پنجاب میں لبرل لیفٹ کی سیاست ۔۔عامر حسینی

ٹوئٹر سپیسس پہ اسٹوڈنٹس کلیکٹو کی طرف سے طلباء یونین کی بحالی کے موضوع پہ ایک مذاکرہ ہورہا ہے اور اس مذاکرے میں شریک لاہور سے تعلق رکھنے والی سپریم کورٹ کی ایک خاتون وکیل کہنے لگیں
“میں نے سُنا ہے شاید سندھ اسمبلی میں اسٹوڈنٹس یونین کی بحالی کا ایک بل لایا جارہا ہے۔۔” مطلب سپریم کورٹ کی وکیل ہو، پروگریسیو اسٹوڈنٹس کلیکٹو لاہور کی سرگرم حمایتی ہو اور اسے یہ بھی نہیں معلوم کہ سندھ حکومت اور کابینہ نے بل کی منظوری دے دی ہے اور بل اسمبلی کے اجلاس میں پیش ہونے والا ہے – اور اس بل میں نہ صرف سرکاری تعلیمی اداروں بلکہ نجی تعلیمی اداروں میں بھی طلباء یونین کے قیام کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔

اس مذاکرے کے جو میزبان تھے وہ مین سٹریم سیاسی جماعتوں کے طلباء ونگز کو سرے سے کوئی اہمیت دینے کو تیار نہیں تھے وہ علی اعلان ان ونگز سے علیحدگی اختیار کرنے کا مطالبہ کرتے نظر آئے اور یہ بھی دعویٰ کرتے نظر آئے کہ مین سٹریم سیاسی جماعتیں ساری کی ساری طلباء میں سے سیاسی لیڈر شپ لانے سے خوفزدہ ہیں اس لیے طلباء یونین بحال کرنے میں سنجیدہ نہیں ہیں ۔یہ شعور ہے ایک ترقی پسند طلباء تنطیم کے نمائندے ہونے کے دعوے دار کا کہ اُسے تاریخ کا بھی ٹھیک سے پتا نہیں ہے۔ جنرل ضیاء الحق کی لگائی طلباء یونین پہ پابندی پی پی پی نے 1988ء میں برسراقتدار آکر ہٹالی تھی اور تمام صوبوں میں تعلیمی اداروں میں طلبسء یونین کے انتخابات ہوئے تھے – جب پی پی پی کی حکومت گئی تو اسٹبلشمنٹ کے بنائے اتحاد آئی جے آئی نے پھر طلباء یونین پہ پابندی عائد کردی – اور اس کے بعد تعلیمی اداروں میں اسقدر خون ریزی کرائی گئی کہ پھر طلباء یونین کے انتخابات کا کسی نے نام نہیں لیا۔

عجیب بات ہے جو جرم اسٹبلشمنٹ کا بنتا ہے اُسے بھی جمہوری قوتوں کے سرمنڈھ دیا جاتا ہے ۔ یہ ہے اربن چیٹرنگ کلاس کے نوجوان طالب علموں کے سیکشن کے ترقی پسند طلباء رہنماؤں کا – مجھے امید تھی کہ کم از کم عمار جان سندھ حکومت کی جانب سے طلباء یونین کے بل کی منظوری پہ پی پی پی اور اُس کی حکومت کے لیے خیرمقدمی بیان دیں گے لیکن انہوں نے بھی اس مذاکرے میں ایسی کوئی بات نہیں کہی ۔

میرے سمیت پاکستان پیپلزپارٹی کے ساتھیوں نے پنجاب کے شہر لاہور میں پروگریسو اسٹوڈنٹس کلیکٹو کے قیام اور اس کی طرف سے لاہور شہر میں طلباء مارچ کا ہمیشہ خیرمقدم کیا اور پی ایس ایف لاہور کی تنظیم نے اپنے درجنوں طلباء کارکن اس کے مارچ میں بھیجے لیکن وہاں پہ کلیکٹو کے مرکزی اسٹیج اور ٹرک سے مشرف عمران سے دے دے آزادی کے ساتھ ساتھ “زرداری سے دے دے آزادی” کے نعرے بلند ہوتے رہے اور اس مقام پہ کسی نے “نواز سے دے دے آزادی” کا نعرہ نہیں بلند کیا اگر بلند ہوتا تو ہم یہ کہہ کر دل کو تسلی دے لیتے کہ اسٹیج پہ فار لیفٹ مارکس وادی ہیں جو زرداری کو بورژوازی کا نمائندہ سمجھ کر سے آزادی مانگ رہے ہیں جیسے وہ باقی مین سٹریم سیاسی جماعتوں کی قیادت کو بورژوازی کہہ کر نجات مانگ رہے ہیں لیکن یہ کیا کہ زرداری کو سنگل آؤٹ کیا گیا اور لاہور پہ 1985ء سے قابض چلے آرہے سیاسی خانوادے بارے بات تک نہیں کی گئی بلکہ اس کلیکٹو کے کئی ایک سرکردہ اور نمایاں طلباء ایکٹوسٹ اور ان کے مربی اپنی تحریروں میں نواز شریف کو انقلابی ثابت کرنے پہ تلے نظر آئے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پروگیسو کلیکٹو نے مسلم لیگ نواز کے پانچ سال اور تحریک انصاف کے تین سالوں میں شہباز شریف اور عثمان بزدار پہ پنجاب میں طلباء یونین بحال کرانے کے لیے کون سی بڑی مزاحمتی تحریک چلائی؟ اور کتنے مظاہرے کیے سوائے سالانہ ایک مارچ کے اور چند ایک دوسرے مظاہروں کے، کیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس وقت ملک میں واقعی طلباء یونین کی بحالی کے لیے کوئی زبردست تحریک چل رہی ہے؟ بلوچستان ایک استثنائی مبال ہے جہاں بی ایس او نے بلوچ طلباء کے حقوق کے لیے زبردست احتجاج منظم کیا، دھرنے دیے اور اس کے دونوں دھڑوں نے ریاستی جبر بھی بڑے پیمانے پہ برداشت کیا- لیکن یہ احتجاج بھی طلباء یونین کی بحالی کے گرد نہیں تھا۔
پنجاب میں لاہور کے لبرل لیفٹ کی طرف سے بار بار ایسا تاثر جھلکا جیسے وہ عملی طور پہ نواز لیگ کے ایشوز پہ ہی سیاست کررہا ہو۔ اس تاثر کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔

Facebook Comments

عامر حسینی
عامر حسینی قلم کو علم بنا کر قافلہ حسینیت کا حصہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply