تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو۔۔ارشد غزالی

تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو۔۔ارشد غزالی/کسی بھی خبر کے سنسنی خیز پہلو پر زور دے کر اصل خبر کو مسخ کرنے کو زرد صحافت کہا جاتا ہے۔ انیسویں صدی کے آخر میں نیویارک کے اخبارات کے رپورٹر اپنے اخبار کی اشاعت بڑھانے کے لئے سنسنی خیزی اور ہیجان انگیز رپورٹنگ کیا کرتے تھے اسی دور میں “یلو کڈ” کے نام سے امریکی اخبارات میں شائع ہونے والے کامک سیریل سے یہ اصطلاح  ماخوذ  کی گئی۔ آج زرد صحافت صرف سنسنی خیزی اور ہیجان انگیزی تک محدود نہیں بلکہ منظم پروپیگنڈے, جھوٹی خبروں, مخصوص ایجنڈوں کی تکمیل اور ذہن سازی تک پھیل چکی ہے۔ بے ضمیر, چرب زبان اور منافق قسم کے صحافی پیسے, مراعات اور دیگر فوائد کے حصول کے لئے برائے فروخت کا ٹھپہ خود پر لگائے سر بازار صدائیں لگاتے نظر آتے ہیں۔

ہمارا ملک اس معاملے میں فیاضی کی حد تک خود کفیل ہے یہاں ٹی وی فریج کی دکان چلانے والوں سے لے کر ڈاکٹروں تک سب صحافت کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے آئے کوئی تجزیہ نگار بن گیا کوئی نام نہاد صحافی اور کوئی پروگرام ہوسٹ۔ ان نام نہاد صحافیوں کی اکثریت صحافت کے بنیادی اصولوں سے بھی ناواقف ہے ۔ یہ صحافی “دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ, تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو “کے مصداق یہ صحافی غیر جانب داری سے حقائق عوام کے سامنے پیش کرنے کے بجائے مختلف فوائد کے حصول, لفافے اور ٹوکروں کے عوض اور کبھی کبھی صرف ہٹ دھرمی میں اپنی اپنی من پسند سیاسی جماعتوں کے ایجنڈے کو ڈھٹائی سے عوام الناس کے سامنے پیش کر کے رائے عامہ ہموار کرتے نظر آتے ہیں۔

ہمارےکچھ مہربانوں کا شکوہ ہوتا ہے کہ پاکستان میں صحافی قلم کا جہاد کرتے ہیں اور ان پر غیر ضروری تنقید کی جاتی ہے ان کی خوشی کے لئے فرض کیے  لیتے ہیں کہ وطن عزیز کے سارے صحافی غیر جانب دار صحافت کے علم بردار, آزاد اور حاجی ہیں ان کے دل کی تسلی کے لئے مثال لینے کے لئےہم پڑوسی ملک فرض کر لیتے ہیں جہاں صحافت کے انمول رتنوں میں سر فہرست پیناڈول کی گولیاں کھا کر شرٹ کے اوپر سے پٹی بندھوانے والے صاحب ہیں جو حکومت مخالف اور فوج مخالف ہر بات کا فائدہ کسی نا  کسی صورت اپنی  من پسند  جماعت کو پہنچنے کی پیشنگوئیاں کرتے نظر آتے ہیں یہ الگ بات ہے کہ سو میں سے نوّے باتیں غلط ثابت ہونے کی وجہ سے عوام اب ان کی بے سروپا باتوں پر کان نہیں دھرتی۔ ایک اور نابغہ روزگار صحافی جنہیں ایک وفاقی وزیر نے “تحفے” کا لقب عنایت کیا یہ موصوف ہر روز پیالی میں طوفان اٹھاتے حکومت جانے کی ڈیڈ لائنیں دیتے نظر آتے ہیں، تو کبھی کسی نا  کسی کے آنے جانے کے اعلانات کرتے نظر آتے ہیں ،نیز ہر معاملے کا منفی پہلو اجاگر کرنے اور بات بات پر وزراء کو اپنی بات غلط ہونے کی صورت میں صحافت چھوڑنے یا انھیں وزارت چھوڑنے کا چیلنج دینے والے ان صاحب کے چیلنجز کو بھی اب کوئی سیریس نہیں لیتا۔

چیلنج ہی کے معاملے میں “میرے کپتان” اور حکومت کی مخالفت میں مشہور ایک اور صحافی صاحب اپنی خبروں کے غلط ہونے کی صورت میں صحافت چھوڑ دینے کے دعوے کرتے رہتے ہیں مگر “چھٹتی نہیں ہے منہ کو یہ کافر لگی ہوئی” کے مصداق صحافت چھوڑنا تو دور بعد میں معذرت کرنا بھی گوارا نہیں کرتے۔ ایسے ہی ایک “کمپوڈر” صاحب بھی ہیں جن کو ہر تھوڑی دیر بعد اتنی زور سے  آئی ہوتی ہے کہ وہ برداشت نہیں کرپاتے اور ٹویٹر پر ٹویٹ دیتے ہیں یہ صاحب بھی کبھی اعدادو شمار اور کبھی ماضی کی حکومتوں کا ملبہ موجودہ حکومت پر ڈال کر پہلے دھمکیاں دیتے ہیں اور بعد  میں استعفے دے کر گھر چلے جانے کی منتیں کرتے نظر آتے ہیں۔ پچھلے دنوں ایک اور ٹوکرے لینے والے صاحب کی “ترنگ” میں ایک گلوکارہ کو کافی قریب جا کر داد و تحسین پیش کرنے کی وڈیو شیئر کر کے انھیں معطون کیا جاتا رہا کہ شاید صاحب نشے میں تھے جب کہ واقفانِ  حال کا کہنا ہے کہ صاحب صرف انگور کے رس کے شوقین ہیں کبھی کبھی مصروفیات کے باعث رکھے رکھے رس میں خمیر اجاتا ہے جسے ضائع کرنا بہرحال عقلمندی نہیں۔

ان کےعلاوہ بھی کچھ صحافت کے “چوہدری” خواہشات کو خبر بنانے اور ہر معاملے کا خاص طور پر منفی پہلو اجاگر کرنے میں پیش پیش نظر آتے ہیں۔ اس صحافتی منڈی میں مرد تو مرد عورتیں بھی کسی سے کم نہیں ایسی ہی ایک موصوفہ صحافت میں موجود ہیں جنہیں یار لوگ سرکاری حاجن کے لقب سے یاد کرتے ہیں ایک اور محترمہ تو ڈکٹیشن لینے کے لئے اس حد تک چلی جاتی ہیں کہ لائیو پروگرام میں موبائل پر انے والے میسجز دیکھ کر سوالات طے کرتی ہیں۔ کہاں تک سنو گے کہاں تک سنائیں یہاں تو ایک طویل لسٹ ہے جہاں ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے اب ایسے گلستاں کا انجام تو سب کے سامنے ہی ہے۔

صحیح  غلط سے قطع نظر غیر جانب دار صحافت اور صرف حقائق پیش کرنے کے بجائے یہ سارے صحافی حکومت یا فوج مخالف اور مخصوص سیاسی جماعتوں کا بیانیہ عوام میں پروموٹ کرتے ہیں جب کہ دوسری طرف شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار صحافیوں کی فوج ظفر موج ہے جن میں سر فہرست “گیلے تیتر” والے صاحب ہیں ایک “صبر شکر” کرنے والے صحافی ہیں ایک صاحب “کشف” صحافی ہیں ایک بادام والے “معصوم” صحافی ہیں ایک انتہائی  “شریف” ہیں اور ان کے علاوہ بھی کئی نام ہیں جو حکومت کی نلائقی اور نااہلی چھوڑ کر خوردبین لگا کر حکومت کے ایسے ایسے کارنامے اور مثبت پہلو تلاش کر کے عوام کے سامنے پیش کرتے ہیں کہ خود حکومت تک کو ان کا علم نہیں ہوتا۔

عوام بیچاری مین اسٹریم میڈیا کے کرتوت ہی  سنبھال نہیں پاتی تھی کہ کچھ  عرصے سے سوشل میڈیائی صحافی بھی وجود میں آگئے  جو نیوز ویب سائٹس کو “خالہ جی کا ویہڑا” سمجھ کر پھدکتے نظر آتے ہیں۔ پچھلے دنوں ویب سائٹ پر ایک صاحب کی تحریر نظر سے گزری جو ادارتی پالیسی کے برعکس بجائے متعلقہ موضوع پر تنقید کرتے ان کا سارا زور ایک سینئر صحافی کی ذاتیات پر کیچڑ اچھالنے حتی کہ اس کے اسٹائل, گھڑی اور وقت دیکھنے تک کو موضوع میں شامل کرنا رہا۔ ان ویب سائٹس پر کوئی فیس بکی صحافی فوج پر تنقید کرتا نظر آتا ہے کوئی اپنی من پسند سیاسی پارٹیوں کی قصیدہ گوئی کرتا حتی کہ ان دنوں کچھ ایڈیٹر نما مخلوق مری کے سانحے پر حکومت کو غیرت بھی دلاتی نظر آئی کہ ایسے حادثات پر متعلقہ لوگوں سمیت “وڈے سائیں” کو استعفی دینا چاہیے، مگر انھوں نے ماضی کی حکومتوں میں رونما ہونے والے لاہور کے قتل عام سے ٹرین حادثوں تک حتی کہ ماضی میں طوفان وغیرہ کے واقعات میں ہلاکتوں پر کبھی صدائے حق بلند نہیں کی اور الٹا ان حکومتوں کی برائیوں کو بھی خوبیاں ثابت کرنے میں پیش پیش رہے اور اج بھی اپنا فرض بخوبی نبھا رہے ہیں۔

مری کا واقعہ زرد صحافت کی تازہ مثال ہے جس میں برف باری میں پھنس جانے والی گاڑیوں کے سائلنسر برف میں دھنس جانے کی وجہ سے گاڑیوں میں قاتل کاربن مونو اکسائیڈ جمع ہوئی اور اس نے کئی ہنستی بستی زندگیوں کو نگل لیا۔ اس واقعے میں سراسر صوبائی اور مقامی انتظامیہ کی کوتاہی تھی مگر اس کے ساتھ ہوٹل مافیا, مقامی لوگوں کی بے حسی اور بلیک میلنگ کے ساتھ ساتھ عوام میں معلومات کی کمی بھی ایک بڑی وجہ تھی جو یہ نہیں جانتے تھے کہ گاڑی میں ایگزاسٹ ناں ہونے کی وجہ سے اگر انجن اور ہیٹر ان رہے تو گاڑی گیس چیمبر بن جاتی ہے۔

اس معاملے کے کئی پہلو تھے کئی ایسے واقعات رپورٹ ہوئے جن میں پولیس اور انتظامیہ کے منع کرنے پر لوگ ہاتھا پائی تک اتر ائے حتی کہ مقامی لوگوں کی مدد سے گاڑی کو چیک پوسٹوں سے گزروایا گیا کیونکہ مقامیوں کو اجازت ہوتی ہے آگے جانے کی۔ ایسے ہی ہوٹل والوں نے کمروں کے کرائے تیس سے پچاس ہزار کر دیے، ہیٹر کے ایک گھنٹے کے تین تین ہزار چارج کئے گئے انڈا اور چائے کا کپ پانچ پانچ سو اور روٹی ہزار روپے تک بکتی رہی پیٹرول تین تین ہزار روپے لیٹر بکا اور لوگ مجبور ہوئے واپسی کے لئے انتہا یہ ہوئی کہ سیاحوں نے رکنے کے لئے اپنی خواتین کے زیورات تک رکھوا کر ادائیگی کی، دوسری طرف انتظامیہ کی شدید ترین نااہلی تھی کہ خراب موسم کا علم ہونے کے باوجود نہ  تو وہاں پہلے سے ہیوی مشینری پہنچائی گئی اور نہ  ہی برف باری کے دوران کسی قسم کی امدادی کاروائی کی گئی جب کہ محکمہ موسمیات و دیگر اداروں کی طرف سے کئی دن پیشتر الرٹس جاری کرنے کے باوجود عوام نے کان نہیں دھرے۔

سونے پر سہاگہ صوبے کے “وڈے سائیں” ریسکیو آپریشن ختم ہونے کے بعد ہوا میں جھولے کھانے نکل کھڑے ہوئے اور بجائے کسی ٹھوس اقدام کے کمیٹی کے اعلان اور مزید ایک ڈی سی وہاں مسلط کرنے اور دو تھانے بنانے کی پلاننگ کر کے عوام کے زخموں پر اور نمک چھڑک دیا گیا دوسری طرف مرکزی اور صوبائی حکومتی ترجمان اس واقعے کے ذمہ دار عوام کو ٹھراتے اور بے تکی وضاحتیں دیتے نظر آئے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس  سانحے میں لنڈے کے صحافیوں نے درست رپورٹنگ کرنے اور غیر جانبداری سے دیگر تمام پہلو اور حقائق بھی عوام تک پہنچانے کے بجائے سارا ملبہ صرف حکومت پر ڈال کر ایک طوفان بدتمیزی مچا دیا۔ حکومت اور انتظامیہ کو مورد الزام ٹھرانا اگرچہ کافی حد تک درست بھی تھا مگر اتنا ہی اہم ہوٹل اور ریسٹورینٹ مافیا, مقامی عوام کی بے حسی اور بلیک میلنگ, عوام کا اداروں کےالرٹس نظر انداز کرنا اور عوام میں معلومات کی کمی جیسے بینادی فیکٹرز کو لوگوں کے سامنے لانا بھی تھا مگر سب سنسنی خیزی پھیلانے, حکومت اور انتظامیہ کو لعن طعن کرنے میں مصروف نظر آئے جب کہ کچھ “دانش وڑ” وہاں موجود فوجی عمارات کی تصاویر شئیر کر کے اپنا بغض نکالتے رہے یہ جانتے ہوئے کہ فوج ایک چین آف کمانڈ کے تحت چلتی ہے حالانکہ اس واقعے میں بھی ناشتے اور ریسکیو کے لئے سب سے پہلے پہنچنے والے فوجی اہلکار ہی تھے مگر یہی ہمارا پاکستان ہے جس میں دوہرے معیار اور زرد صحافت ہماری پہچان۔

Facebook Comments

ارشد غزالی
Columinst @ArshadGOfficial

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply