بھارت : مسلم نوجوان ایک بار پھر نشانہ پر ؟(1)۔۔افتخار گیلانی

ہندو انتہا پسندوں کی مربی تنظیم آر ایس ایس کے سربرا ہ موہن بھاگوت کی چند مسلم دانشوروں کے ساتھ میٹنگ اور اس کے بعد ان کا ایک مسجد ور مدرسہ کے دورے سے لگ رہا تھا کہ شاید اس آؤٹ ریچ کے بعد مسلمانوں کو سانس لینے کا موقع فراہم گا۔مگر اس کے چند ہی دنوں کے بعد پورے ملک میں مسلم نوجوانوں کی ایک تنظیم پیلز فرنٹ آف انڈیا (پی ایف آئی) پر شکنجہ کس دیا گیا۔ نا  صرف الزامات کی بوچھاڑ کرکے اس پر پابندی لگائی گئی، بلکہ پورے ملک میں ابھی تک چھاپوں کے ایک لامتناہی سلسلہ میں 250کے قریب اس کے اراکین کو گرفتار کیا گیا ہے۔

اگر واقعی اس تنظیم کے ممبران غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہیں، تو ان کو قرار واقعی سزا ملنی چاہیے، مگر یہ یاد رہے کہ اسی طرح کی کاروائی 2001میں اس وقت کی مسلم نوجوانوں کی تنظیم اسٹوڈنٹس اسلامک مومنٹ آف انڈیا (سیمی) کے خلاف بھی کئی گئی تھی۔ بہت سے الزامات جو آج پی ایف آئی پر لگائے جا رہے ہیں، کم و بیش ان ہی الزامات کا پٹارہ سیمی کے خلاف بھی کھولا گیا تھا۔ جن افراد نے بعد میں سیمی کے کارکنان کے مقدمات کی پیروی کی ہو یا جن صحافیوں نے عدالتی ٹریبونل، جو پابندی کی ایپل کی شنوائی کر رہا تھا، کی کارروائی کور کی ہے، انکو معلوم ہوگا کہ کیسے بودے الزامات لگائے گئے تھے۔ مگر ان کے نتیجے میں کتنی زندگیاں تباہ و برباد ہوگئیں، اور سینکڑوں مسلم نوجوانوں کو جو معاشرہ میں مثبت کام کرسکتے تھے ، برسوں جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے گذارنے پڑے۔

آج ہی  کی طرح اُسوقت بھی ملی تنظیموں کو سانپ سونگھ گیا تھا اور وہ سیمی کا نام سنتے ہی کانوں کو ہاتھ لگاتی تھیں۔ امریکہ میں ٹریڈ ٹاور کی تباہی اور القاعدہ کی کارروائی کے دو ہفتہ بعد یعنی 29ستمبر 2001کو سیمی پر جب پابندی لگائی گئی تھی، تو بتایا گیا کہ وہ بھارت میں خلافت کا نظام قائم کرنا چاہتی تھی۔ پی ایف آئی پر بھی الزا م ہے کہ 2040تک وہ ملک میں اسلامی نظام قائم کرنے کے درپے تھی۔ یہ نظام تو مسلم اکثریتی والے ممالک لاگو نہیں کرپائے تو جس ملک کی 80فیصد آبادی غیر مسلم ہو، تو وہاں یہ نظام کیسے لاگو کیا جاسکتا ہے؟ بقول جید اسکالر ڈاکٹرظفرالاسلام خان، خواب دیکھنے پر کیسے پابندی لگائی جاسکتی ہے۔ ایک جمہوری ملک میں جہاں حکومتوں یا نظام کو تبدیل کرنے کا پر امن متبادل موجود ہے، بزور طاقت کسی نظریہ کو مسلط کرنے کا کوئی جوا ز ہی پیدا نہیں ہوتا ہے۔

حکومتوں کیلئے بھی لازم ہے کہ ہر نظریہ کے حامل افراد کو جو امن ، سلامتی، ا ستحکام ، رواداری اور بھائی چارہ میں یقین رکھتے ہوں، اور پر امن طور پر اپنے نظریات کی تبلیغ کا م کرتے ہوں، کو یکساں مواقع اور حقوق فراہم کرے ، تاکہ معاشرہ سے تشدد کا جواز ہی ختم ہو جائے۔ سیمی پر غداری، بغاوت، ملک دشمنی، پاکستان اور بنگلہ دیش کے دہشت گردوں سے روابط ، اسامہ بن لادن اور القاعدہ سے قریبی تعلق رکھنے،فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے اور فسادات برپا کرنے کے الزامات لگائے گئے تھے، جو کئی برسوں کی عدالتی کارروائی کے بعد اکثرججوں نے مسترد کر دیے۔دستاویزات کے مطابق ایک الزا م یہ بھی تھا کہ سیمی اپنے کارکنوں کو تیرنے اورگھوڑسواری کی تربیت دیتی تھی۔

ستمبر 2001کو جب سیمی کے صدر شاہد بدر فلاحی کو گرفتار کیا گیا، تو پولیس نے ایف آئی آر میں الزام لگایا کہ دس دن قبل دہلی سے 500کلومیٹر دور بہرائچ میں انہوں نے ایک گرلز کالج میں خطاب میں فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کاکام کیا تھا۔ مگر جب تقریر کی ریکارڈنگ چلائی گئی، تو وہ جلسے میں موجود شرکاء سے تلقین کر رہے تھے۔ ’’اچھے شہری بن کر اپنے والدین کو اپنے اوپر فخر کرنے کا موقع فراہم کردو۔‘‘ اس کے علاوہ انہوں نے اس تقریر میں امریکی پالیسی کو نشانہ بنایا تھا۔ جج نے پولیس کے گواہوں سے پوچھا کہ کیا اس تقریر کے بعد اس شہر میں کوئی فرقہ وارانہ واردات رونما ہوئی ، تو ان کا جواب نفی میں تھا۔ یہ فاسٹ ٹریک کورٹ تھی۔ مگر اس قضیہ کو سلجھانے، اس تقریر کی ریکارڈنگ سننے اور گواہوں کی جرح کرنے میں اسکو پانچ سال کا وقفہ لگا۔ اس کیس کو بگڑتے دیکھ کر اور جج کی طرف سے پھٹکار کے بعد حکومت نے اس کیس کو خود ہی واپس لینے کا فیصلہ کردیا۔ایک اور کیس میں فلاحی پر الزام تھا کہ جب انکو دہلی کے جامعہ نگر علاقہ سے گرفتار کیا گیاتو انکے دائیں ہاتھ میں ایک کلینڈر تھا، جس میں بتایا گیا تھا کہ کشمیر میں ہندو حکمرانوں نے ماضی میں مسلم رعایا پر ظلم کئے ہیں۔ پولیس نے اس کلینڈ ر کو لیکر ان پر ملک دشمنی ، اور غداری کی دفعات کے تحت مقدمات درج کئے تھے۔ عدالتی کارروائی کے دوران جج نے سرکاری وکیل سے پوچھا کہ کیا اس نے کبھی کشمیر کی تاریخ کا مطالعہ کیا ہے؟ وکیل نے نفی میں جواب دیا۔ تو جج نے اسکو ایک ہفتے کا وقت دیکر کشمیر کی تاریخ پڑھنے کا مشورہ دیا۔ اسی دوران گواہوں نے عدالت کو بتایا کہ کلینڈر کے کیس پر پولیس نے ان سے زبردستی دستخط لئے تھے اور وہ فلاحی کی گرفتاری کے وقت موجود بھی نہیں تھے۔ اسی طرح ایک اور کیس میں پولیس نے بتایا کہ سیمی کے صدر کی گرفتاری کے ایک ہفتے بعد ان کے دفتر سے کچھ آڈیو کیسٹ اور ایک بندوق کی تصویر ملی ہے۔

ایک اور کیس میں پولیس نے عدالت کو بتایا کہ ان کو جامعہ ملیہ اسلامیہ کی دیواروں پر پوسٹر چپکاتے ہوئے پکڑا گیا، جس میں لکھا تھا کہ ’’انشا ء اللہ ایک بار پھر بابری مسجد میں نماز ادا کی جائیگی۔‘‘ جج نے خود ہی جرح کرکے سرکاری وکیل سے پوچھا کہ’’ کیا یہ بیان یقین کرنے کے لائق ہے کہ ایک آل انڈیا تنظیم کا صدر ، خود ہی گلی کوچوں میں پوسٹر چپکاتے ہوئے دکھائی دے؟‘‘ایک اور کیس میں ان پر الزام تھا کہ 2000میں انہوں نے بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈر کلراج مشرا کی نکتہ چینی کی، جس نے سیمی پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اسی طرح سیمی کے جرنل میں انگریزی اخبار دی ایشین ایج میں شائع شدہ ایک مضمون کا ترجمہ شائع کرنے پر ان کے خلاف فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کا الزام عائد کیا گیا۔ ہونا تو چاہئے تھا کہ دی ایشین ایج پر بھی مقدمہ درج کیاجانا چاہئے تھا، کیونکہ اصل مضمون تو اسی اخبار میں چھپا تھا۔ مگر ترجمہ پر کارروائی کی گئی۔ عدالت نے یہ سب الزامات خارج کرکے استغاثہ کو ہدایت کی کہ کیس صرف ان کے ممنوعہ تنظیم کے ساتھ وابستگی کا ہی چلایا جائے۔ مگر عدالت کے اس فیصلہ کو آنے میں برسوں لگ گئے۔ سیمی پر کارروائی کے دوران متعدد نوجوانوں کے کیرئیر تباہ ہوگئے۔راجستھان کے پالی کے ایک اسپتال میں کام کرنے والے نوجوان مسلم ڈاکٹر کو پولیس نے گرفتار کرکے عدالت کو بتا یا کہ 29 ستمبر2001 کو جب سیمی پر پابندی عائد کی گئی، تو انہوں نے پالی میں لٹریچر اور پمفلٹ تقسیم کئے۔ مگر پولیس کو معلوم نہیں تھا کہ اس دن وہ 400کلومیٹر دور جسلمیر میں ملیریا کے مریضوں کیلئے منعقد کیمپ میں موجود تھے۔ ملیریا کیمپ کی رجسٹر نے پولیس کیس کی پول کھول کر رکھ دی۔ معلوم ہو اکہ پولیس نے پہلے ہی سے کیس تیار کرکے رکھا ہوا تھاکہ وہ رہا ہوگئے، مگر حکومت نے ان کو نوکری سے بے دخل کردیا۔ان کو کرایہ کیلئے مکان ملنا مشکل ہوگیا۔ حیدر آباد کے 22سالہ محتشم باللہ دکن کالج میں انجینرنگ کے تیسرے سال کا طالب علم تھا کہ بار بار گرفتاری اور ٹارچر کی وجہ سے اسکو تعلیم ادھوری چھوڑنی پڑی۔ (جاری ہے)بشکریہ روزنامہ 92نیوز

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply