چہلمِ امامؑ اور عقائدِ امامؑ۔۔نذر حافی

سارا جھگڑا ہی عقائد کا ہے۔ میں اکثر یہ سوچ کر چونک جاتا ہوں کہ کتنے اعلیٰ و ارفع ہیں وہ عقائد کہ جن کو بچانے کیلئے امام حسینؑ قربان ہوگئے۔ ہم یوں تو بڑے اللہ والے ہیں، ہر بات پر ما شاء اللہ، سبحان اللہ، الحمدللہ، اللہ اکبر کہنے اور ہر کام سے پہلے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھنے پر بہت زور دیتے ہیں۔ یہ سب ہونا چاہیئے، اس سے انکار نہیں، لیکن اللہ کے اسم اور بسم اللہ کو سمجھنا بھی تو ضروری ہے۔ امام حسینؑ نے روزِ عاشور اپنے پہلے خطبے میں شمر کے بارے میں کہا تھا کہ “فَقَالَ لَهُ شِمْرُ بْنُ ذِي الْجَوْشَنِ هُوَ يَعْبُدُ اللَّهَ عَلى‏ حَرْفٍ إِنْ كَانَ يَدْرِي مَا تَقَوَّلَ” شمر اللہ کی عبادت یہ سمجھے بغیر کرتا ہے کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ صرف اللہ کی عبادت اور ذکر کافی نہیں ہے بلکہ یہ جاننا اور سمجھنا ضروری ہے کہ میں کیا کہہ رہا ہوں۔ دشتِ بلا میں کتابِ کربلا کے ہر صفحے پر حسینؑ ابنِ علیؑ اپنے خون سے  ہمارے لئے یہ پیغام  لکھ کر گئے ہیں کہ بسم اللہ کا مطلب یہ ہے کہ انسان ہر کام ایسے کرے کہ اُس کے کام کی بدولت صرف اللہ کا نام باقی رہ جائے۔ یعنی انسان اپنے قول و فعل سے، اپنے دل و دماغ سے، اپنے اطراف و کنار سے، اپنے قلب و جوارح سے سوائے اللہ کے نام کے ہر نام کا کتبہ اور ہر نام کی تختی ہٹا دے اور مٹا دے۔

دشتِ بلا میں حسینؑ ابن علیؑ نے بسم اللہ کو بچانے کیلئے، یعنی اللہ کے نام کی تختی اور کتبے کو باقی رکھنے کیلئے اپنی ذات، اپنے نام، اپنی آل و اولاد، اپنے عزیز و اقارب، اپنا مال و متاع اور عزت و شرف سب کچھ اپنے ہاتھوں سے مٹا دیا اور قربان کر دیا۔ یہ ہے بسم اللہ کا مطلب، یہ ہے ما شاء اللہ، سبحان اللہ، الحمدللہ، اللہ اکبر کہنے  کا حقیقی مفہوم، یہ ہے خدا پرستی کی حقیقت، یہ ہے توحید کا خالص ہونا، یہ ہے  فنا فی اللہ ہونا، یہ ہے دین کی روح، یہ ہے اسلام کا راستہ، یہ ہے ولایت کا جادہ، یہ ہے عرفان کی معراج اور یہ ہے تصوف کا  عروج۔ اگر مجھے اللہ کے نام کے بجائے میرا یا میری برادری، قوم، قبیلے، پارٹی، فرقے اور گروہ کا نام عزیز ہے تو پھر میں بسم اللہ کو سمجھا ہی نہیں۔ یہاں پہنچ کر میں یہ سوچتا ہوں کہ ہم تو آج تک بسم اللہ پر عمل نہیں کرسکے، باقی قرآن مجید کو سمجھنا اور اس پر عمل کرنا تو دور کی بات ہے۔

تمام الِہیٰ ادیان کی اساس اور بنیاد اللہ کی یکتا ذات پر ہے۔ اللہ کی یکتا ذات پر ایمان کو عقیدہ توحید کہتے ہیں، تمام انبیا ؑو مرسلینؑ توحید کی تبلیغ کیلئے بھیجے گئے اور دینِ اسلام کی شہرت اور شناخت ہی عقیدہ توحید ہے۔ توحید کی مختصر ترین تعریف یہ کی جا سکتی ہے کہ مخلوق کی صفات سے خالق کی ذات کو مبرّیٰ اور منزّہ سمجھنا۔ یعنی اللہ اپنی ذات اور صفات میں ہر جہت سے لاشریک ہے۔ کوئی فرشتہ، جِن و انس، نبی یا امام اس کی ذات یا صفات میں ہرگز شریک نہیں ہے۔ کتابِ خدا کا واضح اعلان ہے کہ لَیْسَ کَمِثْلِهِ شَیْءٌ کوئی بھی خدا کی مانند نہیں ہے۔ سورہ شوریٰ کی اس گیارہویں آیت کو بالاتفاق محکمات قرآن میں سے شمار کیا جاتا ہے۔ محکماتِ قرآن میں شمار کرنے کا مطلب یہ ہے کہ جب بھی خدا کی ذات یا کسی صفت کا ذکر ہوگا تو فوراً یہ کہا جائے گا کہ اس کی ذات اور  صفات کے اعتبار سے لَیْسَ کَمِثْلِهِ شَیْءٌ کوئی بھی اس کی مثل نہیں ہے، یعنی خدا کی ذات اور صفات کو ہمیشہ اس آیت کی طرف ارجاع دیا جائے گا۔

اسی طرح  سورہ توحید میں بیان ہوا ہے کہ خدا یکتا ہے، صمد ہے، اس نے کسی سے نہ جنم لیا اور نہ کسی کو جنم دیا ہے اور کوئی اس کا ہمسر و ہم پلّہ نہیں ہے۔ جس طرح قرآن نے خدا کی مانند کسی کو نہیں مانا، اسی طرح متعدد مقامات پر لا شَريكَ لَه کہہ کر یہ بھی بتایا ہے کہ اُس کا شریک بھی کوئی نہیں ہے۔ پس نہ خدا کی مانند کوئی ہے اور نہ ہی اس کا شریک کوئی ہے۔ احادیث میں بھی یہ تاکید کی گئی  ہے کہ فَکُلُّ مَا فِی الْخَلْقِ لَا یُوجَدُ فِی خَالِقِهِ وَ کُلُّ مَا یُمْکِنُ فِیهِ یَمْتَنِعُ مِنْ صَانِعِه “مخلوق کی کوئی بھی صفت خالق میں نہیں پائی جاتی اور ہر وہ شئے جو مخلوق کیلئے ممکن ہے، وہ خالق کیلئے ممتنع ہے۔” اسی مفہوم کو امام رضاؑ نے یوں بیان کیا ہے کہ مَنْ شَبَّهَ اللَّهَ بِخَلْقِهِ فَهُوَ مُشْرِک “جس نے اللہ کو مخلوق سے تشبیہ دی وہ مشرک ہے۔” حضرت امام حسین ؑ نے دعائے عرفہ میں بار بار لا اِلهَ اِلاّ اَنْتَ سُبْحانَکَ کو دہرایا ہے۔ سبحان جو کہ خدا کے ناموں میں سے ایک نام  ہے، اس نام کی تکرار بے شمار دعاوں میں کی گئی ہے اور اس کا مطلب خدا کو مخلوق کی صفات سے منزّہ اور پاک سمجھنا ہے۔

قرآن مجید کے مطابق سبحان ہی اللہ تعالیٰ کا وہ نام ہے، جس سے حضرت یونس ؑ نے تاریکی میں خدا کو  پکارا تھا۔ “فَنَادَیٰ فِی الظُّلُمَاتِ أَنْ لَا إِلَٰهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَکَ إِنِّی کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِینَ” اور امام حسینؑ نے بھی اسی اسم کے ساتھ خداوندِ عالم کو دعائے عرفہ میں بار بار پکارا ہے، دعائے عرفہ سے ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیے: “لا اِلهَ اِلاّ اَنْتَ سُبْحانَکَ اِنّی کُنْتُ مِنَ الْمُسْتَغْفِرینَ، لا اِلهَ اِلاّ اَنْتَ سُبْحانَکَ اِنّی کُنْتُ مِنَ الْمُوَحِّدینَ، لا اِلهَ اِلاّ اَنْتَ سُبْحانَکَ اِنّی کُنْتُ مِنَ الْخاَّئِفینَ، لا اِلهَ اِلاّ اَنتَ سبحانکَ اِنی کنتُ منَ الْوَجلینَ، لا اِلهَ اِلاّ اَنْتَ سُبْحانَکَ اِنّی کُنْتُ مِنَ الرَّاجینَ، لا اِلهَ اِلاّ اَنْتَ سُبْحانَکَ اِنّی کُنْتُ مِنَ الرّاغِبینَ، لا اِلهَ اِلاّ اَنْتَ سُبْحانَکَ اِنّی کُنْتُ مِنَ الْمُهَلِّلینَ، لا اِلهَ اِلاّ اَنتَ سبحانکَ اِنی کنتُ من الساَّئِلینَ، لا اِلهَ اِلاّ اَنْتَ سُبْحانَکَ اِنّی کُنْتُ مِنَ الْمُسَبِّحینَ، لا اِلهَ اِلاّ اَنْتَ سُبْحانَکَ اِنّی کُنْتُ مِنَ الْمُکَبِّرینَ، لا اِلهَ اِلاّ اَنْتَ سُبْحانَکَ رَبّی وَ رَبُّ اباَّئِیَ الاَْوَّلینَ۔”

Advertisements
julia rana solicitors london

داستانِ کربلا کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت امام حسین ؑ نے اپنا سب کچھ قربان کرکے توحید کو بچایا تھا۔ جب توحید بچ گئی تو اس کے ضمن میں نبوّت، امامت، قیامت یہ سب عقائد بھی بچ گئے۔ یہی وجہ ہے کہ جب امام سجادؑ سے کسی طنز کرنے والے نے کہا کہ اب بتایئے کہ فاتح کون ہے؟ تو امام ؑ نے فوراً برجستہ جواب دیا: إِذَا أَرَدْتَ أَنْ تَعْلَمَ مَنْ غَلَبَ، وَ دَخَلَ وَقْتُ الصَّلَاةِ، فَأَذِّنْ ثُمَّ أَقِم “اگر جاننا چاہتے ہو کہ کون غالب آیا تو نماز کا وقت ہونے دو، پھر اذان اور اقامت کہنا۔” یہ تو ہم جانتے ہی ہیں کہ اذان و اقامت میں اسلامی عقائد کو ہی تو دہرایا جاتا ہے۔ یعنی جب اذان ہوتی ہے تو دراصل اسلامی عقائد کی زندگی کا اعلان کیا جاتا ہے۔ آج ہمیں بھی ضرورت ہے کہ ہم چہلمِ امام ؑ کے روز امام ؑکی قبرِ مطہر کی طرف چلتے ہوئے اور آپ کی عزاداری کے جلوسوں میں حضرت امام حسینؑ سے خدا کی معرفت اور توحید سیکھیں۔ کربلا کا عملی درس یہی ہے کہ اگر ہم نے عقیدہِ توحید کو بچا لیا تو ہمارے سارے عقائد بچ جائیں گے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply