کارپوریٹ کلچر اور چرسی لجپال۔۔نعمان خان

صاحبو!

صاحبو کہہ کر بات آغاز کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم اجنبی ہیں۔
لہذا دلچسپی ، اعتنائی کچھ بھی برتی جا سکتی ہے۔ میں راستے سے گزر رہا ہوں   اور آپ سامنے سے آرہے ہیں۔ آپ کو میں  نظر انداز  بھی کر سکتا ہوں۔ آپ کی جیب  یا آپ کو مار سکتا ہوں ، مسکرا کر سلامتی بھیج سکتا ہوں ، اور آپ بھی ایسا کر سکتے ہیں۔ میں اپنے لیے چاہتا ہوں کہ   راستہ خالی  ہو،  کوئی اجنبی نہ ملے ، اب چار و ناچار آپ آ رہے ہیں تو بہتر یہی ہے کہ میں اب  نظر انداز  کر کے کسی حد تک آپ کے نہ ہونے کو  محسوس کروں  ۔

اصل میں کبھی کبھی کچھ نہ کرنے سے بڑا مرحلہ طے ہو جاتا ہے ، کچھ نہ کرنے سے بہت کچھ ہو جاتا ہے۔ اچھا  ۔۔ سچا  قصہ سُنیے ۔
کارپوریٹ کلچر میں کام کرتا ایک شخص روز سویرے کی طرح سوٹ بوٹ پہن کر نکلا۔گلی سے گزرتے سمے کچھ نظروں نے  مکینک کی ورکشاپ پہ کام کرتے کسی بچے نے ، کسی مزدور نے ، کیسی ستائشی نظروں سے دیکھا ہوگا ، حسرت کہ کتنا اچھا کام ہے ۔ جب کہ شاید اس سوٹڈ بوٹڈ کو مزدور سے زیادہ ہتک اٹھانی پڑتی ہے شاید اس مزدور سے زیادہ تھکنا پڑتا ہے اس سے زیادہ مجبور ہونا پڑتا ہے۔ سفید پوشی کا بھرم رکھنے کو شاید زیادہ محنت کرنی پڑتی ہو۔

اچھا تو یہ دوکان سے کچھ خریداری کرتے وقت واپسی پہ ایک ہزار کا نقلی نوٹ اصلی کی مد میں لے آیا۔  بل جمع کروانے کے لیے لائن میں لگا تو بینک والے نے ایک نوٹ سوراخ دار کر کے واپس کیا۔  اس نے سوچا جس دوکان والے نے دیے ہیں ، اس کو واپس کروں ، دوسرا خیال یہ آیا کہ اگر یہ نوٹ کسی نوسر باز کے ہاتھ لگ گیا یا یہ نوٹ کسی مزدور کو جس کے گھر میں کچھ نہیں ہے کہ دن کی اجرت میں ملا ، تو جانے اس کا کتنا خون   پسینہ  ضائع ہوا ، اس کی کتنی ضرورتوں کی آنکھیں  اس کو چیریں گی۔ ممکن ہے اس کے بیٹے بیٹی کی زندگی کی پہلی خوشی چھن جائے ، اس ایک ہزار سے کیا ممکن نہیں ہو سکتا تھا۔ صرف اصل اور نقل کے چھوٹے سے فرق سے۔

کسی ایک لمحے کا فیصلہ بہت تباہی لا سکتا ہے ، وہ فیصلہ اس شخص کا  ، میرا یا آپ کا بھی ہو سکتا ہے۔ نوٹ جیب میں ڈالتے ہوئے اس شخص نے سوچا کیلے کا چھلکا اٹھانے کے لیے بلدیہ کے محکمے کو بلانے کی ضرورت نہیں  ۔ میں خود اٹھا دیتا ہوں۔
ایسے ہی زندگی کے کسی لمحے میں زندگی کی کایا پلٹ جاتی ہے۔  وہ ہزار کا نقلی نوٹ جیب میں رکھ کر اس ہزار کا نقصان گننے لگا۔

دن بھر ان سوچوں میں گم ہوا ، واپسی پہ خالی جیب کے ساتھ ، شہر سے گھر جانے کے لیے گاڑی کا انتظار میں کھڑا تھا،ایک رکشہ والا اس کے  پاس آ کر پوچھنے لگا ، کیوں اس وقت کدھر کھڑے ہو۔۔ اس نے کہا کہ گھر جانا ہے ، وہ کہنے لگا چلو میں چھوڑ آتا ہوں۔
رکشے میں سوار ہوئے تو رکشے والے نے پیچھے مڑ کر کہا۔ ۔ سگریٹ کھولو، منزل مقصود پر پہنچ کے محفوظ مقام پہ مشترکہ سگریٹ کے کش لگائیں  گے ۔ واپسی پہ رکشے والے نے کہا کہ ہم نے ایک دربار پہ پہلے بھی مشترکہ سگریٹ پیا تھا، تمہیں دیکھا تو  پہچان لیا اور چھوڑنے آ گیا۔۔ مجھے لگا کہ تمہارے پاس پیسے نہیں ۔

میں سوچنے لگا کہ یہ لوگ کتنے لجپال ہوتے ہیں۔

اس وقت آپ کے راستے میں زندگی ہے۔ اس کو اگنور کیجیے ، مسکرا کر ملیے یا اس کی پاکٹ مار دیجیے ۔
مرضی آپ کی ہے۔۔۔۔

میری ایک نظم بھی دیکھ لیجیے

“ستارہ ساز”

ستارہ ساز
نا آسودگی کا بوجھ یا آسودگی کا زعم ،
اک ردِ عمل ہے
اور کچھ بھی تو نہیں
کچھ بھی نہیں

میں خاک زادہ کشتۂ تنہائی
راتوں کو اکیلا گھومتا ہوں اور دن کو رات کے ٹوٹے
ستارے کھوجتا ہوں

میں آئینے کو خالص آدمی کا جانی دشمن کہتا آیا ہوں

Advertisements
julia rana solicitors

مرے لکھے ہوئے اکثر ڈرامے سولو ہوتے ہیں
مرے شعروں میں اکثر خود کلامی ہوتی ہے،
میں نے زمانہ ہو گیا ہے اپنا سایہ تک نہیں دیکھا
ستارہ ساز ،
تجھ کو دیکھتا ہوں
زندگی پر جتنا غصہ ہو ، ہوا ہو جاتا ہے ،
تنہائی مجھ کو زہر لگتی ہے!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply