کرک میں جرمن صحافی۔۔اے وسیم خٹک

مضمون کا عنوان دیکھ کر آپ سب چونک گئے ہوں گے کہ یہ اس مضمون میں کیا ہے ،کیونکہ ایک طرف ضلع کرک جو کہ صوبہ خیبر پختونخوا کا دورافتادہ ضلع ہے ،جہاں گیس ، تیل ،یورینیم سمیت دیگر قدرتی وسائل کی فراوانی ہے مگر وہ الگ بات کہ ابھی تک پسماندہ ہے اور ترقی نہیں پاسکا حالانکہ ہونا تویہ  چاہیے تھا کہ سالانہ اربوں روپے دینے والا ضلع اب تک جرمنی یا پیرس کا منظر پیش کرتا مگر یہ ہونہ سکا۔۔ہاں لیکن یہ  علاقہ بارشوں میں اٹلی کا وینس  ضرور  بن جاتا ہے ۔

دوسری طرف عنوان میں جرمن لکھا گیا ہے اور پھر صحافی بھی آخر میں موجود ہے ،تو یہ سارا چکر کیا ہے۔ ۔ تو  جھنجھلاہٹ کو بالائے طاق رکھ کر ہم بتا ہی دیتے ہیں کہ ضلع کرک کے صحافتی  میدان میں ایک جرمن  شخص بھی جھنڈے گاڑ رہا ہے۔۔جو جانثار پاکستان ہے ۔ کیونکہ وطن سے محبت اُس میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے اس لئے تو جان نثار پاکستان اخبار کے لوگو کو دیکھ کر پہلی نظر میں بندہ دھوکہ کھا جاتا ہے کہ لوگو میں مارخور ہے مگر یہ مارخور نہیں ہے، یہ کرک کے صحافتی میدان میں ابھرتے ہوئے نوجوان مارکیٹئیر اور صحافی شکیل جرمن کے ذہن کی کارستانی ہے ۔

اب میرے خیال میں کنفیوژن ختم ہوچکی ہوگی ۔۔کہ آج کا یہ آرٹیکل نوجوان صحافی شکیل جرمن کے حوالے سے ہے ۔ جس سے میرا غائبانہ تعارف تھا ۔ سوشل میڈیا پر نجانے کتنے لوگ ملے اور غائب ہوگئے مگر کچھ لوگ ملے تو وہ دور ہونے کا نام ہی نہیں لیتے ۔ وہ اُبھر کر پھر سامنے آجاتے ہیں اور اپنی موجودگی کا بھرپور احساس دلاتے ہیں  ۔ ایسے لوگوں میں یہ شخصیت بھی شامل ہے جس کو شکیل جرمن کہتے ہیں ، کیونکہ ہم صحافی رہ چکے ہیں اور اب بھی بحیثیت صحافی ہی خود  کو متعارف کرواتے  ہیں تو ہمیں روزانہ شکیل کے پینترے نظر آتے ہیں ۔

پہلے تو یہ پینترے، جرمن، صحافت اور مارکیٹنگ کی باتیں ہماری سمجھ سے باہر تھیں ۔ بہت سوچا کہ انویسٹی گیٹ کیا جائے مگر موقع ہی نہیں مل رہا تھا۔ البتہ مضروضے ذہن میں بنے تھے کہ موصوف کی شاید پیدائش جرمنی میں ہو ئی ہو۔ یا جرمنی جانے کے لئے اپنے نام کے ساتھ جرمن لکھتے ہیں ، یا شاید کسی جرمن دوشیزہ کے عشق میں سارے سمندر پار کر چکے ہوں اور آخری راستہ یہی بچا ہو کہ نام کے ساتھ جرمن لگا لیں ۔ یا پھر کہیں  کسی خٹک الہڑ دوشیزہ کو متاثر کرنے کے لئے شکیل جرمن صاحب نے اپنے نام کے ساتھ جرمن کا سابقہ لگا دیا ہو۔ خیر جو ں جوں سوچتا مزید مفروضے بنتے جاتے ۔ لیکن حقیقت تب  آشکارا ہوئی جب شکیل جرمن صاحب سے بہ نفس نفیس ملاقات ہوئی جب ایک دفعہ پھر ہمارے دل کے نہاں خانوں  میں  ایک آواز گونجی کہ بہت سے ممالک دیکھ لئے اور تین پاسپورٹ بھی ایکسپائر ہوگئے ۔ اب دوبارہ اعلیٰ  تعلیم کے لئے ملک کو چھوڑنے کی کوشش کی جائے ۔ جب دیکھا تو پاسپورٹ کرونا سے پہلے ہی ایکسپائر ہوچکا تھا۔ لہذا کرک جانا لازم  ہو گیا تھا اور ذہن میں شکیل جرمن کا نام آیا تو انہیں فون  کرلیا۔ ۔

اب پاسپورٹ آفس میں کام مکمل ہونے کے بات سے شکیل سے سوال کیا کہ بھئی یہ نام کیساتھ جرمن لگانے کا کیا مقصد ہے؟۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تو بتانے لگا کہ ہم  کوہاٹ یونیورسٹی میں مارکیٹنگ پڑھتے تھے تو خٹک دوستوں کا کسی سے  جھگڑا  ہوا ۔ ہم نے وہ مسئلہ چٹکیوں میں حل کرڈالا ۔پھر ایک دوسرا مسئلہ بنا تو وہ بھی ہم نے حل کردیا تو دوستوں نے مجھے کہہ دیا کہ تم تو جرمنی کے ہٹلر کی طرح فیصلے کرتے ہو۔ اور یوں تب سے یعنی 2010سے شکیل کے ساتھ جرمن کا سابقہ لگ گیا ۔اور اُسی یونیورسٹی سے صحافت کی ڈگری حاصل کی جس کا نام بھی شکیل جرمن نے مشہور شاعر اور خٹک قوم کے جد امجد کے نام پر خوشحال خان خٹک رکھاتھا اور اسے یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ اسی یونیورسٹی سے وہ ڈگری بھی حاصل کرے گااور اُس شعبہ سے ڈگری لے گا جس کی بنیاد میں نے رکھی تھی ، اس کے ساتھ ہی ہم نے کرک جرمن صحافی کی کہانی کی اصلیت معلوم کرلی ۔

Facebook Comments

اے ۔وسیم خٹک
پشاور کا صحافی، میڈیا ٹیچر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply