معذور خواتین اور لڑکیوں پر تشدد کے مغالطے اور ۔۔عرفان اعوان

معاشرے میں بڑھتی ہوئی عدم برداشت اور گھٹن نے پُرتشدد واقعات میں تیزی سے اضافہ کیا ہے۔پُرتشدد واقعات کئی قسم کے ہوسکتے ہیں۔اس میں چوری ڈکیتی، جنسی و جسمانی زیادتی بھی شامل ہے اور گھریلو تشدد بھی شامل ہے۔عام طور پر تشدد و زیادتی کے واقعات رپورٹ نہیں ہوتے ہیں کیونکہ ایک بہت بڑا المیہ ہے کہ جس پر ظلم ہوتا ہے اسے ہی ڈرایا جاتا ہے کہ تھانے کچہری جانے سے بدنامی ہوگی اور اس طرح ظالم کو مزید ظلم کرنے کی تقویت ملتی ہے۔مختلف اداروں اور پولیس کی طرف سے دی جانیوالی ہیلپ لائن پر اب کسی حد تک مظلوم آواز اٹھانا شروع ہوگئے ہیں لیکن پھر بھی یہ تعداد انتہائی کم ہے۔ پُرتشدد واقعات میں سب سے آسان ٹارگٹ کمزور طبقہ ہوتا ہے اور خواتین و بچے اس کا زیادہ شکار ہوتے ہیں۔خواتین اور بچوں کے ساتھ ساتھ معذور خواتین اور لڑکیاں مزید آسان ٹارگٹ ہوتی ہیں جن کی نہ تو کسی فورم پر آواز پہنچ پاتی ہے اور نہ ہی وہ اپنا دکھ کسی سے شیئر کرسکتی ہیں۔ معذور بچیوں کاسب سے پہلے تو والدین کی طرف سے استحصال ہوتا ہے اور انہیں دوسرے صحت مند بہن بھائیوں کی طرح تعلیم و صحت کے بنیادی حق سے محروم رکھا جاتا ہے۔اسی طرح بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ ساتھ وہ مزید محرومی کا شکار ہوتی جاتی ہیں۔

ایک غلط تاثر ہے کہ معذور بچی کی شادی نہیں ہوسکتی کیونکہ اس کے بچے بھی معذور پیدا ہونگے۔ معذور بچی کو جائیداد کے حق سے محروم رکھا جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ والدین کے گزر جانے کے بعد بہن بھائیوں کے سہارے پر آجاتی ہے اور برابر کی حصہ دار ہونے کے باوجود علاج معالجے، دیکھ بھال اور دیگر سہولیات سے محروم ہونے کے ساتھ ساتھ سب پر بوجھ تصور کی جاتی ہے۔اوباش اور بااثر جنسی درندوں کی ہوس کا شکار ہوتی ہے لیکن نہ کسی کو بتا سکتی ہے، نہ کوئی سنتا ہے اور نہ ہی کوئی یقین کرتا ہے۔ ابھی جس وقت میں یہ تحریر لکھ رہا ہوں تو ایک خبر آئی ہے کہ چنیوٹ کے علاقے ساڑمراد والا میں بااثر زمیندار کئی ماہ سے ذہنی معذور بچی سے زیادتی کررہا تھا۔بچی کا والد اسی زمیندار کے پاس مزارعہ تھا اور ماں اسلام آباد میں کسی کے گھر کام کرتی ہے۔جب والد کام پر چلا جاتا تو زمیندار گھر آکر بچی سے زیادتی کرتا۔گزشتہ روز جب ماں گھر آئی تو بچی کی بگڑی ہوئی حالت دیکھ کر ہسپتال لے کر گئی تو وہاں پتہ چلا کہ بچی حاملہ ہے۔

اسی طرح کچھ روز قبل سرگردھا کے نواحی گاؤں میں 13سالہ گونگی بہری بچی سے زیادتی کا کیس سامنے آیا۔بچی کے والدین کا کہنا تھا کہ پولیس نے زیادتی کی بجائے زیادتی کی کوشش کا مقدمہ درج کرکے ملزم کا ساتھ دیا ہے اور مبینہ طور پر پولیس صلح کیلئے مجبور کررہی ہے۔اس سے پہلے گوجرانوالہ میں ایک گونگی بہری لڑکی سے مسلسل زیادتی کا واقعہ رپورٹ ہوا تھا جس میں پولیس نے ملزم کو گرفتار کرلیاتھا اور دوران تفتیش ملزم نے انکشاف کیا تھاکہ وہ اس سے پہلے متاثرہ بچی کو 6ماہ کا حمل بھی ضائع کرا چکا ہے۔ چار ماہ پہلے اوکاڑہ سے ایک دردناک اور افسوسناک واقعہ سامنے آیا جس میں ایک کمسن معذور بچی سے زیادتی کی گئی اور جب بچی کی والدہ تھانے میں درخواست لے کر گئی تو تفتیشی افسر نے رشوت مانگ لی۔ جب میڈیا پر آواز اٹھی تو وزیراعظم نے نوٹس لیا اور ڈی پی او نے تفتیشی کو معطل کردیا اور انصاف کے تقاضے پورے ہوگئے۔

تین ماہ قبل اگست میں لاہور کے علاقے ہربنس پورہ میں ملزم 15 سالہ معذور بچی کو ورغلا کر دکان میں لے گیا اور زیادتی کا نشانہ بنایا۔سات ماہ قبل مظفرگڑھ میں بااثر زمیندار کے بیٹے نے معذوربچی کوگن پوائنٹ پر زیادتی کا نشانہ بنایا اور اس کی ویڈیو بھی بنائی۔ناجائز تعلقات نہ رکھنے پر ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل کردی۔

یہ چند واقعات ابھی چند ماہ کے ہیں اور ایسے لاتعداد واقعات گزشتہ کئی مہینوں میں سامنے آتے رہے ہیں۔معذور بچیوں پر ہونیوالے تشدد اور زیادتی کے واقعات کی روک تھام کیلئے اور ملزمان کو کڑی سزا دینے کیلئے خصوصی توجہ اور قوانین کی ضرورت ہے۔عام طور پر تاثر یہی ہے کہ معذور لڑکی یا خاتون کو کوئی کچھ نہیں کہتا لیکن حقائق اس کے بالکل خلاف ہیں۔ یہ پچھلے چھ ماہ کے رپورٹ ہونے والے واقعات چیخ چیخ کر معاشرے کی بے حسی، قانون کی عدم دستیابی، حکومت کی لاپرواہی اور قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی لاقانونیت کا چہرہ پوری دنیا کو دکھا رہے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہم سوشل میڈیا پر دنیا کو بتاتے ہیں کہ ہم بہت پُرامن ہیں، ہمارے پاس قانون ہے، ہمارے پاس سکیورٹی ہے لیکن معذور خواتین اور بچیاں بھی جہاں محفوظ نہیں ہیں وہاں محض نعروں اور دعوؤں سے ہم دنیا کے سامنے اچھے نہیں بن سکتے۔

Facebook Comments

عرفان اعوان
گھٹن زدہ معاشرے میں جینے کی تمنا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply