خوشبو دار عورتوں کا افسانہ نگار۔۔اسلم ملک

بظاہر حیرت کی بات ہے کہ اردو ادب میں طوائفوں اور ہیجڑوں کے رہن سہن کی سب سے حقیقی تصویر کشی ایک مولوی کے بیٹے نے کی۔ لیکن اس کی وجہ یہ ہے کہ اسی مولوی کے بیٹے کو ہی انہیں سب سے قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ ان کے باپ دادا مفتیان بادشاہی مسجد تھے اور بادشاہی مسجد اور شاہی محلہ یا ہیرا منڈی ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔
ان کا گھر اسی محلے میں تھا۔ طوائفیں احساس گناہ کی وجہ سے پنڈت، پادری، مولوی کی خدمت کرکے اوپر والے کو راضی کرنے کی کوشش کرتی رہتی ہیں۔ سو عزیز الرحمٰن کو بھی بچپن سے ہی اس طبقے کا پیار میسر آیا۔ وہ وہاں گھومتے رہتے، طوائفیں انہیں کھلاتی پلاتیں، انہیں بچہ سمجھ کر اپنی گفتگو جاری رکھتیں، جو ،عزیز الرحمٰن کو کچھ سمجھ آتی اور کچھ نہیں، لیکن ذہن میں محفوظ رہتی اور بہت کچھ بعد میں سمجھ آتا گیا۔ اس محلے داری سے اس بازار کے مطالعے کا اس عینی شاہد سے بڑھ کر کسی کو موقع نہ ملا۔ عزیز الرحمٰن نے بعد میں رحمان مذنب نام اختیار کیا۔ وہ کہتے ہیں:
” گھر میں علم تھا، پاکبازی تھی، درویشی تھی، دانائی تھی۔ باہر افسانہ اور ڈرامہ تھا۔ ہر آن کوئی واقعہ، کوئی سانحہ دیکھنے میں آتا۔۔ بے وفاؤں کی بستی میں، کوٹھی خانوں کے کونوں میں، کلال خانے میں اور بھرے بازار میں دن اور رات میں کیا کیا گل کھلتے۔ حسن و عشق کے جوالا مکھیوں میں پروانے کس طرح جلتے مرتے، جنت اور جہنم کےحیران کُن  مناظر کم و بیش ساٹھ سال تک میں نے دیکھے۔ یہ تماشے مجھ پرگزرے ، کنارے پر کھڑے ہو کر نہیں ، جوالا مکھی میں کود کر تجربہ کیا۔ ” اسی تجربے اور مشاہدے کو انہوں نے افسانوں میں پیش کیا۔

ڈاکٹر مرزا حامد بیگ کہتے ہیں:

رحمان مذنب

“رحمان مذنب کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے تیسری جنس، پیشہ کرانےوالی عورت اور شہوت میں بھنتے ہوئے افراد کی نفسی کیفیات کو تمام ترجزئیات اور تاریخی پس منظر کے ساتھ اپنے افسانوں میں سمیٹنے کا جتن کیا ہے۔ بطور افسانہ طراز، رحمان مذنب اپنے پسندیدہ لینڈا سکیپ(خصوصاً ہیجڑوں کی بیٹھک یا چکلے) پر چھوٹا کھیل نہیں کھیلتے، بڑی بازی لگاتے ہیں۔جس کےطفیل ان کا قاری ہیجڑے، طوائف اور تماشبین کےعلاوہ نوسر بازکبابیے، جیب تراش، د لّے اور سفید کپڑوں میں پولیس کے کارندوں کی حقیقت تک پہنچتا ہے۔ اس خصوص میں رحمان مذنب کے گوری گلاباں، پتلی جان، گشتی، لال چوبارہ، چڑھتا سورج وغیرہ لازوال افسانے ہیں”۔

رحمان مذنب ہیرامنڈی تک محدود نہیں رہے، انہوں نے اور بھی بے شمار موضوعات پر لکھا۔ مثلاً فسادات، جنگ آزادی، طبقاتی تقسیم، استحصال وغیرہ پر ان کی کہانیاں ان کے سماجی شعور کا پتہ دیتی ہیں۔

رحمان مذنب ( عزیزالرحمٰن) کے والد کا نام مفتی عبد الستار تھا۔ وہ 15 جنوری 1915 کو لاہور میں پیدا ہوئے اور 16 فروری 2000 کو لاہور ہی میں وفات پائی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ان کی کچھ کتابیں
خوشبودار عورتیں، پتلی جان، پنجرے کے پنچھی، گلبدن، حساب دوستاں (خاکے) آخری دیوار،چڑھدا سورج، مقدس پیالہ ، کوہسار زادے، بالاخانہ ، وفا کی قیمت ، موتیوں والی سرکار ، میوار کی رادھا، زرینہ اور ہاشم ، بدر بہادر ڈکیٹ ،نور پور کی بستی، تہذیب و تمدن اور اسلام ، دنیا کے نامور جاسوس، بے خوابی اور اس کا علاج ،اسلام اور جادوگری، مسلمانوں کے تہذیبی کارنامے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply