پانی (1) ۔ کم اور زیادہ/وہاراامباکر

امریکہ میں آئیوا کی ریاست جنوری 2008 کو ہر جگہ پر خبروں میں تھی۔ اس ریاست سے صدراتی امیدواروں کے چناوٗ کا آغاز ہوتا ہے۔ اور یہاں پر ووٹروں نے آزمودہ سیاستدان ہلیری کلنٹن سے زیادہ ووٹ باراک اوبامہ کو دے کر سیاسی منظرنامے میں بڑا اپ سیٹ کیا تھا۔ صدراتی انتخاب کی دوڑ جاری رہی لیکن پانچ ماہ بعد یہ ریاست ایک بار پھر شہ سرخیوں میں تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیاسی گہما گہمی کے اگلی ریاستوں میں چلے جانے کے چند ہفتے بعد ہی برف گرنے لگی۔ دو برفانی طوفان آئے۔ مارچ تک یہاں ہونے والی ماہانہ برفباری پچھلے 121 سال میں (جب سے ریکارڈ رکھے جا رہے ہیں) ہونے والی تیسری سب سے زیادہ مقدار تھی۔ اور پھر بارشیں آ گئیں۔
اپریل میں ہونے والی بارشوں نے تباہی مچا دی۔ یہاں کے شہر فائیٹ میں ہونے والی 300 ملی میٹر کی بارش نیا ریکارڈ تھی۔ پگھلتی برف اور پانی ہر طرف تھا۔ نہریں اور دریا بھر چکے تھے، مکئی کے کھیتوں میں سیلاب تھے اور مئی میں پانچویں درجے کا tornado آ گیا جو اس ریاست میں چالیس سال کے بعد آیا تھا۔ یہ تباہی مچا کر جا چکا تھا۔
اور پھر 29 مئی کے بعد حالات خراب ہو گئے۔ اگلے پندرہ دن کی بارشیں آئیوا کی تاریخ کا “گیلا ترین” وقت تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امریکہ میں مکئی اور سویابین کی سب سے زیادہ پیداوار دینے والی ریاست کے کھیت پانی میں بہہ رہے تھے۔ خوراک کی عالمی قیمتیں بڑھ گئیں۔ سیڈار دریا کا پانی یہاں کے بڑے شہر سیڈار ریپڈز میں داخل ہو گیا۔ یہ اس شہر کی 159 سالہ تاریخ میں میں پانی کی بلند ترین سطح تھی۔ آئیوا یونیورسٹی کا کیمپس پانی میں تھا۔ اوک ویل کا قصبہ نقشے سے مٹ چکا تھا۔ دنیا کی زرخیز ترین زمین کے بیس لاکھ ایکڑ سے بیس ٹن فی ایکڑ مٹی کو دریا بہا لے گیا تھا۔ چھ لاکھ ایکڑ زمین ناکارہ ہو چکی تھی۔ ہونے والا نقصان کا تخمینہ شروع کے دنوں میں دس ارب ڈالر لگایا گیا۔ لیکن یہ تخمینہ کم نکلا۔ چالیس ہزار لوگ بے گھر ہو گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہاں سے 1800 میل مغرب میں ایک اور آفت برپا تھی۔ اس کا تعلق بھی پانی سے تھا لیکن اس کی نوعیت الگ تھی۔
آئیوا کے پندرہ گیلے ترین دنوں کے عین درمیان میں چار جون 2008 کو کیلے فورنیا کے گورنر آرنلڈ شوارزنیگر نے سرکاری طور پر اعلان کیا تھا کہ ان کی ریاست خشک سالی کا شکار ہے۔ کیلے فورنیا امریکہ میں زراعت کی سب سے زیادہ پیداوار والی ریاست ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جنوبی کیلے فورنیا میں دس سال سے بارش میں کمی ہو رہی تھی۔ اس سے پچھلے سال ہونے والی بارشیں اوسط سے اسی فیصد کم تھیں۔ اتنی کم کہ کئی جگہوں پر کسانوں نے زمین پر فصل ہی نہیں اگائی تھی۔
سخت خشک موسم کی وجہ سے جنگل میں کئی جگہوں پر آگ نے آن لیا۔ سان ہواکن اور ساکرامانٹو دریاوٗں کی سطح کم تھی۔ ذخیرہ کئے گئے پانی کی سطح پوری ریاست میں کم تھی۔ سٹیٹ واٹر پراجیکٹ کے تحت بنی اورووِل جھیل کا پانی نصف رہ چکا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ریاست کی طرف سے ایمرجنسی آرڈر جاری ہوئے۔ پانی بچانے کے پروگرام، واٹر ٹرانسفر اور دوسرے اقدامات کے باوجود بحران سنگین تر ہو رہا تھا۔ پانی کی سطح نیچے کو جا رہی تھی۔ جنگل میں آگ تھی۔ فروری 2009 کو ریاست بھر میں ایمرجنسی ڈیکلئیر کر دی گئی۔ ایک لاکھ ایکڑ زمین پر کاشت نہیں کی گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ صرف ان دو ریاستوں کا مسئلہ نہیں تھا۔ جارجیا، ٹینیسی اور کیرولینا کی دونوں ریاستوں کے درمیان پہلی بار پانی کی تقسیم کا تنازعہ شروع ہو گیا۔
غیرمعمولی خشک سالی میکسیکو، برازیل، ارجنٹینا، مغربی افریقہ، آسٹریلیا، مشرقِ وسطی، ترکی، یوکرائن میں موجود تھی۔ لیسوتھو، سوازی لینڈ، زمبابوے، مولڈووا، ماریطانیہ غذائی قلت کا شکار تھی۔ چین کی زرعی پیداوار دس فیصد گر گئی تھی۔ اور اس خشک سالی کی وجہ سے آسٹریلیا میں آگ لگنے کے بدترین واقعات ہوئے۔ اپریل تک انڈیا میں چھتیس گڑھ میں فصلیں ناکام ہونے سے ڈیڑھ ہزار کسان خودکشی کر چکے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور آئیووا کے سیلابوں کے چند دنوں کے بعد بھاری بارش نے مشرقی انڈیا اور چین کو آن لیا۔ انڈیا میں پانچ لاکھ لوگ بے گھر ہو گئے، جبکہ چین میں سولہ لاکھ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تائیوان سے ٹوگو تک 2009 میں دریاوٗں نے پانچ ہزار لوگوں کی جانیں لے لیں جبکہ پونے دو کروڑ لوگ بے گھر ہوئے۔
ہائیڈرولوجسٹ باب براکن رِج سیلابوں کو خلا سے دیکھ رہے تھے۔ دنیا بھر سے سیٹلائیٹ سے موصول شدہ ڈیٹا کی مدد سے انہوں نے 145 سیلابوں کو document کیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انسان کو جن وسائل کی ضرورت ہے، ان میں میٹھے پانی سے زیادہ اہم شاید ہی کوئی اور ہو۔ اگر یہ غائب ہو جائے تو نوعِ انسانی چند دنوں میں معدوم ہو جائے گی۔ اگر یہ ہمارے کھیتوں اور جانوروں تک آنا بند ہو جائے تو ہم بھوکے مر جائیں گے۔ اگر یہ صاف نہ رہے تو ہم بیمار پڑ جائیں گے اور مر جائیں گے۔ انسانی تہذیب کے جاری رہنے کے لئے پانی ٹھیک مقدار، ٹھیک کوالٹی اور ٹھیک وقت پر درکار ہے۔
اگر یہ کم ہو جائے یا سال کے ٹھیک وقت پر نہ ملے تو خوراک ختم ہو جائے اور صنعتیں ناکام ہو جائیں۔ اگر یہ زیادہ ہو جائے تو ہمارے کھیت بہہ جائیں اور لوگ ڈوب جائیں۔ پچھلے دس ہزار سال سے انسانی آبادیوں کا وجود انہیں جگہوں پر ہوا جہاں پر قابلِ استعمال پانی کی مسلسل اور قابلِ اعتبار سپلائی موجود تھی۔
اس کا مستقبل کیسا ہے؟ کیا پانی کی کمی ہو رہی ہے؟ پچھلے پچاس سال میں ہم آبپاشی کی مدد سے کی جانے والی زراعت کا رقبہ دگنا کر چکے ہیں اور عالمی خوراک کے ضرورت پوری کرنے کے لئے پانی کی کھپت تین گنا کر چکے ہیں۔ اگلے پچاس سال میں ہمیں خوراک کی پیداوار مزید دگنا کرنا ہو گی؟
کیا اتنا پانی موجود بھی ہے کہ یہ کیا جا سکے؟
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply