سستا انصاف

اس ملک کی بدقسمتی کے اس کے حاکم لٹیرے، ،محافظ ڈکیت، اور منصف عدل سے عاری ہیں، صحافت اب کوٹھے کی وہ رقاصہ بن گئی ہے جو ہر مجرے کے بعد آداب بجا لیتی ہے۔ قانون میں ایسے ایسے سقم ہیں کہ جو چاہے توڑ مروڑ کر اپنے حق میں کوئی دلیل بنا لیتا ہے۔ اور ان سب کی نکیل کس کے ہاتھ میں ہے سب جانتے ہیں!
ستر برس میں کوئی بھی وزیر اعظم اپنی آئینی مدت پوری نہیں کر سکا، مار دیا گیا یا اُتار دیا گیا، اُتار دینے پر لڑتا کیسے؟ مکمل سچ جو نہیں ہوتا اور جو مکمل سچ نہیں ہوتا وہ آدھا چور ہوتا ہے اور جو چور ہو اس میں جرات نہیں ہوتی ، اور جس میں جرات نہیں ہوتی پھر اس پر وہ ہی بھونکتے ہیں جن کو اپنے مفاد کے لیے ہڈی ڈالتا تھا!
پاکستان کو مسلسل لوٹنے والوں میں سب شامل ہیں، کوئی مالی کرپشن کرتا ہے تو کوئی اخلاقی کرپشن کوئی مالی مفاد حاصل کرتا ہے اور کوئی اقربا پروری کے ساتھ میرٹ کا قتل!
ہماری بد قسمتی ہے کہ ستر برس ہوجانے کے باوجود آج بھی ہم اپنے پیروں سے بوٹ الگ نہیں کر پائے کبھی یہ بوٹ ہمیں کانٹوں سے بچاتے ہیں تو کھبی یہ ہی بوٹ لات مار کر کانٹوں میں پھینک دیتے ہیں!
سیاسی لیڈر اپنے ذاتی مفاد کے پیش نظر چلتے ہیں، نواز شریف ہوں یا زرداری یا پھر کوئی اور سیاست دان ، سب کے لیے سب سے پہلے اس کا اپنا مفاد ہوتا ہے جس کے تحت وہ کرہشن بھی کرتا ہے، اور یہ ہی کرپشن اسے ملک کے باقی تین ستون کے سامنے باندھ کر رکھ دیتی ہے۔
پانامہ کا ہنگامہ تو ابھی ایک آدھ برس کی ہی بات ہے، قرض اُتارو ملک سنوارو، روزگار اسکیم، پیلی ٹیکسی، اور جانے کیا کیا کچھ، اربوں روپے کی کرپشن اور ٹھیکے میرٹ کا قتل عام کر کے دیے گئے، ذاتی عناد اور عصبیت کی بنیاد پر نواز شریف نے کیا کچھ نہیں کیا، سب جانتے ہیں ، مگر کیا ان سب چیزوں کو عدالت میں ثابت کیا جا سکتا ہے؟ نہیں ، یہ الزامات اپنی تمام تر سچائی کے باجود ایک الزام ہیں رہیں گے۔۔ تاریخ گواہ رہے گی ، کہ ایک منتخب وزیر اعظم کو کس بنیاد پر گھر بھیجا گیا!
جب سوچ پر کسی کا پہرہ ہو، اور شعور پر کسی کی خواہشات کا عکس تو پھر فیصلے میں سے اثر اور جرات نکل جاتی ہے، عدل نہیں ہوتا عُذر ڈھونڈا جاتا ہے ، اور عُذر کبھی بھی اچھے الفاظ میں یاد نہیں کیا جاتا۔۔سر جھک جاتے ہیں جھکائے جاتے ہیں !
ایک فلم میں ہیرو، بدمعاش کو گولی مار دیتا ہے، جب اس سے پوچھا جاتا ہے کہ گولی کیوں ماری ، تو کہتا ہے کہ میرے پاس اس کے خلاف کوئی ثبوت نہیں تھا مگر یہ مجرم تھا یہ ایک اٹل حقیقت تھی!
ہم لوگ بھی عجیب ہیں، اور ہماری صحافت بھی عجیب، چوہدری نثار نے پریس کانفرنس میں کہا کہ ملک شدید خطرے میں ہے، دو جرنیل اور دو سولین جانتے ہیں کہ کیا خطرات لاحق ہیں۔۔ یہ ہمارے ملک کا وزیر داخلہ ہے جس نے دو ماہ سے وزیراعظم سے ملاقات نہیں کی، کسی نے اس سے سوال نہیں کیا کے سر بطور وزیر داخلہ آپ نے کیا کیا؟؟ اگر ملک کو شدید خطرات ہیں تو سیاست سیاست کیوں کھیل رہے ہیں؟ اس کا سد باب کیوں نہیں کرتے! گھوم پھر کر ہماری سوئی پانامہ کے غبارے میں اٹکی رہی اور آج وہ بھی پھٹ گیا!
اس ملک کی بدقسمتی ہے اسے نواز شریف اور زرداری جیسے لیڈر ملے، یہ اس کا نصیب ہے کہ اسے عمران خان جیسے نا تجربے کار نا فہم لیڈر میسر ہیں، یہ ہماری تقدیر ہے کہ مولانا فضل الرحمن جیسے لوگ ہماری مذہبی قیادت کے دعوے دار ہیں!
مجھے افسوس ہے جمہوریت کے دعوے دار ملک میں آج بھی بلاواسطہ آمریت ہی قابض ہے جس کے بوجھ تلے دب کر عدلیہ اور صحافت بدبو دار سانس لے رہے ہیں ، ہمارے جرنیل سرحدوں سے زیادہ ہماری سیاست میں دلچسپی رکھتے ہیں اور سیاست دان کاروبار میں، جب تک اس ملک کے جرنیلز بیرکوں میں نہیں جائیں گے، جب تک اس ملک کی عدلیہ اپنے لہجے سے فرعونیت نہیں نکالے گی جب تک اس ملک کی سیاست چند خاندانوں اور سیاست دانوں میں بٹی رہے گی، ایسے سستے انصاف مُیسر رہیں گے، عوام کا کیا ہے اسے کل اُٹھ کر نوکری پر جانا ہے ، مہنگا پیٹرول ، دال کھانی ہے، ٹیکس دینا ہے گندہ پانی پینا ہے لوڈشیڈنگ کا عذاب بھگتنا ہے، اسپتالوں میں خون تھوکتے ہوئے مرنا ہے، ہمارے سیاست دانوں اور جرنیلوں، منصفوں کا کیا ہے، ان کے لیے تعلیم صحت اور ہر چیز اعلی درجے کی ملک اور ملک سے باہر موجود ہے!
یہاں عوام کے لیے ایسے تماشے آئے دن لگتے رہیں گے آج نواز کل عمران تو پھر پرسوں زرداری کی باری ہو گی! باریاں بدلتی رہیں گی ، اور جوتے چمکتے رہیں گے عوام کا کیا وہ تو ایک انگھوٹھا ہے ایک ووٹ ہے بس!
میرے ملک کے کتے ہیں
بھونکتے نہیں ہیں صرف
کاٹ بھی لیا کرتے ہیں
میرے ملک کے کتے ہیں
خوں پر میرے ہی پلتے ہیں
گوشت میرا ہی کھاتے ہیں
دم اٹھاکر جب اپنی
ہلکا سا غراتے ہیں
وہ بھی چپ ہو جاتے ہیں
سب پر جوچلاتے ہیں
قلم پھر جو اٹھتا ہے
سچ سا ہی اگلتا ہے
فیصلہ سناتا ہے
کل جس پر بھونکا تھا
اب اُس کو شاہ بنانا ہے
جس کے پیچھے دُبکے تھے
آج اُس پر ہی غراںا ہے۔۔
پٹہ جب بدلتا ہے!
سچ بھی سرکتے ہیں
زنجیر جب بدلتی ہے
فیصلے بدلتے ہیں!

Facebook Comments

منصور مانی
صحافی، کالم نگار

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply