• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • نیوزی لینڈ میں مسلمانوں کا قتل عام۔ نسلی انتہا پسندی عروج پر۔۔۔ارشد بٹ

نیوزی لینڈ میں مسلمانوں کا قتل عام۔ نسلی انتہا پسندی عروج پر۔۔۔ارشد بٹ

9 ۔ 11 کے بعد سفید فام یورپین آبادی والے ممالک میں رنگدار تارکین وطن، خصوصا ً مسلمانوں کے خلاف نفرت، امتیازی برتاو اور دہشت گردی کے واقعات کا طوفان تھمنے کا نام نہیں  لے رہا۔ گذشتہ روز نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ کی دو مساجد میں پچاس سے زیادہ نہتے مسلمانوں کا بہیمانہ قتل عام اسی انسان دشمن طرز عمل کا تسلسل ہے۔

15۔ مارچ 2019 بروز جمعہ آسٹریلیا کا ایک شہری کرائسٹ چرچ کی دو مساجد میں گھس گیا۔ وہاں اندھا دھند فائرنگ کر کے پچاس افراد کو ہلاک اور پچاس سے زیادہ کو زخمی کر دیا۔ ہلاک شدگان میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں۔

مغربی ممالک میں مسلمانوں کے خلاف نسلی جرائم کے مرتکب اکثر افراد کا تعلق نسل پرست، نازی اور فاشسٹ گروھوں سے ثابت شدہ ہے۔ ان میں سے شائد ہی کسی سخص کا تعلق مذہبی گروہ سے رہا ہو۔ کرائسٹ چرچ کی مساجد میں قتل عام کا مرتکب بھی نیو فاشسٹ نسل پرست شخص ہے۔ یہ شخص سفید فام اقوام کی نسلی برتری کا قائل ہے۔ وہ سفید فام معاشروں کو رنگدار تارکین وطن سے پاک کرنے پر یقین رکھتا ہے۔ اس کے نزدیک سفید فام معاشروں میں رنگدار ثقافتی گروھوں کی آمیزش سے سفید فام تہذیبی اور ثقافتی اقدار کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ ایسے انتہا پسندوں کی نظر میں مسلم اوررنگدار افراد کی وجہ سے سفید فام تہذیب، ثقافت اور سماجی یکجہتی میں دڑاڑیں پڑنے کا اندیشہ بڑھ گیا ہے۔

کرائسٹ چرچ کا قصاب انتہا پسند مذہبی عیسائی نیہں بلکہ انتہا پسند نسل پرست ہے۔ اس کے خیال کے مطابق سفید تہذیب اور معاشرتی اقدار کے دشمن صرف مسلم ہی نیہں بلکہ ہر رنگدار تارک وطن ہے، جو سفید فام تہذیب اور ثقافت کو پراگندہ کرنے آ پہنچا ہے۔

کرائسٹ چرچ کا اندوہناک سانحہ محض ایک نسل پرست کا انفرادی فعل نیہں۔ معصوم اور نہتے انسانوں کا خون بہانے کے لئے ایک عرصہ منصوبہ بندی کی گئی جس میں کئی افراد کے ملوث ھونے کے واضع امکانات ہیں۔ اب انتہا پسند نسل پرست اور سفید فام برتری کی تحریک کسی ایک ملک تک محدود نیہں۔ ان ممالک میں نسل پرست فاشسٹ گروہ باہمی تعلق میں جڑے ہوئے ہیں اور نسلی جرائم میں ایک دوسرے کے مدد گار ہوتے ہیں۔ شدت پسند نسل پرست عناصر منظم نیٹ ورک کے تحت متحرک رہتے ہیں۔ کرائسٹ چرچ کا قصاب ٹیرنٹ ناروے کے دہشت گرد برایئوک سے رابطے میں رہا تھا۔ یاد رہے برائیویک نے 2011 میں ایک دہشت گرد حملے میں 77 نارویجین نوجوانوں کو ہلاک کر دیا تھا۔ برائیوک کا کہنا تھا کہ یہ نوجوان اس سیاسی جماعت کا ہراول دستہ ہیں جو رنگدار تارکین وطن اور مسلمانوں کی حمائت کرتی ہے۔

مغربی ممالک میں انسانی حقوق کے علمبرداروں، جمہوری سوچ رکھنے والے دانشوروں اور انسانی و جمہوری اقدار کی حامی سیاسی جماعتوں کے مطابق نسلی پرستوں کے انتہا پسند اور دہشت گرد حملوں کا مقصد مغربی مسلم اور رنگدار شہریوں کو سماجی عمل اور معاشی ترقی سے خارج رکھنا ہو سکتا ہے۔

کرائسٹ چرچ کا قتل عام ایک مذہب کے ماننے والوں کا دوسرے مذہب کے ماننے والوں کے خلاف اعلان جنگ نہیں ۔ نہ ہی انتہا پسند مذہبی عیسائی کا اسلام یا مسلمانوں کے خلاف اعلان جہاد ہے۔ یہ سفید فام نسلی برتری کے فلسفے پر عمل پیرا شدت پسند نسل پرست کا رنگدار تاریکین وطن کے خلاف شدید نفرت کا اظہار ہے۔

انسان دوست مغربی محقیقن کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف امتیازی برتاو کو رنگدار تارکین وطن کے خلاف نسل پرستانہ امتیازی سلوک سے علیحدہ کرنا ممکن نہیں۔ مسلم فوبیا مسلمانوں اور اسلام کے خلاف تعصب اور نسل پرستی کی ایک قسم کہی جا سکتی ہے۔ یہاں یہ وضاحت کرنا ضروری ہے کہ مٹھی بھر نسل پرستوں کی سوچ عام عوام کی سوچ کی عکاسی نہیں  کرتی۔ انسانی حقوق کی تنظیموں، ٹریڈ یونینز، ترقی پسند کارکنوں، دانشوروں اور مین سٹریم سیاسی جماعتوں میں تارکین وطن کے لئے وسیع حمائت پائی جاتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

آج کے مشکل حالات میں مغربی دنیا کے مسلم شہریوں کو متعد مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہیں جہاں انتہا پسند نسل پرستوں کا ہمت اور جرات سے مقابلہ کرنا ہے، وہاں اپنی صفوں سے مذہبی تنگ نظروں اور انتہا پسندوں سے بھی نجات حاصل کرنی ہے۔ مغربی مسلم شہریوں کو مذہبی تنگ نظری کے دائروں سے باہر نکل کر عظیم انسانی اقدار کی روشنی میں ہر رنگ، نسل، عقیدہ اور مذہب کے ماننے والے انسانوں سے باہمی احترام کا تعلق اور ربط بڑھانے کی کوشش کرنی چاہیں۔ اعلیٰ انسانی اقدار کی بنیاد پر وسیع بین الالثقافی سماجی میل جول انسانوں کو بلا امتیاز رنگ، نسل، عقیدہ اور مذہب قریب لا کر نفرتوں کا خاتمہ کر سکتا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply