الیکشن کے بعد۔۔آغر ؔندیم سحر

اس وقت جب میں کالم لکھنے میں مصروف ہوں’پنجاب کے بیس حلقوں میں ضمنی انتخابات کاحیران کن نتیجہ آ چکا’غیر حتمی نتائج کے مطابق پاکستان تحریک انصاف نے بیس میں سے سولہ نشستیں جیت کر پنجاب میں کلین سویپ کر لیا ہے۔میں نے حیران کن نتیجہ اس لیے کہا کہ لاہور کی نشستیں جیتنا واقعی ایک مشکل کام تھا مگر تحریک انصاف کی بہترین حکمت ِ عملی نے ثابت کر دکھایا کہ عوام آج بھی عمران خان سے محبت کرتے ہیں۔بیس منحرف اراکین کی سیاست مکمل طور پر دفن ہو چکی’بکاؤ مال اپنی موت آپ مر گیا’ جہانگیر ترین اور علیم خان کے امیدوار بھی شکست کھا گئے’پی پی پی کی مشاورت بھی کام نہ آ سکی اور مریم نواز کا جھوٹ پر مبنی بیانیہ بھی ختم ہو چکا۔الیکشن سے قبل میرے صحافی دوستوں کا خیال تھا کہ تحریک انصاف مشکل سے دس سیٹیں جیتے گی’لاہور کی چاروں سیٹیں نون لیگ کی ہوں گی’ملتان والی سیٹ جہانگیر ترین کے چہیتے سلمان نعیم لے جائیں گے اور علیم خان والی سیٹ بھی تحریک انصاف کے لیے جیتنا مشکل ہوگا مگر آج جب نتیجہ دیکھ رہے ہیں تو سب دوست حیران ہیں کہ تحریک انصاف اس قدر مقبول جماعت بن جائے گی’سوچا نہ تھا۔

عمران خان کو راستے میں چھوڑ کر جانے والے اراکین کا خیال تھا کہ حمزہ شہباز کے وزیر اعلیٰ بنتے ہی پنجاب میں دودھ کی نہریں جاری ہو جائیں گی اور معاشی بحران پلک جھپکتے ہی ختم ہو جائے گا’مہنگائی کا نام و نشان مٹ جائے گا کیونکہ حمزہ شہباز کے پاس پنجاب میں اتنی قابل ٹیم ہے کہ اسے شکست دینا مشکل ہو جائے گا مگر معاملہ الٹ ہو گیا۔میرا خیال ہے حالیہ ضمنی انتخابات سے ایک بات تو واضح ہو گئی کہ مسلم لیگ نون کو اپنا غیر جمہوریہ رویہ تبدیل کرنا ہوگا’ریاستی اداروں کو عزت دینے کے ساتھ ساتھ انہیں خود مختار بھی کرنا ہوگا’بیوروکریسی میں چہرے بدلنے کی بجائے سسٹم بدلنا ہوگا’نیب سے اپنے کیسز ختم کروانے کی بجائے اسے مزید طاقت ور کرنا ہوگا تاکہ بڑے ڈاکوؤں کا احتساب ہو سکے’

ذرائع سے یہ بھی خبریں مل رہی ہیں کہ نواز شریف ’چھوٹے بھائی کو اسمبلیاں توڑنے کی تجویز دے رہے ہیں تاکہ نئے انتخابات کا اعلان کیا جائے۔میرے خیال سے اسمبلیاں توڑنے کی بجائے شہباز شریف کو خود ہی نئے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کر دینا چاہیے’ممکن ہے یہ فیصلہ نون لیگ کی ساکھ کو بہتر کر دے۔

گیارہ کی بجائے بائیس جماعتیں بھی متحد ہو جائیں ’جب تک ڈلیور نہیں کریں گے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ان انتخابات سے ایک بات یہ بھی واضح ہو گئی کہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہے اور عوام کو ہی رہنا چاہیے’مینڈیٹ چوری کرنے والے اور کروانے والے ہمیشہ منہ کی کھائیں گے’آج بکاؤ سیاست دانوں کو عوام نے صرف شکست نہیں دی بلکہ تمام جماعتوں کو سبق سکھایا ہے کہ ‘ووٹ کو عزت ’کیسے دی جاتی ہے۔

اتحادی جماعتوں کو میرا مشورہ ہے کہ حالیہ شکست سے سبق سیکھیں  اور نئے انتخابات کا اعلان کریں ’یہی بہترین وقت ہے ووٹ کو عزت دینے کا’ عوام کو موقع دیا جائے کہ وہ خود فیصلہ کریں کہ تخت پر کسے بٹھانا ہے۔پی ڈی ایم کو تسلیم کر لینا چاہیے کہ انھوں نے عمران خان کو گھر بھیج کر بہت بڑی غلطی کی اور یہ بھی سچ ہے کہ مسلم لیگ نون کو یہ غلطی لے ڈوبے گی۔آصف علی زرداری کی باتوں میں آکر مسلم لیگ نون نے پنجاب میں بھی اپنی ساکھ کمزور کر لی’اب نقصان کس کا ہوا؟ اتحادی جماعتیں اور پاکستان پیپلز پارٹی کا یا مسلم لیگ نون کا؟یہ بات شریف برادران کو سمجھنی ہوگی۔سب سے اہم بات کہ مسلم لیگ نون کو ترجمان بھی بدلنے ہوں گے اور مریم نواز کا سپیچ رائٹر بھی’میں نون لیگ کی شکست کا ذمہ دار مریم نواز اور لیگی ترجمانوں کو ٹھہراتا ہوں جنھوں نے ہمیشہ نیا بیانیہ متعارف کروایا ’جنھوں نے عمران خان کو گھر بھیج کر سمجھا تھا کہ تحریک انصاف کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہوا۔نیب قوانین میں تبدیلی’اوورسیز پاکستانیوں کی حق تلفی اور معاشی بحران حالیہ شکست کی سب سے بڑی وجہ ہے’چند  دنوں کی حکومت کو لیگی دوست نہ جانے کیا سمجھ بیٹھے تھے۔اقتدار میں آتے ہی عوام کو ریلیف دینے کی بجائے اپنے کیسز ختم کروانے میں لگ گئے اور یوں عوام کے سامنے اپنی اصلیت ظاہر کر دی’یہی وجہ ہے کہ آج پنجاب کے عوام نے واضح کر دیا کہ ریلیف چاہیے’نیب قوانین میں ترامیم نہیں۔

پنجاب میں سیاسی منظر نامہ یقیناً تبدیل ہو جائے گا’پرویز الہٰی وزیر اعلیٰ ہوں اور یہ بھی ممکن ہے کہ وفاق میں بھی بڑی تبدیلی آئے۔ذرائع سے یہ بھی خبریں مل رہی ہیں کہ نواز شریف ’چھوٹے بھائی کو اسمبلیاں توڑنے کی تجویز دے رہے ہیں تاکہ نئے انتخابات کا اعلان کیا جائے۔میرے خیال سے اسمبلیاں توڑنے کی بجائے شہباز شریف کو خود ہی نئے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کر دینا چاہیے’ممکن ہے یہ فیصلہ نون لیگ کی ساکھ کو بہتر کر دے۔ایک اور مشورہ نون لیگی قیادت کے لیے کہ اتحاد ختم کر دیں’مسلم لیگ نون کو مضبوط کرنے کا واحد آپشن یہی ہے کہ تمام جماعتیں اپنے ہی بینرز تلے الیکشن لڑیں اور عوام کا مینڈیٹ حاصل کریں’ایک دوسرے کے کندھے پر رکھ کر بندوق اٹھانے سے کس کو فائدہ ہوگا؟شاید کسی کو بھی نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اب تحریک انصاف کے پاس دو راستے ہیں’پہلا پنجاب میں اپنی کارکردگی کی بنیاد پر ثابت کرے کہ اگلے جنرل الیکشن میں بہترین آپشن عمران خان ہے اور دوسرا آپشن کہ عمران خان پہلے کی طرح سیاسی غلطیاں کرے اور دوبارہ عوام کی نفرت کا باعث بنے۔میں اکثر دوستوں سے کہتا ہوں کہ اگر عمران خان پانچ سال مدت پوری کرتا تو اگلے جنرل الیکشن میں شاید اسے ایک صوبہ بھی نہ ملتا مگر اتحادی جماعتوں نے اپنے کیسز ختم کروانے کے چکر میں عمران خان کو لات ماری اور یہ لات اسے مزید کامیاب کر گئی۔امید ہے عمران خان گزشتہ تجربے سے سبق سیکھیں گے اور اگلے جنرل الیکشن کی تیاری کے لیے بھرپور محنت کریں گے’یہ وقت سیاسی طور پر خود کو مضبوط کرنے کا ہے’غداری اور نفرت کے سرٹیفکیٹس بانٹنے کی بجائے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے محنت کی جائے۔اگلے الیکشن کے ساتھ ساتھ اگلی نسلوں کا سوچا جائے اور مداخلت و سازش کے بیانے سے باہر نکلا جائے تاکہ بہت سے بہتر پاکستان کی بنیاد رکھی جائے۔معاشی طور پہ یہ ملک دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ چکا’ایسے میں سیاسی شطرنج کی بجائے عوام میں اپنی عزت و وقار بحال کیا جائے تاکہ ہم حقیقت میں نئے پاکستان کی بنیاد رکھ سکیں۔

Facebook Comments

آغر ندیم سحر
تعارف آغر ندیم سحر کا تعلق منڈی بہاءالدین سے ہے۔گزشتہ پندرہ سال سے شعبہ صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔آپ مختلف قومی اخبارات و جرائد میں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔گزشتہ تین سال سے روزنامہ نئی بات کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہیں۔گورنمنٹ کینٹ کالج فار بوائز،لاہور کینٹ میں بطور استاد شعبہ اردو اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔اس سے قبل بھی کئی اہم ترین تعلیمی اداروں میں بطور استاد اہنی خدمات سرانجام دیتے رہے۔معروف علمی دانش گاہ اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم اے جبکہ گورنمنٹ کالج و یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم فل ادبیات کی ڈگری حاصل کی۔۔2012 میں آپ کا پہلا شعری مجموعہ لوح_ادراک شائع ہوا جبکہ 2013 میں ایک کہانیوں کا انتخاب چھپا۔2017 میں آپ کی مزاحمتی شاعری پر آسیہ جبیں نامی طالبہ نے یونیورسٹی آف لاہور نے ایم فل اردو کا تحقیقی مقالہ لکھا۔۔پندرہ قومی و بین الاقوامی اردو کانفرنسوں میں بطور مندوب شرکت کی اور اپنے تحقیق مقالہ جات پیش کیے۔ملک بھر کی ادبی تنظیموں کی طرف سے پچاس سے زائد علمی و ادبی ایوارڈز حاصل کیے۔2017 میں آپ کو"برین آف منڈی بہاؤالدین"کا ایوارڈ بھی دیا گیا جبکہ اس سے قبل 2012 میں آپ کو مضمون نگاری میں وزارتی ایوارڈ بھی دیا جا چکا ہے۔۔۔آپ مکالمہ کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہو گئے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply