خون آشام بَلائیں ۔۔ڈاکٹر مختیار ملغانی

فطرت میں ہر چیز نہ صرف اعتدال پسند ہے بلکہ اعتدال اور توازن کی طرف گامزن ہے، فضا کے دباؤ میں ردوبدل آئے تو ہوا میں کمی بیشی سے اسے اعتدال میں لایا جاتا ہے، ماحول کے درجۂ حرارت کے اتار چڑھاؤ سے انسانی جسم اپنی گرمی کے حفظ و خلاصی کی مدد سے خود کو اسی کے مطابق ڈھالتا ہے تاکہ بقاء کیلئے ضامن توازن برقرار رہے، یہ قانونِ توازن ہر جگہ موجود ہے، ہم اس عظیم سہولت بلکہ نعمت کے اس قدر عادی ہو چکے ہیں کہ کبھی یہ سوچنے کی زحمت نہیں کرتے کہ قانونِ توازن آخر کیوں اس قدر پائیدار اور لازم ہے ؟ یہ اور بات کہ اس سوال کا جواب شاید ہی کوئی دے سکے، اور ویسے بھی قوانین کسی کے سامنے جواب دہ نہیں بس وہ حقائق آشکار کرتے ہیں، فطرت کے تمام قوانین درحقیقت اسی ایک قانونِ اکبر، یعنی قانونِ توازن کے تابع ہیں ، باقی تمام کی حیثیت ثانوی ہے۔
لیکن انسانی جسم میں موجود انرجی اور اس کے بہاؤ میں جو توازن ہے اس کے اعتدال کیلئے فرد کو کوشش کرنی پڑتی ہے وگرنہ انرجی کے توازن کو قائم رکھنا ممکن نہیں رہتا اور اس کی سب سے بڑی بلکہ شاید واحد وجہ آپ کی انرجی چوسنے والے وہ افراد ہیں جو آپ کے اردگرد موجود ہیں۔
ہم تمام لوگ انرجی یعنی توانائی کے سمندر میں موجود ہیں، اسے آپ کائناتی انرجی کہہ سکتے ہیں، لیکن اس توانائی کا حصول اتنا آسان نہیں، اس کیلئے آپ کو انرجی جذب کرنے والے اپنے چینلز کو وسعت دینا پڑتی ہے، اور وسعت کی یہ تمام مشقیں بڑی کٹھن ہیں، ویسے بھی یہ انرجی کائنات میں خام مال کی صورت موجود ہے اور اس خام مال سے جوہرِ اصلی کو کشید کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں، لہذا اس کا سب سے آسان اور مؤثر طریقہ یہی ہے کہ دوسرے انسانوں کے جسم میں پہلے سے موجود تیار اور مصفی انرجی کو چوس لیا جائے، اپنی مخصوص فریکوئینسی کی وجہ سے یہ انرجی آسانی سے جذب کی جا سکتی ہے بس انرجی چوسنے والے کو خود کو اسی فریکوئنسی پر لانا ہوتا ہے، ایسے افراد کو آپ چاہیں تو ویمپائرز کا نام دے سکتے ہیں، دوسرے الفاظ میں خون آشام بَلائیں۔
جن ویمپائرز کی بابت ہم ہڑھتے، سنتے یا فلموں میں دیکھتے آئے ہیں وہ درحقیقت ایک افسانوی یا اساطیری کردار ہے، اور اس کی خوراک، انسانی خون، خالصتاً مادی ہے ، لیکن توانائی چوسنے والے ویمپائرز جو ہمارے درمیان موجود ہیں، یہ حقیقی ہیں اگرچہ ان کی خوراک غیر مادی یعنی ہماری انرجی ہے۔ شاید خون نچوڑنے والے محاورے سے مراد یہی انرجی کا نچوڑنا ہے۔
انسانوں کی دو قسمیں ہیں جس کا مشاہدہ ہر کوئی بآسانی کر سکتا ہے، ایک وہ جو انرجی دیتے ہیں، ڈونرز، اور دوسرے وہ جو دوسروں کی انرجی چوستے ہیں، شائستہ زبان میں انرجی چوسنے والوں کیلئے ڈونر کے متضاد، ریسیور، کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے، لیکن ایسوں کیلئے اصل لفظ، ویمپائر، ہی ہے۔
ایسے خون آشام افراد خود کو شکار کی فریکوئنسی کے مطابق ڈھالتے ہیں اور شکار کی توانائی جذب کرنا شروع کر دیتے ہیں، دلچسپ بات یہ ہے کہ ایسے ویمپائرز یہ سب کچھ لاشعوری طور پر کر رہے ہوتے ہیں، انہیں خود بھی ادراک نہیں ہوتا کہ وہ اپنے بےہودہ رویوں کی وجہ سے سامنے والے کو نچوڑ رہے ہیں، وہ قصداً ایسا نہیں کرتے بلکہ ان کے اندر موجود یہ خون آشام فطرت ان سے یہ سب کچھ کرواتی ہے، اس کا ظہور بہت دلچسپ طریقے سے ہوتا ہے، ویمپائر بڑی احتیاط کے ساتھ اپنے شکار کی طرف بڑھتا ہے، چہرے پر بناوٹی مسکراہٹ اور دوستانہ نگاہ اس کے دو بڑے ہتھیار ہیں، بظاہر آپ کے ساتھ دکھ درر بانٹنا چاہتا ہے اور گرمجوشی کے ساتھ سلام دعا کے بعد اپنا جال پھیلاتا ہے، آپ کی نگاہ میں نگاہ ڈالے گا، آپ کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں تھامے رکھے گا اور پھر اچانک غیر ضروری مشورے دینا شروع کر دے گا، یہ سمجھے بِنا کہ آپ کی دلچسپی کے کیا مراکز ہیں، وہ اپنی رائے مسلط کرتا جائے گا کہ یوں کر لو تو بہتر ہے، یہ کر لو تو بہت فائدے میں رہو گے، اپنی رائے کو تقویت دینے کیلئے محلے کے چند لونڈوں کی مثالیں بھی دے گا جو جنابِ والا کے مشوروں پر عمل کرتے ہوئے کامیابی کی بلند ترین چوٹی پر تشریف فرما ہیں، یہ شخص آپ کی فطرت اور مزاج کے مطابق خود کو ڈھال لے گا، مختصر یہ کہ وہ آپ کے اندر جھانکتے ہوئے نوالۂ تر کا بغور جائزہ لینا شروع کر دے گا۔ ویمپائر کی اس قِسم کو آپ سادہ زبان میں ناصح کا نام دے سکتے ہیں، یہ اتنے زیادہ خطرناک نہیں ہوتے لیکن آپ کی توانائی کے ردھم میں ہلچل پیدا کرتے ہوئے خود کسی انجانی خوشی سے سرشار اور آپ کی انرجی سے سیر ہوکر اپنی راہ لیتے ہیں۔
ویمپائرز کی دوسری قسم کو عیار کہا جا سکتا ہے، ہیرا پھیری اور دھوکہ دہی ان کا خاصہ ہے، یہ چالاک ہونے کے ساتھ ساتھ دوسروں پر اپنا کنٹرول بھی چاہتے ہیں، یہ نسبتاً زیادہ خطرناک ہیں، ایسی خون آشام بَلائیں فرد کے احساسِ ندامت اور حسِ خود الزامی جیسی دکھتی رگوں کو چھیڑتے ہوئے اپنا مقصد پورا کرتی ہیں، یہ ویمپائرز لاشعوری طور پر ایسے شکار کو ڈھونڈنے میں ماہر ہوتے ہیں جو مشکل حالات سے دوچار ہو اور کسی دوستانہ کندھے کی تلاش میں ہو، اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ خود الزامی کا شکار فرد بھی لاشعوری طور پر کسی ایسے ہی “مہربان” کی راہ دیکھ رہا ہوتا ہے جو اس کے حالات کو سمجھتے ہوئے تسلّی کے ساتھ ساتھ اس کے ضمیر کی عدالت سے اسے ، ناٹ گِلٹی ، کا سرٹیفیکیٹ دِلوا دے ۔ ایسے میں ویمپائر اور ڈونر، دونوں کسی پتلی گلی میں مل کر ایک دوسرے سے اپنا اپنا مقصد حاصل کرلیتے ہیں۔ ویمپائر آسانی سے خود کو شکار کے مطابق ڈھال لیتا ہے، یہاں تکنیک بڑی سادہ ہے، بس شکار کی اسی دکھتی رگ کو ہلکا سا چھیڑنا ہے جس کی وجہ سے شکار بے حال ہے، اس کے بعد شکار پوری دیانتداری سے اپنے مسائل کھولنا شروع کر دیتا ہے اور اپنے جسم میں موجود انرجی کے کوزے ویمپائر کے جسم میں انڈیلتا جاتا ہے۔
ویمپائرز کی تیسری قسم بہت بدتمیز اور جارح ہے، یہ اشتعال انگیز اور فتنہ گر ہوتے ہیں، بغیر کچھ سوچے سمجھے سیدھا اپنے شکار پر ایسے حملہ کرتے ہیں کہ آپ اپنا توازن کھو سکتے ہیں، ایسے لوگ اپنے طریقۂ واردات میں ہر ہتھیار کو جائز سمجھتے ہیں، مذاق اڑانے سے لے کر نفسیاتی دباؤ تک، ہر حربہ ان کے نزدیک پسندیدہ ہے، بس ہر حال میں مقصد کی تکمیل ہو، آپ کا توازن لڑکھڑائے اور آپ کی انرجی وہ جذب کر سکیں، ان بلاؤں کا یہ رویہ بھی عموما لاشعوری ہوتا ہے، دورانِ زندگی یہ بات وہ اچھی طرح جان چکے ہوتے ہیں کہ کونسے حالات و معاملات ان کو زیادہ انرجی دیتے ہیں، دوسروں کے ساتھ کس طرح پیش آتے ہوئے وہ ہشاش بشاش رہ سکتے ہیں، ان مشقوں سے گزرتے ہوئے وہ خود کو ایسی نہج پر لے آتے ہیں کہ بدتمیزی اور جارح پن ان کی فطرتِ ثانیہ بن جاتے ہیں اور انہیں احساس تک نہیں ہوتا۔ آپ سے گلے ملنے کے بعد وہ سیدھا آپ کی تنخواہ پوچھیں گے، ساتھ ساتھ یہ احساس بھی دلائیں گے اتنی تعلیم اور اتنی ڈگریوں کا کیا فائدہ ، آپ سے زیادہ تو فلاں شخص کما رہا ہے، شرم و حیا کو ایک طرف رکھتے ہوئے فرمائیں گے کہ، میاں تم بندے تو اچھے ہو لیکن والدین کی خدمت جیسے ثواب سے محروم ہی رہے، ایسے کسی بھی فرد کے ساتھ ملاقات کے بعد اگر آپ خود کو نڈھال محسوس کرتے ہیں، خوف، کپکپاہٹ، مایوسی یا اضطراب آپ کی طبیعت میں عود کر آتے ہیں تو حیرانی کی کوئی بات نہیں کیونکہ اس خون آشام بَلا نے آپ کے جسم سے پوری انرجی نچوڑ لی ہوتی ہے۔
فرد کے جسم میں توانائی کسی دریا کی مانند بہہ رہی ہے، کسی بھی صورت میں اگر اس دریا کا بند کہیں سے ٹوٹ جائے اور توانائی اس دھارے سے باہر نکلنا شروع ہوجائے تو توانائی کے یہ ویمپائرز اور جانور توازن کے اس بگاڑ کو محسوس کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور آپ کا بھرپور استحصال کرتے ہیں، آپ نے کبھی مشاہدہ کیا کہ آٹھ افراد کسی گلی سے گزرتے ہیں اور نالی کے قریب بیٹھا آوارہ کُتا انہیں آنکھ تک اٹھا کر نہیں دیکھتا، لیکن جونہی آپ قریب سے گزرتے ہیں وہ آپ پہ بھونکنا شروع کر دیتا ہے، بھیک مانگنے والا بھیک نہ ملنے پر دوسروں کے پاس سے نظر جھکائے گزر جاتا ہے مگر آپ کے بھیک نہ دینے پر وہ بھکاری آپ کی شان میں کوئی چست جملہ کَس دیتا ہے، یہ سب کچھ آپ کے ساتھ اس لیے ہو رہا ہے کہ آپ کی انرجی کے دریاؤں کے بند کہیں سے ٹوٹے ہوئے ہیں اور انرجی کے شکاری ایسے موقعوں سے فائدہ اٹھانے میں ذرا بھی شرم محسوس نہیں کرتے، اس کیلئے ضروری ہے کہ طبیعت میں کچھ ڈھٹائی لائی جائے، غیر ضروری حسیاسیت اور غیر اضافی ہمدردی کے جذبات سے جان چھڑائی جائے، دوسروں کی طرف سے فضول مطالبات پر خود میں انکار کرنے کی جسارت پیدا کی جائے، خود سے محبت انرجی کی نکاسی کے سامنے بہت مضبوط بند ہے، آج یہ جو نظریۂ انفرادیت دنیا میں جڑ پکڑتا جا رہا ہے اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ فرد انرجی کے ان ویمپائرز سے کنارہ کشی کا خواہشمند ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply