• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • پاکستانی شہری کا کھتارسس/ کوٹھے کا کاروبار اور صحافتی بیوپار ۔۔اعظم معراج

پاکستانی شہری کا کھتارسس/ کوٹھے کا کاروبار اور صحافتی بیوپار ۔۔اعظم معراج

پاکستانی میڈیا مادر پدر آزاد ہے۔خصوصا ً اپنے اپنے مفادات سے پُر ایجنڈوں پر مثلاً  اگر کسی کا صحافتی آزادی  کا نعرہ اسے فائدہ دیتا ہے،تو اگر ایسی کوئی خبر انکے ہاتھ آجائے اس میں پھر چاہے ریاست بدنام ہو ملک کے مفادات کے خلاف ہو، دشمنوں کو اسکا فائدہ لیکن وہ خبر چل کر رہے گی اور وہ میڈیا گروپ اس خبر کو بڑھا چڑھا کر پیش کرے گا۔ اور اپنے بین الاقوامی آقاؤں سے مفادات و شہرت  بھی سمیٹے گا۔لیکن جہاں اس ملک کے تقریباً  اسی لاکھ کیڑے مکوڑوں سے کسی ظلم و  بربریت کا ذکر ہو،تو ایسے گروپ ریاستی اداروں کو بیوقوف بنانے کے لئے مثبت رپورٹنگ کرتے ہیں۔اس کی ہزاروں مثالیں   ہیں۔لیکن بے حسی پیشہ ورانہ بددیانتی کی تازہ مثال جیو گروپ کی ہے۔ ان دنوں سرگودھا میٹروپولیٹن نے گٹروں کی صفائی شروع کی ہوئی ہے۔اسی سلسلے میں تین اکتوبر کو سرگودھا میٹروپولیٹن نے چھٹی والے دن اپنے تین سینٹری ورکرز کو رات دس بجے غلاظت سے بھرے گٹروں میں بغیرحفاظتی انتظامات کے اترنے پر مجبور کیا، جس کے نتیجے میں دو افراد  ذلت بھری زندگی کی بازی ہار گئے،تیسرا ذلت بھری زندگی اور نسلوں کے لئے تہمت بھری موت کی جنگ لڑ رہا ہے۔

ریسکیو ٹیم سرگودھا تیس فٹ گہری گٹر لائن سے یہ لاشیں نکالنے میں ناکام ہوکر واپس چلی گئی، تب سرگودھا کےمسیحیوں  نے دوبجے یہ لاشیں گٹروں سے نکال کر سڑک پر رکھیں ۔سوشل میڈیا پر کہرام مچ گیا۔صبح میڈیا پر جزوی طور پر بلیک آؤٹ رہا۔ صبح جیو نیوز نے خبر دی سرگودھا میں نالے میں گر کر دو شخص ہلاک ورثاء کا لاشیں سڑک پر رکھ کر احتجاج ۔۔اس سے بہتر ننگی مثبت رپورٹنگ میں نے نہیں دیکھی لیکن ظاہر ہے۔نہ یہ مسکین اتنے طاقتور ہیں کہ کسی نیوز گروپ کے دفتر میں توڑ پھوڑ کر سکیں،نہ یہ کسی کو معاشی نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ لہٰذا  انکے سر پر مثبت رپورٹنگ کے ثمرات ہی سمیٹے جائیں گے۔لیکن ریاستی اداروں کو سوچنا چاہیے یہ والی مثبت رپورٹنگ بھی ایسے کاریگروں کے مفاد میں ہے۔

میڈیا کی چشمِ پوشی اور اڑتیس اقلیتی ممبران کی عدم دلچسپی وعدم دستیابی کی بناء پر ہی سرگودھا پولیس نے تین سو دو (302) قتل عمد کے نہیں بلکہ تین سو بائیس 322 قتل بالسبب کی دففات کے پرچے بجائے میٹروپولیٹن کارپوریشن چیف عبدل خالق گاڑھا جس نے اپنے ہرکاروں کو یہ حکم دیا ہوا تھا کہ بجائے دن کی روشنی میں یہ قتل عمد کروانے کے ،رات کی تاریکی میں یہ گھناؤنی واردات کیا کرو۔ اور اسکے انسپکٹر و  سپروائزر اسکے حکم پر یہ واردات کر رہے تھے۔لیکن آفرین ہے۔سرگودھا کی بیوروکریسی کہ جن کے مطابق جبراً  کسی کو غلیظ ترین گٹر میں ڈبو کر مارنا قتل عمد نہیں ہوتا ۔بلکہ  یہ قتل بالسبب ہے۔یہ قطعاً  ہی تین سو بائیس 322 کا قتل بالسبب نہیں ۔ یہ قتل عمد تھا اور اس فلاحی ریاست کے صدر وزیراعظم اور ان دونوں کی نمائندہ فرح مسعود کمشنر سرگودھا بھی   اس کا جواب روز محشرِ دیں گی ۔جسکی عمل داری میں چیف ایگزیکٹو یہ گھناؤنا درندگی کا کھیل کھیل رہا تھا ۔ مثبت رپورٹنگ والے میڈیا کے کاریگر ذمہ دار بھی اس جرم میں شریکِ ہیں کیونکہ اگر میڈیا نے اس اور ایسے ماضی کے سانحات پر توجہ دی ہوتی،تو اس بار پھر یہ قتل عمد نہ ہوتا ۔اور اگر عبدل خالق گاڑھا جیسا کوئی ذہنی مریض قتل کی ایسی گھناؤنی واردات کا حکم دیتا تو تین سو دو قتل عمد میں پھانسی تو ضرور چڑھتا۔اور ایسی سزاؤں سے پچھلے پچھتر سالوں سے چلتا یہ انسانی تاریخ کا” غلیظ ترین طریقہ قتل عمد ” بند ہو جاتا ،ایسے ظلم زیادتی پر کمزور کچھ  نہیں کرسکتے ،کیونکہ
لسّے دا کیہہ  زور محمد
نس جانا یا رونا
ترجمہ (کمزور کے بس میں کیا ہوتاہےِ؟ بھاگ جانا یا رونا)
از میاں محمد بخش (رح)
لہٰذا کمزوروں کے ایسے المناک   سانحات سے چشم پوشی ایسے کمزوروں کو بھاگنے پر مجبور کرتی ہے۔اورپھر وہ دور دیسوں میں جاکر روتے ہیں،تو ایسے میں ان کاریگروں کے ہی آلہ کار بنتے ہیں۔لہذا ایسی مثبت رپورٹنگ ریاست کے نہیں ایسے کاریگروں کے مفاد میں ہوتی ہے۔

جب سے یہ سانحہ سرگودھا پر جیو کی مثبت رپورٹنگ دیکھی ہے۔مجھے نوے کی دہائی کا ایک واقعہ  یاد آرہا ہے۔ہمارے ایک اسٹیٹ ایجنٹ راہنما  جو بائیں بازو کے نظریات رکھنے والے ایک سیاسی دانشور بھی تھے، نذد الحسین مرحوم ہمارے دفتر آئے۔میری ٹیبل پر دو اخبار پڑے تھے ایک پر بڑی سرخی میں کسی طاقتور گروپ کو دہشتگرد لکھا گیا تھا ۔لیکن مثبت رپورٹنگ والے اس گروپ کےاخبار میں ایسی کسی خبر کا ذکر تک نہ تھا جس کی وجہ سے اس اخبار نے وہ سرخی لگائی تھی۔ انھوں نے اس اخبار  کو چوما اور میں نے ازراہ ِ مذاق پوچھا حسنین بھائی اس اخبار کے بارے میں کیا خیال ہے۔انھوں برجستگی اور تلخی سے کہا کوٹھے اور صحافت کے کاروبار میں فرق ہونا چاہیے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تعارف:اعظم معراج کا تعلق رئیل اسٹیٹ کے شعبے سے ہے۔ وہ ایک فکری تحریک تحریک شناخت کے بانی رضا  کار اور 18کتب کے مصنف ہیں۔جن میں “پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار”،دھرتی جائے کیوں پرائے”پاکستان کے مسیحی معمار”شان سبزو سفید”“کئی خط اک متن” اور “شناخت نامہ”نمایاں ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply