• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • فکری روایات کی تفہیم اور تکریم۔۔ڈاکٹر اختر علی سیّد

فکری روایات کی تفہیم اور تکریم۔۔ڈاکٹر اختر علی سیّد

فکری روایات کی تفہیم اور تکریم۔۔ڈاکٹر اختر علی سیّد/فرانسیسی فلسفی مشعل فوکو نے Episteme اور Discourse کے تصورات اپنے فلسفیانہ نظریات میں شامل کیے ہیں۔ مجھے اجازت دیں کہ غلط ہی سہی مگر میں Episteme کا ترجمہ “روح عصر” کروں، روح عصر سے فوکو کی مراد کسی ایک خاص وقت اور مقام پر موجود افراد کا وہ ذہنی ڈھانچہ ہے جس سے اس وقت کا تمام علم دریافت ہوتا ہے۔ یہ ذہنی ڈھانچہ ایک خاص وقت اور مقام پر نمو پذیر ہونے والے تمام علمی نظریات کے لیے اساس فراہم کرتا ہے۔ فوکو روح عصر کو ایک لا شعوری عمل مانتا ہے۔ اس کے مطابق کسی بھی معاشرے کے علمی امکانات کا تعین بھی روح عصر ہی کے ذریعے ہوتا ہے اور ہو سکتا ہے۔ نہ صرف امکانات بلکہ علمی رجحانات کی نشاندہی بھی روح عصر کی شناخت کے ذریعے ممکن ہے۔ اسی سے جڑا ہوا تصور Discourse کا ہے۔ جس کی تشریح میں یقینی طور پر کچھ کہنا شاید مجھ ایسے کے لئے ممکن نہ ہو مگر اتنا کہا جاسکتا ہے کہ ڈسکورس اپنی حیثیت میں روح عصر کا لسانی اظہار ہے یا پھر وہ مکالمہ ہے جو ہر سماج اپنی علمی اور نظری جہات کو متعین کرنے کے لیے جاری رکھتا ہے۔ (ٹی وی کے ٹاک شوز اور کالم نویسوں کے مناقشے اس ذیل میں نہیں آتے)۔ مختصراً یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہر دور اور ہر مقام کی اپنی ایک الگ روح عصر ہوتی ہے جس کا ریکارڈ اس دور کے ڈسکورس میں موجود ہوتا ہے۔

فوکو ہی نے اپنے ایک انٹرویو میں صداقت کے بارے میں کہا تھا کہ سچائی یا صداقت اس دنیا میں قدغنوں کی مختلف شکلوں سے برآمد ہوتی ہے۔ صداقت قوت ہے اور ہر معاشرہ صداقتوں کا اپنا ایک سلسلہ، خزانہ یا ورثہ رکھتا ہے۔ انہی صداقتوں کے اردگرد سیاست ہوتی ہے اور یہی صداقتیں فوکو کے بیان کردہ ڈس کورس کے ذریعے ظہور پذیر ہوتی ہیں۔ ڈسکورس معاشرے کی ان صداقتوں کا قابل ابلاغ بیان ہے۔ فوکو کی دی گئی تعریف میں ایک معاشرے کی روح عصر آفاقی Universal نہیں ہوتی ہے، نہ ہو سکتی ہے اور نہ اس کو آفاقی سمجھنا چاہیے۔ ظاہر ہے اگر روح عصر آفاقی نہیں ہو سکتی تو اس کا بیان یعنی ڈسکورس کیسے آفاقی ہو سکتا ہے۔ لیکن صداقت پر یقین رکھنے والا ہر فرد اپنی سچائیوں کو آفاقی سمجھنے، بنانے اور ثابت کرنے پر مصر ضرور ہوتا ہے۔

فوکو کے اس نظریے کو سامنے رکھنے کے بعد اب دیکھیے کہ دنیا میں موجود استعمار Colonizer اس بات پر اصرار کرتا نظر آتا ہے کہ ان صداقتوں پر یقین لایا جائے جو اس نے محکموں کے لئے گھڑی ہیں۔ مثلاً  نظام حکومت، نظام تعلیم، اقتصادی نظام،اور تو اور محکوم کے بارے خود اس کی رائے کا تعین بھی استعمار خود کرنا چاہتا ہے۔ یہاں فوکو پھر ہماری رہنمائی کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ علم کس طرح استعمار کے ہاتھوں استعمال ہونے والی ایک طاقت بھی ہے۔ فوکو نے ذہنی مریضوں کے لیے قائم ادارے Asylums، مجرموں کے لیے بننے والے قید خانے، اور بچوں کے تعلیمی اداروں میں اسی طاقت کے استعمال کو   نہ صرف دیکھا بلکہ دکھایا بھی ہے۔ گو بعد میں اس نے اپنے ہی نظریات سے گو رجوع تو نہیں کیا مگر ان کی شدت میں کمی کا عندیہ ضرور دیا ہے۔

اب ایک طرف روح عصر ایک طاقت کے طور پر موجود ہے اور دوسری طرف استعمار اپنے تمام تر ہتھیاروں سے لیس کھڑا نظر آتا ہے۔ ان ہتھیاروں میں ایک علم بھی ہے۔ فوکو نے انتہائی کامیابی کے ساتھ یہ بھی دکھایا ہے کہ ایک خاص وقت میں ایک خاص معاشرے کی روح عصر کے زیر اثر کس طرح عام روش سے ہٹ کر سوچنے، محسوس کرنے، اور حقیقت کو ایک مختلف طور پر دیکھنے، اور بیان کرنے والوں کو ذہنی مریض اور خطرناک قرار دے کر ذہنی امراض کے شفا خانوں میں بند کر دیا جاتا ہے۔ اور کس طرح یہ پریکٹس آج تک موجود ہے۔ ان مریضوں کو دی جانے والی ادویات کا مقصد بھی سب کو معلوم ہے اور ان ادویات سے کمائی جانے والی دولت کا بھی سب کو اندازہ ہے۔ فوکو ذہنی امراض کا انکار نہیں کرتا لیکن ان کے اتنے خطرناک ہونے سے انکاری ہے کہ ان کے شکار مریضوں کو اونچی اونچی دیواروں اور آہنی دروازوں کے پیچھے بند کر کے خاندانوں اور معاشرے سے دور کر دیا جائے۔ ذہنی امراض کے شکار لوگوں کی ایک غالب اکثریت اپنے اور کائنات کے بارے میں جو چاہے تصور رکھیں وہ معاشروں کو ان نظریات کی تبلیغ نہیں کرتے۔ لیکن صرف اپنے ہی نظریات کو درست سمجھنے والے، ان کی تبلیغ کرنے والے، لوگوں کو ان پر قائل کرنے کی کوششیں کرنے والے، اور ان نظریات سے اتفاق نہ کرنے والوں کے لیے سماجی لیبل ایجاد کرنے والے، ان سے اتفاق نہ کرنے والوں کا مقاطعہ اور پھر قتال کرنے والوں کو نہ کوئی خطرناک سمجھتا ہے اور نہ خطرناک سمجھ کر دیواروں کے پیچھے بند کرتا ہے۔

اس صورتحال میں ایک عامی کے پاس زندہ رہنے کا کونسا راستہ باقی رہ جاتا ہے۔ کیا وہ ایک خاص وقت میں موجود روح عصر کے مطابق اپنے خیالات کو ترتیب دے؟ اور ان کی بنیاد پر زندگی کے راستوں کا تعین کرے؟ استعمار کے بنائے ہوئے صداقت کے معیار سے اتفاق کرے اور اپنے آپ کو استحصال مسلسل کے لیے پیش کرتا رہے۔ یا پھر مختلف ادوار اور معاشروں میں پائی جانے والی صداقتوں کو باریکی سے دیکھے اور ان میں موجود تفاوت اور موازنے کے ذریعے اپنے لیے زندگی بسر کرنے کا کوئی راستہ ڈھونڈنے کی کوشش کرے۔ یہ وہ راستہ ہے جس کی طرف جناب جمشید اقبال اپنی کتاب “فکری روایات” میں ہماری رہنمائی کرتے ہیں اور جیسا کہ عرض کر چکا ہوں کہ آج کی صورت حال میں ایک عامی کے لیے بچ جانے والا یہ واحد راستہ ہے۔ فکری روایات کا ٹائٹل دیکھتے ہیں جس کتاب کا خیال میرے ذہن میں فوراً آیا، وہ جناب علی عباس جلال پوری مرحوم کی “روایات فلسفہ” تھی۔ میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ جلالپوری صاحب کی یہ کتاب کتنے ہی نوجوانوں کے لیے فلسفہ کا پہلا سبق ثابت ہوئی۔ جمشید صاحب کی تصنیف روایات فلسفہ سے اپنے مقصد میں تو شاید مختلف نہ ہو لیکن اپنے مشمولات میں مختلف ضرور ہے۔ ایک تو روایات فلسفہ کی طرح یہ کتاب صرف فلسفے کے اہم مکاتبِ  فکر کا بیان نہیں ہے۔ بلکہ انسانی فکر کے عہد بہ عہد ارتقاء کا بیان آپ کو اس کتاب میں ملتا ہے۔ دوسری نمایاں خصوصیت جو اسے روایات فلسفہ سے مختلف کرتی ہے وہ دنیا کے مختلف معاشروں اور تہذیبوں کی ان فکری روایات کا ایک کامیاب اور مختصرجائزہ ہے جو شاید فلسفے کے کسی باضابطہ مکتبہ فکر قرار دیئے جانے کی ضروریات پوری نہیں کر سکتی تھیں۔ اردو میں فکری روایات پر لکھی جانے والی کتابوں کے اپنے انتہائی محدود مطالعے کی بنیاد پر کہتا ہوں کہ علی عباس جلال پوری کی روح عصر اور سید سبط حسن مرحوم کی “ماضی کے مزار” کے بعد شاید اسی روایت میں کی جانے والی یہ پہلی کوشش ہے۔ مجھے یقین ہے کہ فکری روایات کے چند ابواب خاص طور پر نہ صرف ہمارے لیے دلچسپی کا سبب ہوں گے بلکہ ہمارے لئے اپنے عقائد کو سمجھنے کے لئے راستے بھی کھولیں گے۔ اس کی بہت واضح مثال اس کتاب کا چھٹا باب ہے جو نائجیریا کے یوروبا قبیلے کے اعتقادات اور نظریات پر لکھا گیا ہے۔ جمشید صاحب کی کتاب کے مطالعے سے قبل اس قبیلے کے بارے میں میری معلومات انتہائی واجبی سی تھیں۔ لیکن جب آپ اس قبیلے کے بارے میں جمشید اقبال صاحب کی تحریر کا مطالعہ کرتے ہیں تو صرف بیس سے زائد ان صفحات میں نہ صرف یوروبا قبائل کے اعتقادات کے اہم نکات سے آگاہی ملتی ہے بلکہ اس تہذیب کو تشکیل دینے والے افکار کا وہ موازنہ بھی پڑھنے کو ملتا ہے جو جمشید صاحب نے ان قبائل کا دنیا کے دیگر مفکرین اور تہذیبوں سے کیا ہے۔

کسی بھی علم میں ہونے والی ترقی کو من و عن بیان کر دینا بہت آسان ہے لیکن اس علم کو مخاطب کی ذات، حالات، اور تجربے کے پس منظر میں بیان کرنے کے لیے ہر دو کا علم ہونا ناگزیر ہے۔ یوروباقبائل، امریکہ کے انڈین قبیلے، کنفیوشس، بدھا اور بدھ مت پر لکھے گئے ابواب، عہد عتیق میں ہندوستانی فلسفہ، اور ہندوستان کے فلسفہ حقیقت پر لکھے گئے ابواب اس لحاظ سے بہت اہم ہیں کیونکہ ان موضوعات کا ایک سادہ مگر جامع بیان میری معلومات کے مطابق شاید اردو میں اس سے پہلے تحریر میں نہیں آیا۔ ان ابواب کے بارے میں دلچسپ بات یہ ہے کہ جگہ جگہ ان قبائل کے اعتقادات، رسوم و رواج اور نظریات کا موازنہ پاکستان اور دوسرے معاشروں سے کرتے ہوئے مشترکات اور اختلافات دونوں کو نمایاں کیا گیا ہے۔

ان قبائل کے بارے میں پڑھتے ہوئے مجھے یاد آیا کہ خود مجھ پر کیا گزری تھی جب پہلی مرتبہ میں نے میلاناوسکی کی کتاب میں مدرسری معاشروں کے بارے میں پڑھا تھا۔ اس سے پہلے کی میری دنیا میں حاکم صرف مرد کی ذات تھی۔ کیونکہ میری دنیا میں پاکستان سے باہر کا کوئی معاشرہ موجود ہی نہیں تھا۔ مدر سری معاشرے کے بارے میں جاننا میرے لیے ایک فکری صدمہ سے کم نہیں تھا۔

اس فکری صدمے نے جو اکھاڑ پچھاڑ کی تھی وہ مجھے آج تک یاد ہے۔ اگر جمشید صاحب میری رائے طلب کرتے تو اسی صدمے کے زیر اثر میں تجویز کرتا کہ قبائل کے بیان میں ملائشیا کے Minankabau قبائل کا بیان بھی شامل کیا جائے۔ ان قبائل کے رسوم و رواج اور نظریات کا مطالعہ پاکستان میں رہنے والوں کے لیے یقیناً دلچسپی کا سبب ہوتا۔ یہ ملائیشیا کے مسلم قبائل ہے جہاں مدرسری نظام آج تک اپنی کچھ صورتوں میں موجود ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

جمشید اقبال صاحب کی یہ کتاب لکھے جانے اور چھپ جانے کے بعد اب ہم ایسے قارئین کی ملکیت ہے۔ ہم یہ آزادی رکھتے ہیں کہ اس پر رائے زنی کریں۔ اس میں موجود خوبیوں اور خامیوں کو اپنے تبصروں کی زد پر رکھیں۔۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہم پر یہ بھی لازم ہے کہ ہم اس کتاب پر مصنف کا شکریہ ادا کریں۔۔ ان کی خدمت میں مبارک باد پیش کریں اور ان سے یہ توقع رکھیں کہ وہ اسی روایت کو اپنی آئندہ تصنیفات میں زندہ رکھیں گے۔۔ اپنے مخاطبین کے علم میں اضافہ فرماتے رہیں گے اور آنے والی نسلوں کو قدم رکھنے کے لیے وہ بنیاد فراہم کرتے رہیں گے جن پر قدم رکھ کر وہ اپنے کل کے سفر کا آغاز کر سکیں۔

Facebook Comments

اختر علی سید
اپ معروف سائکالوجسٹ اور دانشور ہیں۔ آج کل آئر لینڈ میں مقیم اور معروف ماہرِ نفسیات ہیں ۔آپ ذہنو ں کی مسیحائی مسکان، کلام اور قلم سے کرتے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply