نظرانداز طبقے اور سماجی تنظیمیں

نظرانداز طبقے اور سماجی تنظیمیں
رابعہ احسن
ہم سیاسیات پہ لکھتے ہیں سماجیات پہ خیال آرائی کرتے ہیں ،ترقیات ہمیشہ ہمارا پسندیدہ موضوع ہےاخلاقیات سے ہمارا کوئی واسطہ نہیں اور انسانیت صرف شروعات اور کاغذات تک محدود رہ جاتی ہیں۔ ہم صرف ان مسائل پہ غور کرتے ہیں جن پہ پہلےہی سارا زمانہ غور کررہا ہوتاہے، حالانکہ اکثر لوگ یہ کام بھی نہیں کرپاتے ،لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ملک کے حالات بدلنے کا عزم اٹھاتے ہوئے ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ملک کے حالات بدلنے کیلئے سب سے پہلے ملک کے عوام کے حالات پہ غوروفکر کی ضرورت ہے اوریہ عوام وہ خواص ہیں جن کو ہم اپنے کسی بھی ٹاک شو کا موضوع بنانا پسند نہیں کرتے، نہ ہی ان پہ کوئی تبصرہ کرکے اپنا وقت ضائع کرنے اور ریٹنگ کم کرنے کا چانس لیتے ہیں ۔
پاکستان کا لیبر طبقہ جس کی یاد ہمیں صرف یکم مئی کو ہی آتی ہے، جس کے نہ تو کوئی حقوق ہیں اورنہ قواعدو نہ ضوابط پرعمل درآمد کرانے والے قوانین۔ اگر کام مل جائے تو دیہاڑی مل جاتی ہے ورنہ بیماری کی صورت میں نہ دیہاڑی نہ دوا دارو ں کی کوئی صورتحال۔ ملک کی تریسٹھ فیصد آبادی کا نہ تو کوئی پولیٹیکل پارٹی ذکر کرتی ہے نہ ہی کوئی رفاہی ادارہ اس طبقے کیلئے آواز اٹھاتا ہے۔ گورنمنٹ نے جو یومیہ دهاڑی مزدوروں کیلئے مقرر کی ہے جوکہ 300 سے 400 کے درمیان ہے لیکن حکومت کے کسی ادارے نے یہ جاننے کی کبھی کوشش ہی نہیں کہ اس سرکاری اعلان کو کس حد تک پایہ تکمیل تک پہنچایا جارہا ہے ۔ملک میں یومیہ دہاڑی کے اس کم ترین سکیل کوکوئی follow کربھی رہا ہے یا پھر اس کی پابندی نہ کرنے والوں کیلئے کوئی ہلکی پھلکی ہی سہی مگر کوئی واقعتاً سزا بھی مقرر کی گئی ہے یا نہیں؟
مارکس نے کہا تھا محنت کشوں کے پاس کھونے کے لیے سوائے بیڑیوں کے کچھ نہیں پر آج کے مزدور کے پاؤں میں تو بیڑی تک نہیں کہ اسے ہی توڑ کے بیچ دے۔وہ بھی ایک زمانہ تھا جب فیض احمد فیض آل پاکستان فیڈریشن آف لیبر کے صدر تھے۔ پاکستان کے پہلے فوجی ڈکٹیٹر ایوب خان کا اقتدار لیبر یونینوں کی مسلسل ہڑتال کے سبب الٹا گیا اور جب ذوالفقار علی بھٹو نے مزدوروں کو ایک ہاتھ سے اختیار تھمایا۔ سن ستتر میں بھٹو حکومت کا پہلے ملک گیر پہیہ جام ہڑتالوں نے تختہ کیا اور پھر ضیا الحق نے دھڑن تختہ کر دیا۔ ضیاءالحق نے مزدور یونینوں کے تمام حقوق غصب کرا دئیے اور رہی سہی کسر سویت یونین کے زوال اور گلوبلائیزیشن نے عالمی مزدور یکجہتی کو شدید نقصان پہنچایا۔ یہی پاکستان تھا جہاں ٹریڈ یونینیں اجتماعی سوداکار ایجنٹ تھیں، آجر کے منافع میں سے مزدور کو بونس دلاتی تھیں، سوشل سیکورٹی، صحت و تعلیم کی سہولتیں اور پنشن و گریجویٹی جیسے بنیادی حقوق تسلیم کروا لیتی تھیں۔ پاکستان میں غیر سرکاری تنظیموں کے اندازوں کےمطابق ملک بھر میں گھروں میں خام مال لا کر کام کرنے والے ہوم بیسڈ ورکرز کی تعداد دو کروڑ ہے جس میں ایک کروڑ 20 لاکھ خواتین شامل ہیں۔ حکومت کے پاس ایسے مزدوروں کا گوشوارہ تک موجود نہیں جو سالہا سال سے ملک کی اکانومی کا ایک خاموش اور نظر انداز ترین حصہ ہیں۔
یہ لوگ گھروں میں خام مال لاکر غیرسرکاری غیر رسمی اور مشکل ترین مزدوری کرتے ہیں ان میں زیادہ تعداد خواتین، بچوں اور بوڑهوں کی ہوتی ہے۔جوتوں کے تلے بنانا، فٹبال سینا، پلاسٹک کی اشیاءبنانا اور سلائی کڑهائی کی دیگر مصنوعات جو کہ بازاروں میں بہت مہنگے داموں میں بکتی ہیں مگرگھروں میں کام کرنے والے مزدوروں کو بہت کم اجرت دی جاتی ہے حالانکہ کام بہت مشکل بلکہ خطرناک کیمیکلز اور اوزاروں کے ساتھ کیا جاتا ہے جس سے مزدوروں(جن میں خصوصاًعورتیں اور بچے شامل ہیں)کے ہاتھ اور جسم کے دیگر حصوں کے زخمی ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے اور پھر ان کے پاس نہ تو کوئی میڈیکل فیسیلٹی ہوتی ہے اور نہ ہی کمپنی کی کوئی اور کمپنسیشن کیونکہ اس قسم کا مزدور طبقہ ہر لحاظ سے نان رجسٹرڈ ہوتا ہے اور کمپنی مالکان کو اس قسم کی لیبر عام لیبر کی نسبت انتہائی سستی پڑتی ہے۔ نہ کام کرنے کی جگہ کا مسئلہ، نہ مینٹینینس، نہ بجلی گیس یا پانی کا خرچہ بلکہ مندرجہ بالا اخراجات بھی مزدور کی جیب سے ہی نکلتے ہیں ۔حکومت اور انسانی حقوق کی علمبردار تنظیموں کو اس طبقے کے حقوق کیلئے خصوصی اقدامات کرنے چاہئییں اور کمپنی مالکان کوبھی قواعدوضوابط کا پابند کرنا چاہئیے۔
خواتین مزدورں کی استحصالی کے ساتھ ساتھ غربت وافلاس، معاشی بدحالی، وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کے نتیجے میں پاکستان میں سب سے زیادہ نظر انداز ہونے والا طبقہ مزدور بچوں کا ہے۔ child labour کے خلاف حکومت کی طرف سے قوانین بننے کے باوجود اس طبقے کا استحصال پوری قوم کی انتہائی درجے کی غیرذمہ دارانہ، غیرانسانی اور غیراخلاقی رویے کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
غربت اور بدحالی کی وجہ سے ملک کا روشن مستقبل ہوٹلوں، ورکشاپوں سڑکوں، گھروں فیکٹریوں کے ساتھ ساتھ اپنی عمراور جسامت کے اعتبار سے غیرموزوں مزدوری تک کرنے پر مجبور ہے ۔چائلڈلیبر کے خلاف قانون بنے چودہ سال ہوگئے ہیں مگر عملدرآمد کی کوئی صورتحال نظر نہیں آتی۔ مزدور بچوں پر آخری سروے 1996 میں ہوا تھا، ملک میں پانچ سے پندہ سال کی عمر کے دوکروڑ بچے سکولوں سے باہر ہیں۔ باقاعدہ کام کرنے والے بچوں کی تعداد چالیس لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے ،جبکہ مزدور بچوں کا اسی فیصد طبقہ غیر رسمی مزدوری کررہا ہے جس کے کوئی اعدادوشمار میسر نہیں۔ قوم کے معماروں کو بچپن کی شرارتیں اور تعلیم کی بنیادی سہولیات تک میسر نہیں ناانصافی کی یہ داستاں صرف یہاں تک محدود نہیں بلکہ سیالکوٹ میں جراحی کے آلات تیارکرنے والے کارخانوں میں ہزاروں بچے محنت کرتے ہیں اور ملک ان کی محنت سے ہزاروں کا زرِمبادلہ کماتا ہے۔ ریتی پر دهات کے گِھسنے سے نکلنے والی دهاتی دهول ان بچوں کے سانسوں کے ساتھ ان کے پھیپھڑوں میں جاتی ہے جو ان کیلئے شدید نقصان دہ ہے، اس کے علاوہ ڈینٹنگ پینٹنگ کرنے والے بچے بھی اکثر ٹی بی کا شکار ہوجاتے ہیں اور پھر ورکشاپوں کے مالکان جوتشدد،تضحیک آمیز اور گالم گلوچ والا رویہ اختیار کرتے ہیں وہ ان بچوں کی ذہنی اور جذباتی نشوونما میں شدید انتشار کا باعث بنتا ہے اور اس قسم کے رویوں کا ری ایکشن بڑے ہوکر ان بچوں میں تشدد پسندی، چوری ڈکیتی منشیات نوشی اور دیگر جذباتی اور سماجی مسائل کی صورت میں سامنے آتا ہے ۔
ہم صبح شام ملک کی سیاسی جماعتوں کی کرپشن کا رونا روتے ہیں۔ تمام سیاسی جماعتیں اپنا مینڈیٹ لے کر آتی ہیں کہ ہم یہ کر دیں گے وہ کر دیں گے کبھی کسی سیاسی جماعت نے یہ دعویٰ کیا کہ ملک بھر میں جو بچے اور خواتین کوڑا کرکٹ اٹھا اور چن کے اپنا پیٹ پالتے ہیں ان کی بہبود کیلئے آنے والی یا موجودہ حکومت کی فائلوں میں کیا پلان دفن ہونے والا ہے؟ہمارے ہاں سرکاری افسروں کو بلاوجہ غیر ضروری مراعات دی جاتی ہیں، انتہائی فضول منسٹرز کی سیکیورٹی کیلئے ملک کی اکانومی کا لاکھوں خرچ کر دیا جاتا ہے لیکن کبھی اس طبقے کا نہیں سوچاجاتا جو اپنا پیٹ بھرنے کیلئے اپنے بچوں خصوصاََلڑکیوں کو بیچنے پر بھی مجبور ہوجاتے ہیں۔ ہم کبھی سیاسی اور سماجی مسائل کے حل کیلئے اور کبھی سیاسی جماعتوں کے خلاف اور کبھی ان کے حق میں بینرز اٹھا کے سڑکیں روک کر کھڑے ہوجاتے ہیں تو کبھی بھوک ہڑتالیں اور دهرنے کرتے ہیں، لیکن کتنے افسوس کا مقام ہے کہ ہم کبھی کسی مزدور کے حقوق کیلئے کھڑے نہیں ہوتے۔ چائلڈ لیبر ہمارا مسئلہ ہی نہیں کیونکہ ہمارا مسئلہ صرف اپنے بچوں کے برائٹ فیوچر پر فوکس کرنا ہے ملک میں بہت ساری تنظیمیں بچوں کی مفت تعلیم پر کام کرہی ہیں مگر آپ ان بچوں کو تعلیم کیسے دیں گے جو رات کے بھوکے سکول آئیں گے بھوکے پیٹ تو نیند نہیں آتی پڑهائی کہاں سے ہوگی؟
اب تک کی زندگی میں پاکستان سے لیکر کینیڈا تک صرف ایک ایسی خاتون کوجانتی ہوں جن کے پاس جھونپڑیوں کے بچے پڑهنے آتے تھے اور جو اپنے ہاتھوں سے ان کیلئے کھانا بھی بناتی تھیں مگر وہ خاتون خود بھی ایک ایسے شخص کی بیٹی تھیں جو گھروں میں جاکر بچوں کو تعلیم دیتے تھے اور اگر ان سے فیس کا ذکر کرو تو نہ صرف ناراض ہوجاتے تھے بلکہ پڑهانا ہی چھوڑ دیتے تھے کیونکہ بقول ان کے پیسے دے کر تو آپ کسی سے بھی پڑه سکتے ہیں ۔اللہ انهیں جنت میں بلند مقام عطا کرے۔
بڑهتی ہوئی غربت اور کرپشن کے نتیجے میں مزدوروں سے 7 کی بجائے 12 سے 20 گھنٹے کام لیا جاتا ہے ۔مزدوروں کا کام بھی جسمانی مشقت سے متعلق ہوتا ہے لہذا ایک دن میں اتنے زیادہ گھنٹے کام لینا ہر لحاظ سے غیر انسانی ہے۔ شہر کراچی میں دور دراز پہاڑی علاقوں سے مزدوری کیلئے آنے والے طبقے کی ایک انتہائی بدحال بستی جوکہ پورے ملک کے مزدوروں کی زبوں حالی بیان کرنے کیلئے کافی ہے۔یہ بستی بانو کالونی ہے- اس کی اوپری منزل کی چھتیں اِدھر اُدھر سے باہر نکلی ہوئی ہیں اور ایک بھول بُھلیّوں جیسی ایک جگہ شگئی کی یاددلاتی ہے، جو سوات میں منگورہ کی ایک کچی آبادی تھی-اس بستی میں جہاں صرف پختون رہتے ہیں، داخل ہونے کے دو راستے ہیں ،مشرق کی جانب سے صرف مردوں کیلئے؛ مغربی راستہ خاندانوں کیلئے ہے- جو راستہ مردوں کیلئے ہے اس میں داخل ہوتے ہوئے ایک لمحے کو ایسا لگتا ہے کہ جیسے آپ کسی تباہ شدہ عمارت میں داخل ہورہے ہوں- یہاں بغیر کھڑکی کے ایک کمرہ کا کرایہ جس کے ساتھ ایک مشترکہ باورچی خانہ بھی ہے، چھ ہزارروپیہ مہینہ ہے جس میں چھ یا زیادہ مرد— کم عمرلڑکا، جوان آدمی یا بوڑھا— مل کر رہتے ہیں-
خاندانوں کی رہائش کیلئے کرایہ 6000 روپیہ سے 8000 روپیہ مہینہ ہے جس میں عموماً دو خاندان رہتے ہیں ان جگہوں میں بجلی اور گیس کی سپلائی قانونی ہے- زیادہ تر بچے گورنمنٹ اسکولوں میں جاتے ہیں جو پڑوس کے علاقوں میں موجود ہیں- بہت کم بچے ایسے ہیں جو اس مدرسے میں جاتے ہیں جو اس بستی کے مغربی جانب اونچی دیواروں کے دوسری طرف ہے۔
یہ پورے کراچی میں پھیلی سینکڑوں چھوٹی اوربڑی بستیوں میں سے ایک ہے، جس میں مزدور رہتے ہیں جو پہاڑوں سے شہروں کو آتے ہیں، میدانوں سے، بنجر زمینوں سے، ملک کےدورافتادہ علاقوں سے اپنے اور اپنے بچوں کیلئے ایک بہتر زندگی کا خواب آنکھوں میں سجائے ہوئے، وہ ہر طرح کے کام کرنے کو تیار ہوتے ہیں اور مشکل زندگی گذارتے ہیں، اور اس کیلئے شہروں کے بیچ میں رہتے ہیں-
یہ شہروں کے ڈرائیور ہیں، بوجھ اٹھانے والے، گاڑیاں صاف کرنے والے، چوکیدار، دوکانوں میں کام کرنے والے، نان بنانے والے، گھریلو ملازمین، چائے والےاور پھل کا خوانچہ لگانے والے- غیرہنرمند، کم اجرت اور نیم مستقل کارکنوں کی بڑی تعداد لیبر مارکیٹ کی بے یقینی کا شکار رہتی ہے- شہریوں کے حقوق سے بے خبر، ستایا ہوا، لکیر کا فقیر، ٹریڈ یونینوں کا دھتکارا ہوا، یہ کارکن معاشرتی دھارے سے الگ تھلگ ہوتا ہے- اور یہ اس بے قاعدہ لیبر فورس کا حصہ ہے جو ہرقسم کے قانونی حقوق سے محروم ہے- یہ وہ لوگ ہیں جن کو محض یومیہ دهاڑی والی مزدوری کیلئے چھوٹے قصبوں سے بڑے شہروں میں ہجرت کرنا پڑتی ہے اور جو رہائشی ضروریات کے انتہائی نچلے درجے کے ساتھاپنی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔
یہی نہیں پورے پاکستان میں ایسی بے شمار بستیاں ہیں جو غریب مزدوروں کے ساتھ ہونے والے استحصال کا چیخ چیخ کر اعلان کرتی ہیں ۔جھونپڑیوں میں رہنے والوں کی کثیر تعداد جو کام اور موسم کی مناسبت سے سارا سال یہاں سے وہاں ہجرت کرتے ہیں ان خانہ بدوشوں کی ساری زندگی اسی بھاگ دوڑ میں گزرجاتی ہے۔ بڑے بڑے شہروں میں ہوتے ہوئے تمام تر شہری سہولیات سے محروم یہ خانہ بدوش نسل درنسل اسی پیشے سے جڑے ہوئے ہیں۔ گھروں کا کوڑا اٹھانا، کوڑے کے ڈهیر کو چننا اور یومیہ میعاد پر مزدوری کرنا ان کے ذرائع روزگار ہیں ،کیونکہ مستقل رہائش نہ ہونے کے باعث لوگ نہ تو ان پہ اعتماد کرتے ہیں نہ ہی روزگار دیتے ہیں مطلب استحصال پہ استحصال۔ کبھی ان کیلئے کسی نے بھی آواز نہیں اٹھائی۔ ان کیلئے کوئی تحریک سرگرم نہیں ہوئی۔غرضیکہ مزدور طبقہ چاہے جتنی مرضی ناانصافی کا باعث بنے وہ ہمارا سردرد نہیں۔ہمیں صرف تازہ ترین سیاسی اور سماجی مسائل میں دلچسپی ہے جس کیلئے ہم ایک دوسرے کو سپورٹ بھی کرتے ہیں اور اپنے ایک چھوٹے سے ڈائیلاگ کیلئے بھی ہمیں پورے زمانے کی آراءدرکار ہیں مگر یہ جو بہت چھوٹے لیول پہ کرپشن اور ناانصافی ہے ناں جس پر ہماری کوئی توجہ نہیں یہی پھیل کر پورے تالاب کو گندا کردیتی ہے حقوق جہاں بھی غصب ہوں گے قدرت کا قانون برابر حساب لے گا کیونکہ خدا کے نزدیک تو وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان میاں نوازشریف اوربوٹا گٹر صاف کر نے والا دونوں انسان ہی ہیں۔

Facebook Comments

رابعہ احسن
لکھے بنارہا نہیں جاتا سو لکھتی ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply