشے سے خبردار کیا کہ “جب باقی کا آدھا گلاس  بھی کہیں خالی نہ ہو جائے “۔
اس تقریب سے جناب فواد چوہدری نے بھی خطاب کرنا تھا ۔۔ لیکن وہ اس وجہ سے نہیں آئے کہ انکے خیال میں عدالت سے سزا یافتہ نواز شریف صاحب کی تقریر آئین و قانون کے منافی ہے۔

ایک چیز جو بڑی حیران کن ہے اور سوالیہ نشان کی طرح ذہن میں کانٹا بن کے اٹکی ہوئی ہے وہ یہ کہ جب ایک سپریم کورٹ بار کے سینئر قانون دان عدل و انصاف کے نام پر بننے والی ریاست کے 130 ملکوں میں سے 126 ویں نمبر پر ہونے کی تنزلی کا رونا رو رہے تھے ۔جب اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس انکا سچ بولنے اور پاکستان کی ماتم کنا تاریخ کا نوحہ پڑھنے پر شکریہ ادا کر رہے تھے۔۔  ایک اور سپریم کورٹ کے معزز جج پاکستان کی بنیادی اساس سے روگردانی کرتے حالات کی وجوہات کا تعین کر رہے تھے۔ جنگ زدہ علاقوں کا کوئی لیڈر اپنے لوگوں کی مظلومیت کا رونا روتے ہوئے عدل و انصاف کی دہائی دے رہا تھا۔ ریاست کے اہم ترین ستون اور جمہوریت کی روحِ رواں صحافت کے نامی گرامی لوگ اپنے اوپر قاتلانہ حملے کرنے والوں ،اغوا کاروں اور پابندیاں لگانے والوں کے متعلق شکوہ زن تھے۔ طلبا ء اور سول سوسائٹی والے آزاری آزادی کے نعرے لگا رہے تھے اور سیاستدان چیخ چیخ کر ریاست میں انسانی حقوق کی پامالی اور جمہوری رویوں کی عدم دستیابی پر ماتم کناں تھے ۔۔  وہیں ملک کی سب سے بڑی عدالت کے قاضی القضاۃ جناب گلزار احمد ڈائس پر مکے برساتے ملک میں عدل و انصاف کی فراہمی اور انسانی حقوق کے بہم پہنچانے کا دعوی بھی فرما رہے تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اگر طالب علم اس ایک کانفرنس کو پاکستان کے سیاسی افق کے تناظر میں دیکھے تو سمجھتا ہے کہ واقعی پاکستان کے حالات جس نہج پر پہنچ چکے ہیں۔۔وہاں ہمیں اسطرح کی کانفرنسز اور ایک پبلک ڈیبیٹ کی اشد ترین ضرورت ہے۔  جس میں ہم سب سے پہلے تو خود سے یہ پوچھیں وہ سوال جسکا جواب 22کروڑ چہروں پر نقش ہے۔  فضاؤں میں آہ و بکا کی صورت گونج رہا ہے۔  زمین پر لہو بن کر بکھرا ہوا ہے کہ کیا ہم اعدلو کا وہ نظام قائم کر پائے۔  ظاہر ہے نہیں ۔ اگلا سوال یہ کہ کیوں نہیں۔۔۔؟ اسکی وجہ بھی مورخ ہمیں چیخ چیخ کر بتا رہا ہے ۔جو بچے بچے کی زبان پر از بر ہے  ،کہ جن قوتوں کے خیال میں اسلامی اصولوں کی بنیاد پر سماجی انصاف دیتی ریاست کے قیام سے انکے ذاتی مفادات کو زک پہنچنی تھی انہوں نے مل کر اپنے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے قومی و اجتماعی مفادات کو اپنے ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھایا (حتی کہ یہ ملک دو ٹکڑے ہوا)۔  اب تیسرا ہے کیسے ہم اس خلفشار سے نکل سکتے ہیں ۔ ؟ اسکا جواب بڑا سادہ ہے ۔وہ جواب جو پہلے آدم سے لے کر آخری آدمی تک ہر شخص کی آخری پناہ گاہ ہے۔۔۔۔ منزل ہے۔
“ربنا ظلمنا انفسنا و اان لم تغفرلنا و ترحمنا لنکونن من الخسرین”
(اے ہمارے رب ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیے تو ہمیں بخش دے۔ اگر تو نے ہمیں معاف نہ کیا تو ہم خسارہ پانے والوں میں سے ہونگے)۔
اس سے بڑھ کر ایک قوم کا خسارہ کیا ہو گا کہ جس منزل کے لیے کارواں بنا تھا۔۔۔اس منزل کا سفر معکوس سمت میں ہے۔۔۔۔۔جناب فیض نے کہا تھا “چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی ”  طالب علم یہ جسارت کرتا ہے کہ۔  ۔
سفر ہی اپنا ہےمعکوس راستے پہ وقاص
چلو مڑو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی
آئرن لیڈی کی خدا مغفرت فرمائے کہ انکے نام پر ہمیں واپسی کا خیال تو آیا۔  واپس آئین کی بالادستی کی طرف، حقوقِ جمہور کی جانب، قانون کی حکمرانی کی اور  جمہوریت کی سمت۔۔  اعدلو کی طرف،امکان کی طرف، واپس پاکستان کی طرف!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply