کپاس (46) ۔ روسی توسیع/وہاراامباکر

روس کی دوراندیش سرکاری بیوروکریسی نے انیسویں صدی کے آغاز پر “سفید سونے” کی سپلائی محفوظ کرنے کی اہمیت کو بھانپ لیا تھا۔ اور تاجروں اور صنعتکاروں سے ملکر وسطی ایشیا کے خطے کو کپاس کی کاشت کے ذریعے کے طور پر دیکھ لیا تھا۔
روسی کمانڈر انچیف بیرن روزن نے 1833 میں کہا تھا کہ “یہاں کے رہائشی ہمارے مستقبل کے نیگرو ہوں گے”۔ لیکن ایسا جلد نہیں ہوا تھا۔ 1857 میں وسطی ایشیا روسی صنعت کی مانگ کا صرف چھ فیصد فراہم کرتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس سے اگلی دہائی میں اس پر سنجیدگی سے کام کیا گیا۔ امریکی خانہ جنگی کے دوران کپاس کی عالمی منڈی میں قیمت تین گنا ہونا اہم سنگِ میل تھا۔
روس نے 1865 میں تاشقند پر قبضہ کر لیا۔ اور وسطی ایشیا میں خوقند کی سلطنت کو ضم کر لیا۔ یہ مستقبل میں کپاس کے اہم علاقے بنے۔ 1869 میں روسی انڈسٹریل سوسائٹی میں اکٹھے ہونے والے کاروباری نے حکومت پر زور دیا کہ مزید علاقوں پر قبضہ کیا جائے۔ یہ روسی سلطنت اور معیشت کے لئے ضروری ہے۔
حکومت نے مثبت جواب دیا۔روسی ریاست کو خطرہ برطانیہ کے عزائم سے تھا۔
روس کے مشرقی ایشیا پر قبضے نے روسی بزنس ایلیٹ کی اشتہا مزید بڑھا دی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سنٹرل ایشیا میں اپنا اقتدار مضبوط کر لینے کے بعد روسیوں نے بھی توجہ کاٹن کی پیداوار پر دی۔ یہ برٹش طرز پر کئے گئے اقدامات تھے۔ 1871 میں روسی کالونیل اہلکار شتابا کوسٹینکو کا کہا، “ہماری کوششوں کا مقصد امریکی کپاس کی جگہ پر ہماری اپنی ایشیائی کپاس لے کر آنا ہے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے لئے بڑے پراجیکٹ ہوئے۔ دور دراز کے علاقوں تک ریل پہنچائی گئی۔ جن علاقوں سے کپاس کو اونٹ پر آتے چھ ماہ لگتے تھے، اب ٹرین پر دو دن میں پہنچ جاتی۔ حکومت نے بیج سپانسر کئے۔ ماہرینِ زراعت کو زرعی تکنیک پر تجربات کے لئے بھیجا۔ بڑے پیمانے پر آبپاشی کے شاندار پراجیکٹ ہوئے۔ حکومتی بیوروکریٹس کو امریکہ بھیجا گیا تا کہ وہ کپاس اگانے کی سٹڈی کر کے آئیں۔ امریکہ سے بیج منگوا کر مقامی کاشتکاروں میں تقسیم کئے گئے۔ 1890 تک سنٹرل ایشیا کی کپاس کی نصف فصل ان بیجوں سے اگائی جا رہی تھی۔ ترکستان میں کاٹن جِن لگائی گئیں۔ ایجنٹ کاشتکاروں کے پاس بھیجئے گئے کہ ان کو قرض دیا جا سکے اور فصل اگانے میں مدد کی جا سکے۔
جس طرح وقت گزرتا گیا، روسی ریاست اور سرمایہ کار پیداوار کے عمل میں زیادہ شریک ہوتے گئے۔ اس کا نتیجہ بڑے پیمانے پر کپاس کی کاشت کی صورت میں نکلا۔ ترکستان 1909 تک روس کی نصف کاٹن کی پیداوار کر رہا تھا۔ ایک مورخ نے اسے “روسی سرمایہ داروں کی کپاس کی کالونی” کہا ہے۔ خوقند کو 1920 سے “کپاس کا شہر” کہا جانے لگا تھا۔ امریکہ، ہندوستان، چین اور مصر کے بعد روس کپاس اگانے والا پانچواں بڑا ملک بن چکا تھا۔
جاپان اور روس کی اس کامیابی کو دوسری کالونیل طاقتیں رشک سے دیکھ رہی تھیں۔ فرانس نے گواڈے لوپ، الجیریا اور سینیگال میں ایسے پراجیکٹ شروع کئے۔ بلجیم نے کانگو میں۔ اٹلی نے اریٹریا میں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برٹش نے برار کو 1876 میں نظامِ حیدرآباد کو واپس دینے سے انکار کر دیا۔ کاٹن اکانومی کا اہم حصہ مصر تھا۔ یہ 1882 تک مکمل طور پر برٹش کالونی بن چکا تھا۔ 1899 تک مصر کی چالیس فیصد فصل کپاس تھی۔ 1902 میں اسوان ڈیم اور اسیوط ڈیم کی تعمیر کے بعد پورا سال یہاں کپاس اگائی جا سکتی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عثمانیوں نے چکرووا کے خانہ بدوشوں کی زمینیں کپاس کے کھیتوں میں بدل دیں۔ ارجنٹینا، برازیل اور پیرو میں بھی کپاس کی زراعت بڑھانے کے پروگرام جاری تھے۔
لیکن پیداوار کا سب سے بڑا اضافہ جس جگہ سے آیا، وہ امریکہ تھا۔ بڑے پیمانے پر انفراسٹرکچر پراجیکٹ، دلدلی علاقوں سے پانی کو نکالنا، آبی وسائل پر کنٹرول، آبپاشی کے نظام، زرخیز زمینوں پر کاشتکار بسانا، ریلوے نظام، دریائی ٹرانسپورٹ سسٹم۔ نئی ریاستوں کے ادغام۔ پیداوار بڑھانے میں کامیابی میں امریکہ کا مقابلہ نہیں تھا۔
دنیا کی آبادی کا ایک فیصد 1905 میں کپاس سے وابستہ تھا۔
(جاری ہے)
ساتھ لگی تصویر روسی کمیونسٹ انقلاب کا پراپیگنڈا پوسٹر ہے جو 1937 میں آذر بائیجان میں شائع ہوا۔ وسطی ایشیائی ریاستیں سوویت کپاس کی سپلائی کا مرکز تھیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply