• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • پنج شیر پر طاقت سے قبضہ اور افغان طالبان کے بڑھتے چیلنجز۔۔ڈاکٹر ندیم عباس

پنج شیر پر طاقت سے قبضہ اور افغان طالبان کے بڑھتے چیلنجز۔۔ڈاکٹر ندیم عباس

پنج شیر ہمیشہ سے مزاحمت کی علامت رہا ہے، کابل کے نزدیک اور پہاڑی دروں سے گھرے اس صوبے پر برطانیہ، روس سمیت کوئی طاقت قبضہ نہیں کرسکی۔ یہاں تک جب طالبان پورے افغانستان پر قابض ہوگئے تو پنج شیر ان چند بچے کھچے علاقوں میں سے ایک تھا، جہاں طالبان پوری قوت سے حملہ کرنے کے باوجود قبضہ نہ کرسکے۔ یہاں یہ بات اہم ہے کہ طالبان کی نظر میں پنج شیر کی اصل طاقت احمد شاہ مسعود تھا، اسی لیے انہوں نے فوجی ناکامیوں کے بعد ایک ٹیپ ریکارڈ میں نصب بم کے ذریعے احمد شاہ مسعود کو قتل کرا دیا۔ ممکن تھا کہ طالبان پنج شیر پر قابض ہو جاتے، مگر نائن الیون کا واقعہ ہوگیا اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ نے اس علاقے کے وسائل کو اپنے لیے ضروری خیال کرتے ہوئے حملہ کر دیا اور پھر شمالی اتحاد حکمران بن گیا، طالبان پہاڑوں پر چڑھ گئے۔ کہنے کا مقصد یہ تھا کہ پنج شیر نے اندرونی اور بیرونی دونوں حملہ آوروں سے اپنا کا دفاع کیا ہے۔

امریکہ کے فوری افغانستان سے نکلنے اور افغان فوج کے دنوں میں ریت کی دیوار ثابت ہو جانے کے بعد طالبان کابل پر محض چند دنوں میں قابض ہوگئے۔ طالبان خود کو بدلہ ہوا بتلا رہے تھے اور عام معافی کے اعلان سے اس کا گمان ہو رہا تھا کہ طالبان بدل چکے ہیں۔ مگر اکثر دفاعی ماہرین خدشات کا اظہار کر رہے تھے کہ طالبان کی تشکیل حکومت کے لیے وقت اور سپورٹ لینے کے لیے ایسا کر رہے ہیں اور ان کے اقدامات کو دیکھ کر ہی فیصلہ کیا جائے گا کہ آیا طالبان بدلے ہیں؟ یا فقط طاقت کے حصول کے لیے یہ سب شعبدہ بازیاں کی جا رہی ہیں۔ ان حالات میں طالبان پنج شیر پر قابض نہ ہوسکے اور پنج شیریوں نے مزاحمت کا اعلان کر دیا۔ یہ انتہائی مشکل صورتحال تھی اور حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ طالبان پورے افغانستان کی استعمار مخالف فورس کے طور پر اپنے تشخص کو قائم رکھتے ہوئے تھوڑے صبر کا مظاہرہ کرتے اور پنج شیر کو مذاکرات کی میز پر حاصل کرتے۔

اس میں یقیناً انہیں پرانے شمالی اتحاد کے لوگوں کو کچھ یقین دہانیاں اور ممکنہ طور پر اقتدار میں شریک کرنا پڑتا، یہ بذات خود طالبان کے لیے بہت اچھا تھا۔ مگر طالبان نے طاقت کے استعمال والے راستے کو اختیار کیا اور پنچ شیر پر حملہ کر دیا، احمد مسعود نے مزاحمت کا اعلان کیا اور یوں طالبان خود اہل افغانستان سے الجھ گئے۔ مقامی ہمدردوں کے تعاون، علماء کے کردار، مسلسل فوجی دباو اور پنج شیر کی سپلائی کاٹ لینے کے بعد طالبان پنج شیر کے ایک بڑے حصہ پر قابض ہوچکے ہیں۔ اس عمل میں سینکڑوں افغان طالبان اور پنج شیریوں کا خون بہہ چکا ہے، اس عمل کے نتیجے میں اب طالبان کے خلاف ایک مخاصمت وجود میں آچکی ہے۔ ایک اور اہم چیلنج جس سے افغانستان کا امن عمل جڑا ہے، وہ ازبک، تاجک اور ہزارہ نسلی گروہوں کو حکومت میں بھرپور نمائندگی دینا ہے۔ طالبان بار بار اس کا اظہار کر رہے تھے کہ حکومت میں تمام گروہوں کو نمائندگی دی جائے گی۔

ابھی تک عبوری حکومت کی جو تفصیلات سامنے آئی ہیں، وہ یہ بتا رہی ہیں کہ طالبان کی تمام گروہوں سے مراد تمام طالبان گروہ تھے، نہ کہ پورے افغانستان کے تمام گروہ۔ اسی لیے تقریباً ایک ہی مسلک اور ایک ہی نسل کے لوگوں پر مشتمل کابینہ کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس سے پہلے ہی مسائل کا شکار طالبان کو دیگر نسلی گروہوں کو مطمئن کرنا مشکل ہو جائے گا اور ان میں مزاحمت کا جذبہ جنم لے گا۔ بظاہر یہ حکمت سے دور فیصلہ ہے، جس میں افغانستان کے پچاس فیصد کی نمائندگی نہیں ہے اور اسی طرح آبادی کے پچاس فیصد حصہ یعنی خواتین کو بھی کوئی نمائندگی نہیں دی گئی۔ اس کے خلاف اندرونی اور بیرونی دونوں طرح کا ردعمل سامنے آئے گا۔ پچھلے کئی روز سے کابل میں خواتین مظاہرے کر رہی ہیں، ان مظاہروں نے طالبان کے خوف کو توڑنے میں اہم کردار ادا کیا۔ آئی ایس آئی چیف کے دورہ کابل کے بعد ان مظاہروں میں پاکستان مخالف نعرے بھی شامل ہوگئے ہیں۔

یہ بات اپنی جگہ کہ پچھلی دو دہائیاں وہاں انڈین پروپیگنڈا کے زیر سایہ ایک نسل پروان چڑھی ہے، ان کا پاکستان مخالف ہونا تو سمجھ آتا ہے، مگر اپنے مسائل کی وجہ دوسروں کو قرار دے کر ساری ذمہ داری دوسرے پر ڈال دینا بھی انصاف کے منافی ہے۔جو ملک پچھلی چار دہائیوں سے بین الاقوامی قوتوں کا کھلواڑ بنا ہوا ہو اور مقامی طور پر بھی اتحاد کا فقدان ہو، وہاں مسائل کی ایک ہی وجہ نہیں ہوتی۔ ایسے منتشر ملک کا پڑوسی ہونا بھی کسی امتحان سے کم نہیں ہوتا۔ آپ افغانستان کے تمام پڑوسیوں کو دیکھ لیں، سب کے سب افغانستان کی طرف سے کسی نہ کسی مشکل میں مبتلا نظر آتے ہیں۔ اسی لیے تمام ممالک طالبان سے جو متفقہ مطالبہ کر رہے ہیں، وہ یہی ہے کہ افغان سرزمین ان کے خلاف استعمال نہیں ہونی چاہیئے۔ طالبان کے لیے یہ ایک بڑا چیلنج ہے، پاکستان نے آفیشلی آئی ایس آئی چیف کو بھیج کر خدشات کا اظہار کیا ہے کہ ٹی ٹی پی کے جن قیدیوں کو طالبان نے آزاد کیا ہے، وہ پاکستان کے لیے قابل قبول نہیں ہے اور ٹی ٹی پی کے خلاف طالبان کو کارروائی کرنا پڑے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

طالبان نے جو حکومت تشکیل دی ہے، اس کی وضع قطع ایسی نہیں ہے کہ وہ جدید دور کے تقاضوں کے مطابق حکومت کو چلا سکے۔ جس طرح طالبان نے ترجمان بنانے اور مذاکرات پر کامیاب ٹیم بنائی تھی، اس طرح کا ہوم ورک دیگر محکموں میں نظر نہیں آیا۔ اس کے برعکس خانہ پوری اور سب طالبان گروہوں کو حکومت میں شامل کرنا ہی بڑا مقصد ملحوظ رکھا گیا ہے۔ اس سے افغان عوام کے مسائل دن بدن بڑھیں گے، طالبان بیس سال پہلے والی حکمت عملی سے آج کے افغانستان پر حکومت نہیں کرسکتے۔ آج کا افغانستان اقتصادی اور سوشل اعتبار سے بہت بدل چکا ہے، وہاں ایک موثر مڈل کلاس معرض وجود میں آچکی ہے، جس کا دنیا سے رابطہ ہے اور وہ اپنے حقوق سے آگاہ ہیں۔ طالبان کو جدید نظم حکومت کو چلانے کے لیے اس نسل کا اعتبار اور تعاون درکار ہوگا، اس کے بغیر حکومت درست انداز میں نہیں چل پائے گی۔ ایک وقت تک لوگ نعروں کو سنیں گے، پھر وہ حقوق اور بہتر مستقبل کا سوال لے کر سامنے آجائیں گے۔ طالبان کے پاس وقت کم، مقابلہ سخت اور غلطی کی گنجائش نہیں ہے۔

Facebook Comments

ڈاکٹر ندیم عباس
ریسرچ سکالر,اور اسلام آباد میں مقیم ہیں,بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply