گئے دنوں کی یادیں (2)۔۔مرزا مدثر نواز

تختی، قلم اور دوات کے ساتھ سلیٹ کا تعارف بھی ضروری ہے، سلیٹ لوہے کی بنی ہوئی کالے رنگ کی ایک چھوٹی شیٹ ہوتی ہے جس پر ایک خاص قسم کے سفید پتھر (جو سلیٹی کہلاتا ہے) سے لکھا جاتا تھا۔ سلیٹ آج بھی آپ کو مرغی کے گوشت کی اکثر دکانوں پر ریٹ آویزاں کرنے کے لیے لٹکی نظر آئے گی، سکول یا گھر پر خاص طور پر میتھمیٹکس جسے ہم ریاضی ہی کہتے تھے کی پریکٹس کرنے کے لیے استعمال ہوتی تھی۔ اس کے دونوں طرف سوالات حل کر کے دوبارہ استعمال کے لیے صاف کر لیا جاتا تھا، صاف کرنے کے لیے کہنی، ہاتھ، کپڑے کا ٹکڑا، فوم کا مختلف رنگوں کا ٹکڑا عام طور پر استعمال کیا جاتا تھا، اگر پانی نہ ہو جو کہ اکثر نہیں ہوتا تھاتو پھر لعاب دہن کے ساتھ ہی اس کی صفائی کو یقینی بنایا جاتا تھا۔ بچوں کے بیگ عام طور پر گھر پر ہی تیار کر لیے جاتے تھے یا پھر کچھ لوگ بازار سے بھی خریدتے تھے۔ ابتداء میں کاربن پنسل کے بعد تیسری جماعت میں لکھنے کے لیے روشنائی والے پین کا استعمال کیا جاتا تھا، ہیڈنگ یا سوال لکھنے کے لیے کالی یا نیلی مارکر کا استعمال کیا جاتا اور جواب کے لیے پین کا۔ بال پوائنٹ جو ان دنوں پیانو کمپنی کی پیلے رنگ والی ہی ملتی تھی جس کے ساتھ ٹک ٹک نہیں کیا جا سکتا تھا کے استعمال کو خاص طور پر منع کیا جاتا تھا کہ اس سے ہینڈ رائٹنگ پر برے اثرات پڑتے ہیں۔ پین ایگل کے ہوتے تھے یا پھر ڈالر کمپنی کے، سنہری ڈھکن والے خوبصورت شکل کے ہیرو یا ولز کمپنی کے پین دستیاب ہوتے تھے جو تھوڑے مہنگے تھے۔ پین کا اگلا حصہ جو کہ نب کہلاتا تھا، اسے کچھ عرصہ بعد تبدیل کرنا پڑتا تھا، پین کی صفائی گرم پانی سے کی جاتی تھی۔ سکول میں گلابی صفحات والی نوٹ بک پر کام لکھا جاتا تھا جو کہ اچھے اوراق کی نسبت سستی ہوتی تھی۔

ضرار کا پرائمری سکول وسیع صحن، دو روم اور ایک برآمدے پر مشتمل تھا، فرنیچر میں دو الماریاں، چند کرسیاں اور دو بڑے میز تھے، چھت کچے اور لکڑی کے شہتیروں اور بالوں سے بنے ہوئے تھے جہاں پر چمگادڑوں کی قیام گاہیں تھیں۔ جب کبھی ابر کرم کا نزول ہوتا تو پہلی سے تیسری جماعت تک چھٹی دے دی جاتی تھی جبکہ باقی دو کلاسوں کو برآمدے اور روم میں جگہ دی جاتی تھی۔ سکول کے ہمسائیوں کی دیواروں پر سیمنٹ سے مستقل طور پربنے بلیک بورڈ ہوتے تھے، اس کے علاوہ سٹینڈ والے پورٹیبل بلیک بورڈ بھی موجود تھے، سٹینڈ تین ٹانگوں پر مشتمل ہوتا تھا جس کی ایک ٹانگ کو آگے پیچھے کر کے اپنی مرضی کے مطابق پوزیشن میں ڈھالا جاتا تھا۔ اساتذہ بلیک بورڈ پر چاک کی مدد سے سکول کا کام سمجھایا کرتے تھے، جب چاک ایک مخصوص لمبائی تک چھوٹا ہو جاتا تو اسے پھینک دیا جاتا یا پاؤں کے نیچے مسل دیا جاتا، چھوٹے سائز کے چاک کو بچے اٹھا کر اپنے پاس رکھ لیتے اور پھر اس سے دیواروں پر مختلف ڈرائنگ بنایا کرتے تھے یا پھر کسی ناراض ہم جماعت کے نام کے ساتھ غیر اخلاقی لاحقے لگا کر گاؤں کی دیواروں پر لکھ دیا جاتا۔ چاک کے ڈبے سکول کی مقفل الماری میں پڑے ہوتے تھے جنہیں چرانا ایک ناقابل معافی جرم تصور کیا جاتا تھا۔ بورڈ پر اپنے لکھے ہوئے کو مٹانا استاد کی شان کے خلاف سمجھا جاتا تھا، اس کے علاوہ طالبعلم بھی اس کی اجازت نہیں دیتے تھے۔استاد کا نامزد کردہ یا پھر اپنی مرضی سے کوئی ایک صافی اپنے ہاتھ میں پکڑ لیتا اور جونہی اشارہ پاتا تو فوراََ اٹھ کر بلیک بورڈ کو صاف کر دیتا۔ چھٹی سے پہلے دو لڑکے بورڈ کو، ایک سٹینڈ، صافی، چاک کو اٹھاتا اور کمرے میں مختص جگہ پر رکھ آتے اور اگلی صبح وہاں سے اٹھا کر کلاس کے سامنے دوبارہ یہ چیزیں رکھ دی جاتیں۔

سکول میں کوئی چوکیدار نہیں تھا، کسی ایک سینئر لڑکے کے پاس سکول کی چابیاں ہوتی تھیں جو سب سے پہلے آ کر مین گیٹ کھولتا تھا اور چھٹی کے بعد سب سے آخر میں تالا لگا کر جاتا تھا، مین گیٹ کھلے یا نہ کھلے، بچے اکثر دیواروں کو پھلانگ کر ہی سکول میں داخل ہوتے تھے۔ سکول کے مقررہ وقت سے پہلے طالبعلم اپنے بیگ (ان دنوں بستہ کہا جاتا تھا) اٹھائے، بوری یا ٹاٹ لیے سکول پہنچنا شروع ہو جاتے تھے۔ جن بچوں کی باری ہوتی تھی وہ اپنی اوپن کلاس کے مقام پر جھاڑو دیتے تھے اور پھر پانی کا چھڑکاؤ کرتے تھے تا کہ مٹی بیٹھ جائے اور دھول نہ اٹھے، اس کے بعد اپنی اپنی پسندیدہ جگہ پر بوری یا ٹاٹ بچھا کر بیٹھ جاتے تھے، آدھے حصہ پر بیگ ہوتا تھا اور آدھے پر خود، اکثر ایک بوری پر دو دو بچے بیٹھے ہوتے تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

مرِزا مدثر نواز
ٹیلی کام انجینئر- ایم ایس سی ٹیلی کمیونیکیشن انجنیئرنگ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply