گنگا میّا۔۔بھیرو پرسادگپت(8)۔۔ہندی سے ترجمہ :عامر صدیقی

مٹرو کے منہ سے ایک لفظ نہیں پھوٹ رہا تھا۔ وہ تو کچھ اور سوچ کر چلا تھا۔ اسے کیا معلوم تھا کہ وہ کتنے ہی درد کے سوئے ہوئے تاروں کو چھیڑنے جا رہا ہے۔

آہستہ آہستہ کافی دیربعد درد کی جوش کھاتی ہوئی ندی پُرسکون ہوئی۔ ایک ایک کر لوگ ہٹ گئے، تو بوڑھے نے کہا،’’بیٹا، اب منہ ہاتھ دھو لے۔ تیری مہمان نوازی کرنے والا یہاں کوئی نہیں ہے۔ کچھ خیال نہ کرنا۔ تیری بڑائی ہم سن چکے ہیں۔ تُو خبر دینے آ گیا تو ہم بدنصیبوں کو کچھ آرام ہو گیا۔ بھگوان تجھے خوش رکھیں!‘‘

ہاتھ منہ دھوکر مٹرو بیٹھا، تو اندر سے ماں نے لا کر گڑ اور دہی کا شربت بھرا گلاس اس کے سامنے رکھ دیا۔ مٹرو نے اس بھی پاؤں چھوئے۔ بوڑھی آنچل سے بہتے ہوئے آنسوؤں کو پونچھتی وہیں کھڑی ہو گئی۔

شربت پی کر مٹرو جیسے خود سے ہی بولنے لگا،’’کوئی تشویش کی بات نہیں ہے مائی۔ گوپی بہت اچھی طرح ہے۔ ہم تو ایک ہی ساتھ کھاتے پیتے، سوتے جاگتے تھے۔ ایک ہی بات کا اسے دکھ رہتا ہے کہ گھر کی کوئی خیر خبر نہیں ملتی۔‘‘

’’ کیا کریں بیٹا؟ جو آنے جانے والا تھا، اسے تو تم دیکھ ہی رہے ہو۔ پہلے اسکے ساس سسر چلے جاتے تھے۔ ادھر وہ بھی موٹا گئے ہیں۔ کیا مطلب ہے انہیں اب ہم سے۔‘‘ساس سسکتی ہوئی بولی۔

’’ ارے، تو چٹھی پتری تو بھیجنی تھی؟‘‘

’’ ہمیں کیا معلوم بیٹا؟ توچٹھی پتری وہاں جاتی ہے؟‘‘

’’ ہاں ہاں، کیوں نہیں؟ مہینے میں ایک چٹھی تو ملتی ہی ہے۔‘‘

’’ تو کل ہی لکھاکر بھجواؤں گی۔‘‘

’’ ابھی رہنے دو۔ میں بھیجوا دوں گا۔ تم لوگوں کو کوئی فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ ہاں، سنا ہے کہ اس کی جورو بھی نہیں رہی۔ اسے تو کوئی خبر نہیں۔‘‘

’’ میں نے ہی منع کر دیا تھا بیٹا! دکھ کی خبر کیسے کہلواتی۔ وہاں تو کوئی سمجھانے بجھانے بھی اسے نہ ملتا۔‘‘

’’ ارے، جورو کا کیا؟‘‘ بوڑھے بولے،’’وہ چھوٹ کر تو آئے۔ یہاں تو کتنے ہی روز ناک رگڑنے آتے ہیں۔ دوبارہ ایسی بہو لا دوں گا کہ ۔۔۔‘‘

’’ نہیں کاکا، اب کے تو اس کی شادی میں کروائوںگا۔ تم بیمار آدمی ہو آرام کرو۔ میں سب کچھ کر لوں گا۔ اسے آنے تو دو۔ تمہیں کیا معلوم کہ اسے میں اپنے چھوٹے بھائی سے بھی زیادہ مانتا ہوں۔ اور کاکا، وہ بھی مجھے کم نہیں مانتا۔ ہاں، اس کی بھابھی تو اچھی ہے؟ اسے وہ بہت یاد کرتا ہے۔‘‘

دروازے کی اوٹ میں کھڑی بھابھی سب سن رہی ہے، یہ کسی کو معلوم نہ تھا۔

بوڑھی بولی،’’اس کا اب کیا اچھا اور کیا برا، بیٹا؟ کرم جب دغا دے گیا تو کیا رہ گیا اس کی زندگی میں؟ جب تک جئے گی، پڑی رہے گی۔ اس کے بھائی باپ نے بھی ادھر کوئی خبر نہ لی۔‘‘

’’ گوپی کو اسکی بہت فکر رہتی ہے۔ بیچارہ رات دن بھابھی بھابھی کی رٹ لگائے رہتا ہے۔ ان دونوں میں بہت محبت تھی کیا؟‘‘ مٹرو نے پوچھا۔

’’ ارے بیٹا، بہو ہے ہی ایسی مخلوق۔ایکدم گائے!‘‘ بوڑھے بول پڑے،’’اسی کی خدمت پر تو میرا دم اڑا ہے۔ اسکی سونی مانگ دیکھ کر میرا کلیجہ پھٹتا ہے۔ اسی عمر میں ایسی مصیبت آن پڑی بیچاری پر۔ پھر بھی بیٹا، میرے رہتے اسے کوئی دکھ نہ ہونے پائے گا۔ وہ میری بڑی بہو ہے، ایک دن گھر کی مالکن بنے گی۔ وہ دیوی ہے، دیوی!‘‘

بوڑھی دل ہی دل سب سن کر کڑھتی رہی۔ جب سہا نہ گیا، تو بولی ’’کھیکا تیار ہے۔ ابھی کھاؤ گے یا ۔۔۔‘‘

نو

ترواہی کے کسانوں میں قدرتی طور پر خود سری اوربہادری ہوتی ہے۔ کھلے ہوئے کوسوں پھیلے میدانوں، جھائوں اور سرکنڈے کے جنگلوں اور ندی سے ان کا لڑکپن میں ہی تعلق قائم ہو جاتا ہے۔ نڈر ہوکر جنگلوں میں گائے بھینس چرانے، گھاس لکڑی کاٹنے، ندی میں نہانے، کشتی چلانے، اکھاڑے میں لڑنے، بھینس کا دودھ پینے سے ہی ان کی زندگی کی ابتدا ہوتی ہے اور انہی کے درمیان گزر بھی جاتی ہے۔ فطرت کی گود میں کھیلنے، صاف ہوا میں سانس لینے،شفاف پانی پینے، دودھ دہی کی افراط اور کسرت کے شوق کی وجہ سے سبھی ہٹے کٹے، مضبوط اور مزاج کے اکھڑ ہوتے ہیں۔ وسیع جنگلوں اور میدانوں کاپھیلاؤ  انکے دل و دماغ میں بھی جیسے خودسری اور آزادی کا بے پایاں احساس بچپن میں ہی بھر دیتا ہے۔ پھر زمیندار کی بستی وہاں سے کہیں دور ہوتی ہے۔ وہاں سے وہ ان پر وہ زور زبردستی، ظلم زیادتی کی چانڑ نہیں چڑھا پاتے، جو آس پاس کے کسانوں کو غلام بنا دیتی ہے۔ بلکہ اس کے برعکس زمیندار وہاں کے اسامیوں سے دل ہی دل ڈرتے ہیں۔ ان کی طاقت، ان کے ماحول ،انکے اکھڑپن اور مر مٹنے کی خواہش کے آگے، زمیندار جانتے ہیں کہ ان کا کوئی بس نہیں چل سکتا۔ اسی وجہ سے وہ ان کے ساتھ سمجھوتے سے رہتے ہیں، کہیں وہ زیادتی بھی کر جاتے ہیں،لگان نہیں دیتے، یا آدھا پونا دیتے ہیں، تو بھی نظرانداز کر جاتے ہیں، ان سے بھڑنے کی ہمت نہیں کرتے۔ پولیس بھی براہ راست ان کے مقابلے میں کھڑے ہونے سے کنارہ کشی کرتی ہے۔ بہت ہوا، وہ بھی جب کسی زمیندار نے ضرورت سے زیادہ انکی مٹھی گرم کر دی تو پولیس نے لک چھپ کر دھوکے دہی سے ایک آدھ کو پکڑ کر اپنے وجود کا احساس کرا دیا۔ اس سے زیادہ نہیں۔

وہ جتنے خودسر، آزاد اور طاقتور ہوتے ہیں، اتنے ہی زیادہ بیوقوف بھی۔ بات بات میں لاٹھی اٹھا لینا، خون کھچّر کر دینا، ایک دوسرے سے لڑ جانا، فصلیں کاٹ لینا، کھلیانوں میں آگ لگا دینا یا کسی کو لوٹ لینا آئے دن کی باتیں ہوتی ہیں۔ دماغ لگا کر، سوچ و فکر کے بعد وہ کوئی معاملہ طے کرنا جانتے ہی نہیں! وہ سمجھتے ہیں کہ ہر مرض کی دوا لاٹھی ہے، طاقت ہے۔ جدھر آگے آگے کوئی بھاگا، سب اس کے پیچھے لگ جاتے ہیں۔ جن کے منہ سے پہلے بات نکل گئی، سب اسی کو لے اڑتے ہیں۔ کوئی دلیل، کوئی بحث ومباحثہ، کوئی بات چیت، کوئی معاہدہ سمجھوتہ، وہ جانتے ہی نہیں۔ بات پر اَڑنا اور جان دے کر اسے نباہنا وہ جانتے ہیں۔ ان کے یہاں اگر کسی بات کی قدر ہے تو وہ ہے طاقت کی، جرات کی، مر مٹنے کے احساس کی۔ انکا رہنما وہی ہو سکتا ہے، جس میں سب سے زیادہ قوت ہو، دنگل مارا ہو، محاذ پر آگے آگے لاٹھیاں چلائی ہوں، بھری ندی کو پار کر گیا ہو، گھڑیالو ںکو پچھاڑدیا ہو، کسی بڑے زمیندار سے بھڑ گیا ہو، اسے تھپڑ مار دیا ہو، یا سرِعام گالی دے کر اس کی عزت اتار دی ہو۔

ان کی سب سے بڑی کمزوری کھیت اور بیل بھینس ہیں۔ کھیتوں پر یہ جان دیتے ہیں۔ کسی بھی قیمت پر کھیت لینے کیلئے تیار رہتے ہیں۔ انکی اس کمزوری سے زمیندار اکثر فائدہ اٹھاتے ہیں، انہیں بیوقوف بناتے ہیں۔ ایک بیل یا بھینس خریدنی ہوئی تو جھنڈ بناکر، ستّو پسان باندھ کر نکلیں گے۔ مول بھاؤ کریں گے اسی اکھڑ پنے کے ساتھ۔ جو دام وہ مناسب سمجھیں گے، اس کے علاوہ کوئی اور دام مناسب ہو ہی کیسے سکتا ہے؟ وہ اَڑ جائیں گے، دھرنا دے دیں گا، دھمکائیں گے، لاٹھیاں چمکائیں گے۔ بیچنے والا مان گیا، تو ٹھیک۔ ورنہ رات برات وہ اسے کھونٹے سے کھول کر تڑی کر دیں گے اور دِیّر کے جنگل میں اسے کہیں چھپا کراپنی بہادری کا کارنامہ بیان کریں گے اورسنیں گے۔ وہاں یہ کام کسی بھی لحاظ سے برا نہیں سمجھا جاتا۔

مٹرو نے جب انہیں دِیّر کے کھیتوں کے بارے میں سمجھایا تھا، تو چونکہ یہ ایک پہلوان، بہادر، نڈر اور ’’ گنگا میا‘‘ کے بھکت کی بات تھی، وہ خاموش ہو گئے تھے۔ پھر مٹرو کے جیل چلے جانے کے بعد زمیں داروں کی دوسری باتیں ان کی سمجھ میں کیسی آتیں؟ یہاں تک کہ زمیں داروں نے انہیں لالچ دیا کہ وہ جہاں چاہیں، کھیتی کاری کریں اور کچھ نہ دیں۔ پھر بھی وہ اکڑ گئے۔ سب کی اب ایک ہی رٹ تھی کہ مٹرو پہلوان جب لوٹ کر آئے گا، وہ جیسا کہے گا ویسا ہی ہو گا۔ اس کے آنے سے پہلے کچھ نہیں۔

پوجن نے بھی چاہا تھا کہ مٹرو کاکام جاری رکھے۔ لیکن مٹرو کی طرح اس میں ہمت اور طاقت نہ تھی کہ وہ اکیلے کٹیا کھڑی کر کے ندی کے کنارے پر جنگلوں کے درمیان، زمیں داروں سے دشمنی مول لے کر رہے اور کھیتی کرے۔ اس لئے اس نے کوشش کی  کہ دس بیس کسان مزید اسکے ساتھ کنارے پر رہنے، کھیتی کرنے کے لئے تیار ہو جائیں۔ لیکن مٹرو کے نام پر بھی تیار نہ ہوئے تھے۔ جیسے ایک سیار بولتا ہے، تو سارے سیار اسی کی دھن میں بولنے لگتے ہیں، اسی طرح مٹرو کے آنے سے پہلے اس سمت میں وہ کوئی قدم اٹھانے کیلئے تیار نہ تھے۔

مجبور ہو کر، اپنا دبدبہ قائم رکھنے کیلئے تب زمیں داروں نے خودہی وہاں اپنی کھیتی کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ یہ کام کچھ کچھ شیر کے منہ میں ہاتھ ڈالنے کے ہی برابر تھا۔عام حالات میں وہ ایسا کبھی نہ کرتے۔ لیکن اب صورت ہی ایسی آن پڑی تھی کہ وہ کچھ نہ کرتے تو یہ اندیشہ تھا کہ دِیّر میں انکے دب جانے کی بات اٹھ جاتی اور کرکری ہو جاتی۔ پھر سارا کھیل چوپٹ ہو جاتا۔ سبھی کئے دھرے پر پانی پھر جاتا۔ سو، انہوں نے وہاں اپنی کٹیا کھڑی کروائی۔ اپنے آدمی اورہل بھجواکر جوتوایا،بووایا اور تنخواہ پر کچھ مضبوط آدمیوں کو حفاظت کے لئے وہاں رکھا۔ پھر بھی وہ جانتے تھے کہ جب تک ترواہی کے کسانوں سے ان کا رویہ ٹھیک نہ رہے گا، تب تک کچھ بچنا مشکل ہے۔ انہوں نے پہلے بھی کوشش کی تھی کہ کم از کم حفاظت کا ذمہ وہاں ہی کا کوئی آدمی لے لے، لیکن کوئی تیار نہیں ہوا تھا۔ اس طرح زمیں داروں کو کافی خرچ کرنا پڑا۔ یہاں تک کہ اگر فصل کٹ  کر صحیح سلامت گھر آ جائے تو بھی اس کا دام خرچ سے کم ہی ہو۔ پھر بھی انہوں نے ایسا ہی کیا۔ دبدبہ قائم رکھنا ضروری تھا۔ دبدبہ نہ رہا تو زمینداری کیسے رہ سکتی ہے؟

فصل اگی، بڑھی اور دیکھتے دیکھتے ہی چھاتی بھر کھڑی ہوکر لہرا اٹھی۔ ترواہی کے کسانوں نے دیکھا، تو ان کی چھاتیوں پر سانپ لوٹ گئے۔ انہیں ایسا لگا، جیسے کسی نے ان کے اپنے کھیت پر ہی قبضہ کر کے یہ فصل بوئی ہو، جیسے ان کے گھر سے ہی کوئی اناج کی بوریاں اٹھائے لے جا رہا ہو اور وہ مجبور ہوکر بس دیکھتے ہی جا رہے ہوں۔

ایسے موقع کا فائدہ پوجن نے اٹھایا۔ مٹرو کے ساتھ تعلق ہونے کی وجہ سے اس کا مان آخر کچھ کسانوں میں ہو ہی گیا تھا۔ اس نے چپکے چپکے کسانوں میں بات چھیڑ دی،’’باہر کے آدمی ہماری آنکھوں کے ہی سامنے ہماری گنگا میا کی زمین سے فصل کاٹ لے جائیں! ڈوب مرنے کامقام ہے! اور یاد رکھو، اگر ایک بار بھی فصل کٹ کر زمیں داروں کے گھر پہنچ گئی، تو ان کا دماغ چڑھ جائے گا! مٹرو پاہُن کے آنے میں ابھی سالوں کی دیر ہے۔ اس وقت تک یہ ساری زمین ان کے قبضے میں ہی چلی جائے گی۔ آدمی کے خون کا چسکا لگ جانے پر گھڑیال کی جو حالت ہوتی ہے، وہی زمیں داروں کی ہوگی۔ تم لوگ تب مٹرو مٹرو کی رٹ لگاتے رہو گے اور کچھ نہ ہوگا۔ ایسے موقع پر مٹرو ہی آکر کیا کر لیں گے؟ ذرا تم لوگ بھی تو سوچو۔تم اتنا تو کر سکتے ہو کہ فصل زمیں داروں کے گھر میں نہ جانے پائے۔‘‘

یہ کسانوں کے من کی بات تھی۔ پوجن کی بات ان کے من میں اتر گئی۔ بہت سے جوانوں نے پوجن کا ساتھ دینے کا عہد کیا۔ تمام تیاری ہو گئیں۔ اور جب فصل تیار ہوئی، تو ایک رات کٹ کر، کشتیوں پر لد کر پار پہنچ گئی۔رکھوالے دم دباکر بھاگ کھڑے ہوئے۔ جان دینے کی بیوقوفی وہ زمیں داروں کے لئے کیوں کرتے؟

دوسرے دن ایک شور اٹھا۔ ایک آدھ لال پگڑی بھی مکھیا کے یہاں دکھائی دی اور پھر سب کچھ شانت ہو گیا۔ کہیں سے کوئی سراغ کیسے ملتا؟ تمام کسانوں کی چھاتیاں ٹھنڈی ہوگئی تھیں۔ کہہ دیا کہ کاٹنے والے، ہو نہ ہو پار سے آئے ہوں گے۔ ندی کنارے کئی جگہ ڈانٹھ پڑے ہوئے ملے ہیں۔ رات ہی رات لاد لُودکر چمپت ہوگئے۔ ان کو تو خبر تک نہ لگی۔ لگی ہوتی تو ایک آدھ لاٹھی تو بج ہی جاتی۔

جوانوں کامن بڑھ گیا۔ جھائوں اور سرکنڈوں کے جنگلوں پر بھی انہوں نے رات برات ہاتھ صاف کرنا شروع کر دیا اور کہیں کہیں تو محض دل کی جلن شانت کرنے کیلئے آگ بھی لگا دی۔

زمیندار سنتے اور اینٹھ کر رہ جاتے۔ ایسی بے بسی سے تو ان کا کبھی پالا ہی نہ پڑا تھا۔ ایک بار پولیس کی مٹھی گرم کرنے کا جو آخری نتیجہ ہوا تھا، انہوں نے دیکھ لیا تھا۔ اب پھر اسے دوہراکر کوئی فائدہ کیسے دیکھتے؟

اب پوجن کی قدر وہاں بڑھ گئی۔ لیکن پوجن بھی اس سے زیادہ کچھ نہ کر سکا۔ زمیندار بھی خاموشی اختیار کئے ہوئے تھے۔ انہوں نے سوچا کہ چھیڑنے سے کوئی فائدہ نہیں ہونے کا۔ اگر وہ شانت رہے تو ممکن ہے کہ کسان بھی شانت ہو جائیں اور پھر پہلے ہی جیسے حالت سدھر جائے۔ ان کی جانب سے کوئی پہل نہ دیکھ کر کسان بھی لاتعلق ہوکر مٹرو کا انتظار کرنے لگے۔ وہی آئے تو آگے کچھ کیا جائے۔ یوں اس سال کے بعد وہاں کوئی قابل ذکر واقعہ نہیں پیش آیا۔

گوپی کے گھر مٹرو کا وہ وقت بڑی بے کلی سے کٹا۔ اسٹیشن پر مٹرو کی گاڑی تیسرے پہر پہنچی تھی۔ وہاں سے اس کا دِیّر دس کوس پر تھا۔ ایک پل بھی راستے میں وہ نہ کہیں رکا، نہ سستایا۔پریتوں کی طرح چلتا رہا۔ گنگا میا کی لہریں اسے اسی طرح اپنی طرف کھینچ رہی تھیں، جیسے کئی سالوں سے بچھڑے پردیسی کو اسکی محبوبہ۔ وہ بھاگم بھاگ ،جلد از جلد گنگا میا کی گود میں پہنچ جانا چاہتا تھا۔ اوہ، کتنے دن ہو گئے! وہ ہوا، وہ پانی، وہ مٹی، وہ گنگا میا ۔کاش، اس کے پنکھ ہوتے!

راستے میں ہی گوپی کاگھر پڑتا تھا۔ سوچا تھا کہ پانچ چھ منٹوں میں خیر خبر لے دے کر، وہ پھر بھاگ کھڑا ہوگا اور گھڑی دو گھڑی رات گزارتے گنگا میا کا کچھار پکڑ لے گا۔ لیکن گوپی کے گھر ایسی صورت حال سے اس کا پالا پڑ گیا کہ اسے رک جانا پڑا۔ ان دکھی لوگوں کو چھوڑکر بھاگ کھڑا ہونا کوئی آسان کام نہ تھا۔ دل رہ رہ کر دکھی ہورہا تھا، لیکن نہ رک سکنے کی بات اس کے منہ سے نہ نکلی۔ انکی مہمان نوازی کو ٹھکرا کر، ان دکھی دلوں کو چوٹ پہنچانا۔ ایسا دل مٹرو کے پاس کہاں تھا؟

کھا پی کر گوپی کی ماں اور باپ کے ساتھ رات گئے تک گفتگو چلتی رہی۔ آخر جب وہ تھک گئے، توماں سونے چلی گئی اور باپ خراٹے لینے لگے، تو مٹرو نے سونے کی کوشش کی۔ مگر نیند کہاں؟ دل و دماغ اسی دِیّر میں بھٹکنے لگے۔ وہ ندی ، وہ جنگل، وہ ہوا مٹی جیسے سب وہاں بازو پھیلائے کھڑے مٹرو کو گود میں بھر لینے کو تڑپ رہے ہیں اور مٹرو ہے کہ اتنے قریب آکر بھی سب کو بھلا ئے یہاں پڑا ہوا ہے۔ ’’ آؤ، آؤ! دوڑکر چلے آؤ بیٹا! کتنے دنوں سے ہم تم سے بچھڑکر تڑپ رہے ہیں! آئو، جلدی آکر ہمارے کلیجے سے چپک جاؤ! آؤ! آؤ!‘‘ اور اس ’’ آؤ‘‘ کی پکار اتنی تیز اور بلند ہوکر مٹرو کے کانوں میں گونج اٹھی کہ اس کا رواں رواں تڑپ اٹھا۔ وہ پریشان ہوکر اٹھ بیٹھا۔ آنکھیں پھاڑکر چاروں جانب کچھ ایسا دیکھا کہ کہیں یہ پکار پاس سے ہی تو نہیں آئی ہے، کہیں یہ جان کر کہ مٹرو پاس آکر یوں پڑا ہوا ہے، گنگا میا خود ہی تو نہیں چلی آئیں؟

مٹرو اٹھ کھڑا ہوا اور ایسے بھاگ چلا، جیسے اسے ڈر ہو کہ پھر کہیں کوئی اسے پکڑ کر نہ بیٹھا لے۔ چاروں جانب سناٹا اور اندھیرا چھایا تھا۔ کہیں کچھ سوجھ نہ رہا تھا۔ پھر بھی مٹرو کے پیروں کو یہ اچھی طرح معلوم تھا کہ اس کی گنگا میا تک پہنچنے کی سمت کون سی ہے۔ پھر ان فولادی پاؤں کے لئے راستہ بنا لینا کیا مشکل بات تھی؟

کٹے ہوئے کھیتوں سے مٹرو بری طرح بھاگا جا رہا تھا۔ ایک لمحے کی دیر بھی اب اسے برداشت نہ تھی۔ پیروں میں کنکریاں گڑ رہی ہے، کہیں کچھ دکھائی نہیں دیتا، ہو ش و حواس ٹھکانے نہیں ہیں۔ پھر بھی وہ بھاگا جا رہا ہے۔ آنکھوں کے سامنے بس گنگا میا کی دھارا چمک رہی ہے، من بس ایک ہی بات کی رٹ لگائے ہوئے ہے’’آ گیا، ماں، آ گیا!‘‘

نیند سے بھری زمین گرم گرم سانس لے رہی ہے۔ تاریکی کی سیج پر ہوا سو گئی ہے۔ گرمی سے پریشان رات جیسے رہ رہ کر جمائی لے رہی ہے۔ اُمس بھراسناٹا اونگھ رہا ہے اور روح میں ملن کی تڑپ لئے مٹرو بھاگا جا رہا ہے۔ پسینے کی دھاریں بدن سے بہہ رہی ہیں۔ بھیگی آنکھوں کے سامنے تاریکی میں گنگا میا کی لہریں بازو پھیلائے ،اسے اپنے گود میں سما لینے کو بڑھی چلی آ رہی ہیں۔ اوپر سے ستارے پلکیں جھپکاتے یہ دیکھ رہے ہیں۔ لیکن مٹرو، گنگا میا کے سوا کچھ نہیں دیکھ رہا ہے۔ اس کے کانوں میں ماں کی پکار گونج رہی ہے۔ اس کی روح جلد از جلد ماں کی گود تک پہنچ جانے کو تڑپ رہی ہے۔ وہ بھاگا جا رہا ہے، وہ بھاگاجا رہا ہے ۔۔۔

یہ دِیّر کی ہوا کی خوشبو ہے۔ یہ دِیّر کی مٹی کی خوشبو ہے۔ یہ گنگا میا کے آنچل کی خوشبو ہے۔ مٹرو کی روح جیسے سودائی ہو اٹھی۔ روئیں جیسے بے قابو ہو کراکڑ گئے۔ اس کے پیروں میں بجلی بھر گئی۔ وہ آندھی کی طرح پکارتا دوڑا،’’ماں! ماں!‘‘

لہروں کی گونج سنائی دی،’’بیٹا! بیٹا!‘‘

سمتوں نے بازگشت کی،’’بیٹا! بیٹا!‘‘

زمین پکار اٹھی،’’بیٹا! بیٹا!‘‘

Advertisements
julia rana solicitors

آسمان اور زمین جیسے کروڑوں ترستی ماؤں اور بیٹوں کی پکاروں سے گونج اٹھے، جیسے دسیوں جہتیں پکارتی ہوئی دوڑکر مٹرو کے گلے سے لپٹ گئیں۔ مٹرو ایک بھوکے بچے کی طرح لپک کر، گنگا میا کی گود میں کود پڑا۔ گنگا میا نے بیٹے کو اپنی گود میں ایسے کس لیا، جیسے اپنے تن من روح میں ہی اسے سموکر دم لے گی۔ یہ موجوں کی آوازیں نہیں تھیں، ماں کی پچکاروں اوربوسوں کی صدائیںہیں۔جہتیں جھوم رہی ہیں۔ ہوا گنگنا رہی ہے۔ مٹی کھلکھلا رہی ہے، ’’ آ گیا! ہمارا بیٹا آ گیا! ہمارا لاڈلا آ گیا!‘‘
جاری ہے

Facebook Comments

عامر صدیقی
لکھاری،ترجمہ نگار،افسانہ نگار،محقق۔۔۔ / مائکرو فکشنسٹ / مترجم/شاعر۔ پیدائش ۲۰ نومبر ۱۹۷۱ ؁ ء بمقام سکھر ، سندھ۔تعلیمی قابلیت ماسٹر، ابتدائی تعلیم سینٹ سیوئر سکھر،بعد ازاں کراچی سے حاصل کی، ادبی سفر کا آغاز ۱۹۹۲ ء ؁ میں اپنے ہی جاری کردہ رسالے سے کیا۔ ہندوپاک کے بیشتر رسائل میں تخلیقات کی اشاعت۔ آپ کا افسانوی مجموعہ اور شعری مجموعہ زیر ترتیب ہیں۔ علاوہ ازیں دیگرتراجم و مرتبہ نگارشات کی فہرست مندرجہ ذیل ہے : ۱۔ فرار (ہندی ناولٹ)۔۔۔رنجن گوسوامی ۲ ۔ ناٹ ایکیول ٹو لو(ہندی تجرباتی ناول)۔۔۔ سورج پرکاش ۳۔عباس سارنگ کی مختصرسندھی کہانیاں۔۔۔ ترجمہ: س ب کھوسو، (انتخاب و ترتیب) ۴۔کوکلا شاستر (ہندی کہانیوں کا مجموعہ ) ۔۔۔ سندیپ میل ۵۔آخری گیت اور دیگر افسانے۔۔۔ نینا پال۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۶ ۔ دیوی نانگرانی کی منتخب غزلیں۔۔۔( انتخاب/ اسکرپٹ کی تبدیلی) ۷۔ لالٹین(ہندی ناولٹ)۔۔۔ رام پرکاش اننت ۸۔دوڑ (ہندی ناولٹ)۔۔۔ ممتا کالیا ۹۔ دوجی میرا (ہندی کہانیوں کا مجموعہ ) ۔۔۔ سندیپ میل ۱۰ ۔سترہ رانڈے روڈ (ہندی ناول)۔۔۔ رویندر کالیا ۱۱۔ پچاس کی دہائی کی بہترین ہندی کہانیاں(۱۹۵۰ء تا ۱۹۶۰ء) ۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۱۲۔ ساٹھ کی دہائی کی بہترین ہندی کہانیاں(۱۹۶۰ء تا ۱۹۷۰ء) ۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۱۳۔ موہن راکیش کی بہترین کہانیاں (انتخاب و ترجمہ) ۱۴۔ دس سندھی کہانیاں۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۱۵۔ قصہ کوتاہ(ہندی ناول)۔۔۔اشوک اسفل ۱۶۔ ہند کہانی ۔۔۔۔جلد ایک ۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۱۷۔ ہند کہانی ۔۔۔۔جلد دوم۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۱۸۔ ہند کہانی ۔۔۔۔جلد سوم ۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۱۹۔ہند کہانی ۔۔۔۔جلد چہارم ۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۲۰۔ گنگا میا (ہندی ناول)۔۔۔ بھیرو پرساد گپتا ۲۱۔ پہچان (ہندی ناول)۔۔۔ انور سہیل ۲۲۔ سورج کا ساتواں گھوڑا(مختصرہندی ناول)۔۔۔ دھرم ویر بھارتی ۳۲ ۔بہترین سندھی کہانیاں۔۔۔ حصہ اول۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۲۴۔بہترین سندھی کہانیاں ۔۔۔ حصہ دوم۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۲۵۔سب رنگ۔۔۔۔ حصہ اول۔۔۔۔(مختلف زبانوں کی منتخب کہانیاں) ۲۶۔ سب رنگ۔۔۔۔ حصہ دوم۔۔۔۔(مختلف زبانوں کی منتخب کہانیاں) ۲۷۔ سب رنگ۔۔۔۔ حصہ سوم۔۔۔۔(مختلف زبانوں کی منتخب کہانیاں) ۲۸۔ دیس بیرانا(ہندی ناول)۔۔۔ سورج پرکاش ۲۹۔انورسہیل کی منتخب کہانیاں۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۳۰۔ تقسیم کہانی۔۔۔۔حصہ اول۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۱۔سورج پرکاش کی کہانیاں۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۲۔ذکیہ زبیری کی بہترین کہانیاں(انتخاب و ترجمہ) ۳۳۔سوشانت سپریہ کی کہانیاں۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۴۔منتخب پنجابی کہانیاں ۔۔۔۔حصہ اول۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۵۔منتخب پنجابی کہانیاں ۔۔۔۔حصہ دوم۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۶۔ سوال ابھی باقی ہے (کہانی مجموعہ)۔۔۔راکیش بھرامر ۳۷۔شوکت حسین شورو کی سندھی کہانیاں۔حصہ اول۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۸۔شوکت حسین شورو کی سندھی کہانیاں۔حصہ دوم۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۹۔شوکت حسین شورو کی سندھی کہانیاں۔حصہ سوم۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) تقسیم کہانی۔ حصہ دوم(زیرترتیب ) گناہوں کا دیوتا(زیرترتیب ) منتخب پنجابی کہانیاں حصہ سوم(زیرترتیب ) منتخب سندھی کہانیاں حصہ سوم(زیرترتیب ) کبیر کی کہانیاں(زیرترتیب )

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply