• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • افغانستان طالبان اور عالمی سیاست (حصّہ :پنجم)۔۔ڈاکٹر محمد علی جنید

افغانستان طالبان اور عالمی سیاست (حصّہ :پنجم)۔۔ڈاکٹر محمد علی جنید

امیر حبیب سے امان اللہ تک:

ہم اپنی  سابقہ تحریر میں یہ امر  اس وقت قلت ِتحقیق  کے سبب بیان کرنا فراموش کرچکے تھے کہ مارو اور کھلا ؤکی سامراجی حکمتِ عملی کو انگریزوں نے افغانستان میں بھی بروئے کار لانے کی عملی کوشش  کامیابی سے    کی تھی، چنانچہ ۱۹۱۹ میں افغانستان کو خود مختار ریاست تسلیم کرنے کے مطالبہ کو عملی شکل دینے سے قبل تک براہر  بارک زئی خاندان کی حکومت کے حکمران انگریزوں کے وظیفہ خوار ہوا کرتے تھے،جو اگر چہ کہنے کو یہ کہا کرتے تھے کہ وہ کسی(عالمی سیاسی ) فریق کے ساتھ نہیں ہیں مگر سب کو یہ امر معلوم تھا کہ افغان حکمرانوں کو  روس کے برخلاف ،انگریز ہندوستان کے ذریعہ زیرِ دست رکھا جارہاتھا۔

اس ضمن میں ہندوستانی وائسرائے  افغان معاملات میں آزاد و خودمختار تھا مگر ساتھ ساتھ وہ خاص حساس امور میں لندن سے ہدایات لیا کرتا تھا،چونکہ ۱۹۱۸ تک جنگ عظیم اوّل ختم ہوچکی تھی،اور اسکے مابعد ہندوستان میں چلنے والی تحریک خلافت نے برطانوی حکومت پر کافی دباؤ ڈالا ہوا تھا، لہذا برطانیہ اپنی سرحدوں میں چلنے والی تحریکوں ،سیاسی بیداریوں اور بے چینی  کو خاص اہمیت دیا کرتا تھا ،چنانچہ  اس نے اس تناظر میں افغان علاقوں سے نسبتاً نرمی برتی ہوئی تھی ، اور وہاں  وہ کسی طویل تصادم کی کیفیت کو پیدا ہونے سے روکنے پر   زیادہ  آمادہ نظر آیا کرتا تھا ۔

چنانچہ اس  دوران کچھ انگریز مخالف عناصر افغانستان میں پناہ لئے ہوئے تھے،جو انفرادی  و خفیہ طور پر وہاں زیر زمین کام کررہے تھے،مگر ہندوستانیوں کو اس امر کی زیادہ خبر نہیں تھی کہ امیر افغانستان انگریز پٹھو ہے چنانچہ  تحریک ترک ِموالات اور ہندوستانیوں کی جانب سے انگریزی حکومت کے مقاطعہ کے بعد خلافت کے محافظ ہندوستانی مسلمانوں  نے سب کچھ بیچ کر جب افغانستان ہجرت کرنی چاہی تو انکو اس وقت منہ  کی کھانی پڑی ،جب افغانوں نے انھیں سرحد پار کرنے نہیں دیا،کہا جاتا ہے کہ اس دور میں  امیر عبدالرحمان کی جدید افغانی ریاست چند استثنائی جرات مندیوں سے ہٹ کر انگریزوں کے ہی زیرِ  تابع  ہوا کرتی تھی، جبکہ دوسرئی طرف بہت حد تک  روسی انقلابیوں اور انکی فکر کی وسطی ایشیا میں سرعت انگیز نفوذ پذیری نے افغانوں اور  برطانوی ہندوستان کو اور زیادہ تشویش کا شکار کئے ہوئے تھا۔

چنانچہ  اس ضمن میں امیر حبیب الرحمن کو گھیرنے کے لئے ماضی کی محوری قوتیں(ایکسِس پاورز)  کافی کوشش کرچکی تھیں،جن کی دعوت کو امیر حبیب الرحمٰن نے مالی مجبوریوں اور حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے قبولیت عامہ عطا نہیں کی تھی،اس ضمن میں اسکی بصیرت قابل دید تھی کہ محوری قوتوں کی دعوت پر لبیک کہنا گھاٹے کا سودا تھا،اور ۱۹۱۸ تک جنگ عظیم کے خاتمہ نے ثابت کردیا تھا کہ محوری بلاک اتحادی بلاک کے سامنے شکست فاش کا شکار ہوچکا تھا،ترک خلافت ،آسٹریائی ہولی رومن ایمپایر اور جرمن قیصریت اب شکست خوردہ ہوچکی تھیں۔چنانچہ امیر حبیب الرحمن نے امیر عبدالرحمٰن کی ریاستی جدت کاری کو مزید پروان چڑھایا،اس دور میں ہمیں یہ باتیں سننے  کو ملتی ہیں کہ بجلی گھر اور صنعتی کارخانہ  جات افغان سرزمیں پر اپنی ابتدا کررہے تھے،شہری تمدن و تہذیب پھلنا پھولنا شروع ہورہی تھی،سڑکوں کے جال  پھیلانے کا تصور نمودار ہونے لگا تھا۔

اس دوران ہندوستان سے مذہبی اور اشتراکی انقلابی افغان سرزمیں میں فکری محاذ کھولے ہوئے تھے،ہمیں یہاں ہندوستانی کانگریس کے اشتمالی عناصر کام کرتے دکھتے ہیں ،انگریز اور حبیب الرحمان غالباً ہر دو اس لہر پر تشویش کا شکار ہونگے  تو سیاسی منطقیت کے تناظر میں کچھ غلط نہ  ہوگا چنانچہ  اس کا توڑ بھی فکر سے کرنے کی کوشش کی گئی تھی ،اسکول(مدرسہ)،کالجز قائم  کئے گئے تاکہ فکری جھٹکوں کو فکری دیواروں کی تعمیر سے روکا جاسکے،چنانچہ  جدید طرز کے حبیبیہ اسکول و کالجز اسی دور میں قایم کئے گئے تھے۔دوسری طرف ینگ ترکز اور ایرانی قوم پرستی کی لہر نے بھی افغان قوم پرستی کی تشکیل و تعمیر پر اثرات مرتب کرنا شروع کردیے تھے۔

کہنے کو انگریزوں کی نگاہ میں افغانستان انکا زیر دست علاقہ تھا جسکی حکمت عملی(فارن پالیسی) بھی اسکے زیر دست کام کررہی تھی،اسکے حکمران کو انگریز دستاویزات ہز ہایی  نیس کے نام سے یاد کیا کرتی تھیں،جیسا کہ ہندوستان کی ساڑھے پانچ سو نیم خود مختار ریاستوں کے نواب،راجا کے ناموں کے ساتھ اس قسم کے اشرافیائی  القابات بروئے کار لائے جاتے تھے۔

(مکیش:تاریخ اسلام:جلد دویم:صہ:۷۳۰)             

مگر بقول مرتضی احمد میکش  امیر عبدالرحمان نے مالی مجبوریوں کے سبب وظیفہ لینا تو ضرور قبول کیا تھا مگر اپنی خودمختاری پر آنچ آنے نہیں دی تھی،یعنی کہ انگریز مداخلت کافی حد تک بس خارجہ امور و دفاع تک محدود تھی۔

امیر عبدالرحمان میں جو مزاحمتی قوت موجود تھی وہ امیر حبیب میں نسبتاً کمزور تھی انھونے انگریز دعوت پر انگلستان کا دورہ کیا،وہاں کے نظام کا مشاہدہ کیا انکی سیاحت نے(۱۹۰۶) نے ان پر اصلاحی اثرات  ضرور مرتب کئے تھے  ،چنانچہ انہوں نے اگر چہ خارجی دکھاوے کی حد تک تعلیمی ادارے ضرور قایم کئے مگر مغربی حریت کو افغانستان میں اتنا پھیلانے سے  ضرور روکنا چاہا تھا جتنا وہ عوام کو بیجا آزادی کا خواب دکھا کر حکومت کی مطلق العنانیت پر مسائل مسلط کرسکتی تھی۔

سیاسی محاذ پر اس نے افغانستان کی خودمختاری اور کامل آزادی کے لئے برطانیہ سے بات چیت کی تھی مگر اسکو کامل بہرحال امان اللہ کے نصیب میں کرنا لکھا تھا ،چونکہ اب برطانیہ اور اسکے اتحادی جنگ عظیم اول میں کامیاب و کامران لوٹ آئے  تھے، لہذا بہت حد تک اسکو اب کسی کا زیادہ خوف نہیں  تھا  دوسری جانب ،روسی اشتمالی ابھی اپنے پیروں پر چلنا سیکھ رہے تھے،لہذا برطانیوں نے امیر حبیب الرحمان کو نواب سے زیادہ بادشاہ تسلیم کرلیا تھا  وہ اب ہز ہائی نِس سے ہز مجیسٹی ہوگیا تھا ۔

برطانیہ نے اسے زیر دست رکھنے کے لئے اسکا وظیفہ اول اٹھارہ لاکھ اور مابعد چوبیس لاکھ  روپیہ سالانہ مقرر کردیا تھا(ایضاً)۔اس ضمن میں مقابلتاً مغلوں کے مقابل افغانی زیادہ کامیاب ثابت ہوئے کہ انھیں سیاسی اقتدار،اور خود مختاری اپنے علاقہ جات پر حاصل تھی۔

جنگ عظیم  اول کے دوران ترک ایرانی جرمن حمایت یافتہ وفد کی ناکامی کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ امیر حبیب الرحمان انگریزوں سے چار کروڑ روپیہ وصول کرچکا تھا چناچہ اس نے چن چن کر انقلابیوں اور زیر زمین  کام کرنے والے عناصر کے گرد گھیرا تنگ کرنا شروع کردیا تھا،جسکا نتیجہ یہ نکلا کہ شکار کھیلنے کے دوران دل جلے انقلابیوں کے تحریک یافتہ افراد نے اسے برزخ مکانی پر مجبور کردیا یوں اسکی موت کے بعد اسکا زیادہ ماڈریٹ و آزاد خیال جانشین امان اللہ تخت نشین ہوا۔

کچھ لوگوں کاخیال ہے کہ وہ افغانستان کو غیر جانندار رکھنا چاہتا تھا ،اور ساتھ  ساتھ برطانوی ہند سے کسی براہ راست ریاستی ٹکراو سے بھی پرہیز کرہا تھا

(ثروت صولت:ملت اسلامیہ کی مختصر تاریخ :جلد دویم:صۃ۴۰۸)

یہ بیان خود میں دو تضاد اور بعد المشرقین لئے بیٹھا ہے اوّل یہ کہ جب امیر برطانوی ہند سے تصادم سے پرہیز کرہا تھا تو وہ غیر جانبدار کیسے ہوا؟،دوئم جب برطانیہ ہی اسکو خودمختاری کی ضمانت دے رہا تھا اور ا،انقلابیوں کو وہ اسکی  ہی حمایت میں پکڑ رہا تھا تو وہ کس کی خدمت کررہا تھا؟ یعنی کیا وہ اب بھی جانبدار سمجھا جاسکتا تھا جبکہ اب برطانوی ہی کل عالم کے مائی باپ تھے؟،سوئم یہ کہ چار کروڑ لیکر بھی کیا کوئی خودمختار رہ سکتا تھا یا کہلا سکتا تھا؟لہذا یہ امر واضح ہے کہ انگریز مخالف عناصر نے اسے ہلاک کروایا تھا یہ الگ بات ہے کہ کسی امر میں انگریز اسکی رخصتی کا فیصلہ کرچکے ہوں ،یا اسکی جگہ کسی اور کو لانا چاہتے ہوں تو ہم اس سے واقف نہیں ہیں،ہاں انگریزی مزاج و اطوار  کے رو سے یہ بحث خارج الامکان نہیں ہے۔

امیر عبدالرحمان کے دشمن اس دوران اپنوں اور غیروں سب میں موجود تھے جیسا کہ تبدیلی لانے والوں کے خلاف ہمیشہ مقامی مزاحمتی مورچہ سد باندھنے کو کوشش کرتا ہے  یا  ایک تاثر یہ ملتا ہے کہ عموماً عوام کے نزدیک روایت شکنی کی سزا موت  ہوا کرتی ہے یوں اس  پیرایہ نے اسکے خلاف جو فضا منفی طور پر پروان چڑھائی تھی اس میں اسکا جانشین امان اللہ خان بھی شامل تھا،اسے اپنے باپ کی حکمت عملی پر تحفظات لاحق تھے ،ہمیں اس بابت کچھ نہیں معلوم کہ امیر حبیب کے قتل کے پیچھے موجود عناصر کے  پس پشت  کون کون موجود تھا،چنانچہ جب امیر حبیب جلال آباد کے قریب ایک شکار گاہ بنام پغمان میں رات کو اپنے خیمہ میں سو رہا تھا تو کسی نے اسکے  کان میں پستول سے گولی داغ تھی جو اسکو لے ڈوبی تھی۔

اس دوران اسکا بیٹا امان اللہ خان جو خود اسکی راہ پر کچھ حد تک بعد  میں  چلا کابل پر حاکم(گورنر؟) تھا ،چنانچہ  امیر حبیب کےچھوٹے بھائی سردار نصر اللہ خان کی ان سرداروں اور امرا نے بیعت کرلی تھی جو دوران سفر اسکے ساتھ تھے،مگر امان اللہ کے اطاعت میں آنے والے سرداروں،امرا اور فوجی امیروں نے امان اللہ کی امارت کا اعلان کردیا ،جب اس معاملہ کی خبر جلال آباد پہنچی تو نصر اللہ خان  نے بھتیجے کے حق میں دستبرداری کا اعلان کردیا اور اسکے حامیوں نے بھی اسکے فیصلے کی توثیق کردی یوں امان اللہ خان امیر حبیب اللہ متوفی کو متفقہ جانشین مان لیا گیا۔

امان اللہ کا دورِ  حریت اور آزاد افغانستان کی ابتدا:

امان اللہ نے اول اپنی سیادت کو مستحکم کرکے افغانستان کی خودمختاری حاصل کرنے کا احیا کرلیا تھا چنانچہ اس ضمن میں اس نے برطانوی حکومت کو ایک سفارتی مراسلہ میں مطلع کیا کہ وہ افغانستان کے دست نگر(ویسل اسٹیٹ) ہونے کی نفی  کرتا ہےاور اسکے کسی بیرونی دباو سے آزاد تشخص کا اعلان کرتاہے،اور وہ اس تناظر میں افغانستان کی داخلی و خارجی حکمت عملیوں اور عمل کاریوں میں خودمختار ہے،لہذا اس ضمن میں تعلقات کی عمدگی و بہتری کی ضمانت اس امر میں پنہاں ہے کہ برطانیہ عظمیٰ افغانستان کے آزاد تشخص  کو تسلیم کرے اور اسی کی روشنی میں مستقبل کےتعلقات کا تعین کرے۔

برطانیہ نے امیر امان اللہ کے اس سفارتی  مراسلہ جاتی مندرجہ جات کو ماننے سے انکار کردیا،اس ضمن میں اس نے یہ  فراموش کردیا تھا  کہ امان اللہ نے ریاستی نیت کے تعین کے ضمن میں ریاست کی تخلیق کے لئے مطلوبہ بنیاد کے جز سے کل کی تخلیق کی بنیاد رکھ دی تھی،چنانچہ ریاست کی تخلیق و تشکیل جن اجرائے ترکیبی پر مشتمل ہوتی ہے وہ ہوتی ہے ذیل کی بحث سے اس پر فنی روشنی پڑتی ہے:کہ فنی طور پر کوئی  ریاست مندرجہ ذیل اجزائے ترکیبی سے متشکل ہوتی ہے۔

ا۔ارادہ آزادی۔۲۔علاقہ۔۳۔آبادی۔۴۔اقتدار اعلی اور ۵۔حکومت۔

اب سے قبل افغانستان نامی دعویٰ کردہ علاقہ ایک زیر نگین علاقہ ہوا کرتا تھا،جسکے امیر سے لیکر ریاستی حکمت عملیوں تک پر برطانوی اثر و نفوذ قائم تھااسکا اقتدار اعلیٰ  بیرونی دباو سے آزاد نہیں تھا، وہاں سیاسی فلسفہ کے پیرایہ میں کوئی جدید ریاست کے لئے مطلوبہ ارادہ آزادی کی نیت ظاہر نہیں ہوئی تھی۔

مگر امان اللہ جو پہلے ہی نیم حکومت،آبادی،علاقہ کے جز پر قابو رکھتا تھا،نے ارادہ آزادی ظاہر کرکے آزادی کی نیت بالاتر ریاست کے سامنے ظاہر کردی تھی  اور کسی بیرونی دباو کے بغیر اقتدار اعلی کا بھی مطالبہ پیش کردیا تھا ،اب اگر خارجی تعلقات کے تناظر میں دیکھیں تو اس نے برطانیہ سے ریاستی تشخص کی تسلیم کرنے  کابھی مطالبہ کردیا تھا،برطانیہ نے اس امر کو اپنے وقار اور عالمی اقتدار کے خلاف جانا اس سے یہ امر  ہضم نہیں ہورہا تھا  کہ اسکے بغل کا بچہ ،اسکا وظیفہ خوار اس سے کامل آزادی کا مطالبہ کرتا پھرے چنانچہ  درہ خبر کے سرحدی نقطہ چھار باغ پر برطانوی ہند اور دو کمپنیوں پر مشتمل افغان فوجی گروہوں کا تصادم وقوع پزیر ہوا  تین گھنٹہ کی اس غیر متوقع لڑائی میں افغان دستہ پسپا ہوکر  جلال آباد پہنچا،جب امان اللہ تک کابل میں اس جنگ کی خبر پہنچی تو ارادہ آزادی کو نیت سے اعلان تک لانے کے لئے امان اللہ نے ہندوستان کی انگریز حکومت کے خلاف اعلان جنگ کردیا ، یہ سنکر انگریزی افواج  افغانوں کو دھکیلتے ہوئے افغان سرحد سے تیرہ میل اندر تک گھس گئی تھیں۔

چنانچہ دونوں نے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے محاذ کھول دیے،افغان فوج کے سربراہ جنرل نادر خان نے درہ توچی سے اتر کر تھل کے قلعہ پر حملہ کرکے انگریز چھاونی سر کرلی جبکہ اسکے برخلاف کوئٹہ  اور قندھار کے درمیاں بلوچی علاقوں سے انگریزوں نے  افغانوں سے ایک سرحدی قلعہ اسپین بولدک جو چمن کے سامنے تھا چھین لیا،جب اسکی خبروزیرستان پہنچی تو وہاں کے محسودی قبائل نے امیر امان اللہ کا ساتھ دینے کا اعلان کیا اور وانا کے انگریزی قلعہ پر دھاوا بول کر اسکو تہس نہس کرکے رکھ دیا،بتایا جاتا ہے کہ اسکے نتیجہ  میں پندرہ ہزار کے قریب انگریز سپاہ ضبو حالی کا شکار ہوگئی، وہیں دوسری طرف وزیری قبائل بھی اس تصادم میں انگریزوں کے مخالف اتر پڑے چنانچہ ان دونوں قبایل نے چالیس کے قریب انگریز چوکیوں کو ادھیڑ کر رکھ دیا۔

جب انگریزوں نے اپنی سرحد میں موجود قبایل کی روش و شورش دیکھی اور مرکزی ہندوستان میں تحریک خلافت کی پروازیں دیکھیں  تو اس نے کمال  حسن تدبیر کا مظاہرہ کرتے ہوئے تین ماہ پر مشتمل اس جنگ کے اختتام کا اعلان کردیا اور افغانستان نامی ریاست کی کامل آزادی کو تسلیم کرلیا  ،اور ۱۷ اگست ۱۹۱۹ کو بمقام راولپنڈی ہونے والے دو طرفہ معاہدہ میں افغانستان کی کسی بیرونی دباو سے خارج آزادی کو تسلیم کرلیا گیا اور یہیں سے  ہم دیکھتے ہیں کہ اکیسویں صدی کے افغانستان نامی ملکی ریاست کی ابتدا ہوتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply