موجودہ ملکی حالات کا ذمہ دار کون۔۔ارشد نعیم چوہدری

پاکستان کے حالا ت دن بدن کیوں خراب ہوتے جا رہے ہیں؟ ملک کس طرف جارہاہے ؟ اور اس کا ذمہ دار کون ہے ؟ گزشتہ ۷۰سال سے رشوت خوری کو بڑھتے دیکھا،حرام خوری کو بڑھتے دیکھا،چوری اور لوٹ مار کو بڑھتے دیکھا،بداخلاقی اور بد مزاجی کو بڑھتے دیکھا،بد اعتمادی کو بڑھتے دیکھا ، جھوٹی انا کو بڑھتے دیکھا،غرور اور تکبر کو بڑھتے دیکھا، جہالت کو بڑھتے دیکھا، ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچتے دیکھا،خود غرضی کو بڑھتے دیکھا۔یوں لگتا ہے پاکستان کو مسائل اور مصائب کا گھر بنا دیا گیا، سوال اٹھتا ہے کہ اس کو کون درست کرے گا؟

میری نظر میں قوم کی تربیت کرنے میں تین اداروں(مسجد، مدرسہ اور میڈیا) کا بڑا اہم رول ہوتا ہے ا ور ان تینوں کو اقربا پروری و نااہل افراد کی سرپرستی نے تباہی کے دھانے پر پہنچا دیا۔ پاکستان کے مسائل کے ذمہ دار بنیادی طور پر ہمارے علما  ،اساتذہ، سیاستدان پھر فوجی جنرل ہیں اور اس کے بعد آج کل کے مفادپرست وہ لوگ جن کے ہاتھ میں قلم یا میڈیا ہے۔ سب سے بڑھ کر وہ بے ہودہ خیال ہے جس نے پوری قوم کو مخمصے میں پھنسایا ہوا ہے کہ سیاست بری  چیز ہے اور دوسرا میرا سیاست سے کو ئی تعلق نہیں لیکن چوبیس گھنٹے باتیں سیاست کی کرتے رہنا۔ اوپر سے کہنا کہ میں نیوٹرل ہوں۔میں تمام نیوٹرل لوگوں سے پوچھتا ہوں کہ نیوٹرل کا مطلب کیا ہے؟نیوٹرل کون ہوتے ہیں؟ میں سمجھتا ہوں کہ نیوٹرل صرف وہ ہوتے ہیں جن کی اپنی کو ئی راے نہ ہو، یاوہ جن کو ووٹ دینے کا حق نہ ہو۔یا وہ جن کی جنس مشکوک ہو۔اب فیصلہ خود کر لیں کہ یہ اب بھی نیوٹرل ہیں یا کوئی رائے رکھتے ہیں۔

پاکستان کو بنانے والے بھی سیاستدان تھے مگر سیاستدانوں کی تربیت کرنے کے لیے بانی پاکستان(قائد اعظم محمد علی جناح) کو قدرت نے زیادہ موقع نہ دیا۔جس سے دشمن نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔اور مسند اقتدار پر ایسے لوگوں کو بٹھا دیا جو اس کے اہل نہ تھے۔جس کا خمیازہ آج پاکستان بھگت رہاہے۔اور اس وقت تک بھگتتا رہے گا جب تک ہم سب سیاست سے الگ اور نیوٹرل رہیں گے۔
میں اپنی نااہلی کو چھپانے اور مفروضے کے طور پر سمجھتا ہوں کہ یہ ہمارے ملک کے خلاف بہت بڑی سازش تھی، ہے ،اور یہ سازش اس وقت تک جاری رہے گی جب تک ہم سب محب وطن پاکستانی سیاست میں بھرپور حصہ نہیں لیتے۔ اس سازش کو عملی جامہ ہمارے ناعاقبت اندیش نااہل سیاستدانوں نے پہنایا ۔قومی مفادات کو ذاتی خواہشات پر قربان کر کے اور اس کو تقویت ہمارے مغرب  زدہ پڑھے لکھے طبقے ( اہل قلم اوربیورکریسی ) نے دی۔ سیاستدانوں میں علم و شعور کا فقدان، فیصلہ کرنے کی صلاحیت کی کمی تھی جس کا بیورکریسی نے بھرپور فائدہ  اٹھایا اور جھوٹ دھوکا دہی اور لوٹ کھسوٹ کے نئے نئے طریقے ایجاد کرکے ان کو (ایزی گوئنگ) راستے پر ڈال دیا اوران کی مرضی کے فیصلوں کی راہ دکھلائی۔ یو ں ملک میں انٹلیکچول کرپشن(Intellectual Corruption ) کی بنیاد رکھی گئی۔۔

(کہاوت مشہور ہے ایک قابل شخص دس نااہل افراد کو چلا سکتا ہے مگر (100)نا اہل مل کر ایک اہل فرد کو اپنی بات سے قائل نہیں کر سکتے) ۔

یو ں بدنامی کی کالک سیاستدانوں کے منہ پر مل دی گئی۔کسی بھی کام کی کامیابی کے لئے تجربہ شرط نہیں اہلیت ہونا شرط ہے نااہل سیاست دان اس اتھرے گھوڑے پر سوار تھے جس کی لگام ان کے ہاتھ میں ہونے کے باوجود اس پر قابو پانے میں ناکام رہے اور آج ان کا تجربہ اور اہلیت دونوں ان کا منہ چڑا رہے ہیں۔

”مغربی استعمار کے اس غلبے کا سب سے زیادہ تباہ کن نتیجہ ہماری ذہنی شکست اور ہمارے اخلاقی بگاڑ کی شکل میں رونما ہوا۔اگر یہ مستعمرین ہمیں لوٹ کر بالکل غارت کر دیتے اور قتل عام کر کے ہماری نسلوں کو مٹا دیتے تب بھی یہ اتنا بڑا ظلم نہ ہو تا جتنا بڑا ظلم انہوں نے اپنی تہذیب و ثقافت اور اپنے اخلاقی مفاسد پھیلا کر ہم پر ڈھایا۔جن جن مسلمان ملکوں پر ان کا تسلط ہوا وہاں ان سب کی مشترک پالیسی یہ رہی کہ وہاں کے آزاد نظام تعلیم کو ختم کر دیں، یا اگر وہ پو ری طرح ختم نہ کر سکیں تو اس سے فارغ ہو کر نکلنے والوں کے لیے حیات اجتماعی میں کوئی مصروفیت باقی نہ رہنے دیں۔اسی طرح یہ بھی ان کی پالیسی کا ایک لازمی جز  و    رہا ہے کہ مفتوح قوموں کی اپنی زبانوں کو ذریعہ تعلیم اور سرکاری زبان کی حیثیت سے باقی نہ رہنے دیں اور ان کی جگہ فاتحین کی زبانوں کو ذریعہ تعلیم بنادیں اور سرکاری زبان بھی قرار دے دیں۔ مستعمرین کی مستقل پالیسی رہی ہے کہ جو لوگ اس رنگ میں جتنے زیادہ رنگ جائیں اور اسلام کے اثرات سے جس قدر زیادہ عاری او ر دور ہوں ، ان کو زندگی کے ہر شعبے میں اتنا ہی زیادہ بلند مرتبہ دیا جائے۔

اس پالیسی کا نتیجہ یہ ہوا اور اس کا لازمی نتیجہ یہی ہو نا چاہیے تھا کہ سلطنتوں میں اونچے سے اونچے عہدے ان ہی کو ملے۔فوجی اور سول ملازمتوں میں یہی کلیدی مناصب پر پہنچے۔سیاست میں انہی کو اہم حیثیت حاصل ہوئی۔ سیاسی تحریکوں کے یہی لیڈر بنے۔پارلیمنٹ میں یہی نمائندے بن کر پہنچے اور مسلمان ملکوں کی معاشی زندگی پر بھی یہی چھاگئے۔اس کے بعد جب مسلمان ملکوں میں آزادی کی تحریکیں اٹھناشروع ہوئیں تو ناگزیر تھا کہ ان تحریکوں کی قیادت یہی لوگ کریں،کیونکہ یہی حکمرانوں کی زبان میں بات کر سکتے تھے،یہی ان کے مزاج کو سمجھتے تھے، اور یہی ان سے قریب تر تھے۔اسی طرح جب یہ ممالک آزاد ہونے شروع ہوئے تو اقتدار بھی انہی کے ہاتھوں میں منتقل ہوا اور مستعمرین کی خلافت انہی کو نصیب ہوئی کیونکہ مستعمرین کے تحت سیاسی نفوذ  واثر انہی کو حاصل تھا،سول حکومت کا نظم و نسق یہی چلا رہے تھے اور افواج میں بھی قیادت کے مناصب پر یہی فائز تھے۔ (تفہیمات۔مولانا مودودی)

ٹیکنوکریٹ حکومت کے مخالفین :-
آج کے سیاستدان نے۷۰ سال کے بعد بھی کچھ نہیں سیکھا اور اسی طرح غرور و تکبر کے اسی گھوڑے پر سفر جاری رکھا ہوا ہے۔ حکمرانوں کو اپنی نالائقی کو چھپانے کے لیے چند ایسے افراد کی ضرورت ہو تی ہے جو ان کے لئے کام کریں۔حکمرانوں کی چاپلوسی کرنے کے لیے ہمیشہ ایک گروہ ایسا پایا جاتا ہے جو مدح و توصیف کے پل باندھ کر لیڈران قوم کی خوشامد کر تا ہے۔ اس قبیل کے سردار جناب عطاالحق قاسمی سر فہرست ہیں۔ان کے حق میں عبارتیں تحریر کرنا  اور تعریف میں خوب جھوٹ سے کام لینا ان کی زندگی کا واحد مقصد  معلو م ہو تا ہے۔ ظالم و جابر  اور جاہل حکام کو عدل و انصاف کا علمبردار اور ڈرپوک اور بزدل افراد کو بہادر و سورما ثابت کرنے میں ذرا تردد نہیں کرتے۔ان کا مقصد صرف اور صرف اپنی دنیا کمانا ہوتا ہے۔اور جھوٹ کی یہ بدترین قسم ہے۔اللہ کے رسول  نے ایسے چال بازوں کو دھتکارنے اور رسوا کرنے کا حکم دیا ہے۔اور فرمایا”جب تم مدح سرائی میں مبالغہ کرنے والوں کو دیکھو تو ان کے چہروں پر مٹی پھینکو“ (صحیح مسلم: کتاب الزھد۰۰۰۰الخ:۷۵۰۶)۔

یہ فریضہ ابصار عالم، نجم سیٹھی، امتیاز عالم، نذیرناجی جیسے مغربی سیاست زدہ کو سونپا گیا کہ یہ لوگ حق وانصاف کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ، اسی  قبیل کے سردار جناب عطاالحق قاسمی سر فہرست ہیں جوعام سادہ لوح لوگوں کو اپنے فرسودہ خیالات سے ڈراتے اور خوفزدہ کرنے کارنامہ سر انجام دینے میں لگے ہوئے ہیں۔ اور اپنے آپ کو نیوٹرل کہتے ہیں،یہ  اس سیاست کے داعی جو ہر حکومت سے پلاٹ لینے اور ان کے گن گانے کے ماہر ہیں۔ او ر پتہ لگ جانے پر اپنے ہی صحافی بھا ئیوں پر گالی گلوچ کی انتہا کر دیتے ہیں( نذیر ناجی کی آوازآج بھی نیٹ پرموجود ہے)۔ یہ لوگ تصور رکھتے ہیں کہ موجودہ پارلیمانی نظام کے اندر رہ کر اس نظام کو تبدیل کیا جائے جو ناممکن ہے۔آج کل یہ لوگ اور بھی زیادہ متحرک ہو گئے ہیں کیونکہ ان کی پشت پناہی کرنے والوں کی گردنوں پر عدلیہ کا ہاتھ آ ن پہنچا ہے۔

موجودہ پارلیمانی جمہوری نظام کی ناکامی۔ :

اس میں حلقوں کی سیاست پیسے کی بنیاد پر کی جاتی ہے جس میں شخصیت جیتتی ہے اور نظریہ ہار جاتا ، اسی نظام نے سیاسی بت پیدا کر دیے ہیں جن کی بدولت ہمارا ملک اس حالت کو پہنچا ہے اس نظام اور سیاسی بتوں نے مل کر ملک کی تباہی میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے یہ سیاسی بت اس نظام کے تحفظ کی جنگ لڑرہے ہیں اس کو بچانے کی سر توڑ کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ اگر پاکستان میں نظام تبدیل کرنا ہے تو پہلے اس نظام کا حصہ بنیں بعد میں اصلاح کریں۔ اب اس سے ان کی عقل اور علم ودانش، فہم و فراست کا اندازہ کر لیں۔ ان کے مطابق پہلے دوسرے چوروں کے ساتھ مل کر اپنے ہاتھ چوری سے رنگے، حرام کھائے اور پھر نظام کو درست کرے۔کیا کسی چور نے بھی چو ر کو پکڑا ہے۔

دوسری طرف محترم جناب سمیع اللہ ملک، ہارون رشید، اوریا مقبول جان، ڈاکٹر شاہد مسعودِ ، ارشد شریف ،کاشف عباسی ، عارف حمید بھٹی جیسے قابل احترام صحافی موجود ہیں جن کی عزت کرنے کو جی چاہتا ہے جو کہ اپنا مثبت کردار ادا کر رہے ہیں مگر ایمان دار اپنی عددی کمزوری کی وجہ سے ایماندار کا ساتھ دینے میں جرآت کا مظاہرہ نہیں کرپارہے۔ موجودہ حکومت اس کی زندہ مثال ہے جس میں ایک چور دوسرے چو رکا بڑی ایمانداری سے ساتھ دے رہاہے۔آج کی اسمبلی میں موجود سیاستدان ٹیکنوکریٹ حکومت کے مخالف اس لیے ہیں کہ اس نئے سیٹ اپ میں ان کی کوئی جگہ نہیں بنتی اوران کو یہ وہم ہوگیا ہے کہ ان کے بغیرملک چل نہیں سکتا حقیقت اس کے بر خلاف بلکہ ملک بہت بہتر انداز میں چل سکتا ہے ، اللہ کے ہاں اخلاص کی قدر ہے تعداد کی نہیں۔قرآن میں بیشتر مقامات پر اللہ نے اکثریت کی نفی کی ہے کہ اکثریت ناسمجھ ہے اورجلد باز ہے۔

صدارتی نظام کیوں بہتر ہے۔:

اس نظام میں ایک فرد اپنے نظریہ اور پروگرام عوام کے سامنے پیش کرتا ہے اور اس کی بنیاد پرعوام سے براہ راست ووٹ لے کر منتخب ہوتاہے۔وہ اپنی ٹیم کی سلیکشن اور اپنے پروگرام کی کامیابی کا ذمہ دار ہوتا ہے اس لئے ایسی ٹیم کا انتخاب کرتا ہے جو اس کے نظریہ اور پروگرام کو کامیاب کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ناکامی کی صورت میں عوام کو براہ راست جوابدہ ہوتاہے۔
جو سیاستدان بنے بیٹھے ہیں ان کو بے وقوف کہوں،مفاد پرست ٹولہ، سطحی سوچ والا مفکر، بزدل سمجھوں، پڑھا لکھا جاہل سمجھوں یا ایک محب وطن پاکستانی یا سادہ لوح انسان جسے وطن کی محبت میں کچھ سجھائی نہیں دیتا، جسے اپنی زبان اور دماغ پر کنٹرول نہیں اپنے آپ کو بڑا سچا ،کھرا ، عقلمند ذہین فطین اور دانشور سمجھتے ہیں ( پر ہیں نہیں،سب بت پرست ہیں ) تجزیے اور تمسخر کے لیے ایسی مثالیں گھڑ لاتے ہیں کہ اللہ کی پناہ۔ اور جب ان سے کہا جائے  کہ مسئلے کا حل دیں تو بغلیں جھانکنا شروع کر دیتے ہیں، اگر ان سیاستدانوں میں کوئی اہلیت ہوتی تو ہمارا ملک آج اس حال کو نہ پہنچتا۔یہ تنقید براے تنقید کر کے ملک کی کیا خدمت کر رہے ہیں۔جس کو یہ سیاست سمجھتے ہیں وہ صرف جھوٹ، دھوکا ، فراڈ کا نام ہے جو ملک کو انارکی کی طرف لے کر جاتا ہے۔ دلدل میں پھنسے ہوئے کی یہ سوچ تو ہو سکتی ہے مگر ملک اورنظام کو بچانے والے(ا فواج پاکستان اور عدلیہ) کی نہیں۔پاکستان جس نہج پر پہنچ چکا ہے ان نا اہل حکومتوں کی وجہ سے اس کا حل صرف اور صرف ایک قومی یا ٹیکنوکریٹ حکومت ہی ہے جو اس مغربی سیاست سے چھٹکارہ دلا کر ملک کو دلدل سے نکال سکتی ہے۔

اس وقت ٹیکنوکریٹ حکومت کی تشکیل اور اہمیت :

مدعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے

وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے۔
اوپر کے حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے شخصیت پرستی کے بت کو جب تک پاش پاش نہ کیا جائے گا محفوظ اور مضبوط پاکستان کا خواب خواب ہی رہے گا۔ اللہ تعالیٰ نے اس موجودہ دفاعی و عدالتی قیادت کو ملک کی سمت درست کر نے اور آنے والی نسلوں کی تقدیر بدلنے کا تاریخی موقع دیا ہے اور اگر یہ لوگ ایسا کرنے میں ناکام ہوتے ہیں تو یہ ان کی اپنی ذاتی ناکامی تصور ہوگی۔ اللہ اپنا حکم نافذ کرنے میں کسی کا محتاج نہیں وہ جن کو چاہتا ہے ان سے کام لے لیتا ہے۔ بانی پاکستان قائد اعظم اس کی زندہ مثال ہیں۔ کسی بھی ریاست کے وجود کے ضامن اللہ کے بعد د و ادارے ہوتے ہیں۔ ایک فوج اور دوسرا سپریم کورٹ، اگر یہ دو ادارے اپنی ذمہ داری سے کام سرانجام دے رہے ہوں توریاست کو کوئی ( اندرونی و بیرونی)نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ان اداروں کی کمزوری ملک میں ہر قسم کے انتشارکو تقویت دیتی ہے۔ بعد میں جس کو سمیٹنا بہت مشکل ہوجاتا ہے، جیسا کہ اس وقت پاکستان کا حال ہے۔ اب ان دونوں اداروں کی اولین ذمہ داری ہے کہ باہمی تعاون سے تین سالہ قومی حکومت کو تشکیل دے کر، اس کو تحفظ دینااور اس کی پرفارمنس کی راہ میں رکاوٹوں کو دور کرنا ہے،خواہ وہ کسی طرف سے ہی آئیں۔

جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے اس حکومت کا مقصدپہلے مرحلے میں احتساب کرنا اوردوسرے میں شفاف انتخاب کرانا لازم ہوگا۔ جیسے ہی قومی حکومت کی بات سامنے آئے گی موجودہ سیاستدان میدان میں آجائیں گے اور احتساب کے مرحلے کو الجھانے کی کوشش کریں گے۔ان کو پتہ ہے عوام میں شعور نامی کوئی چیز انہوں نے پیدا نہیں کی اور بڑے اعتماد سے سب سے پہلاجھوٹ اور اعتراض کریں گے کہ یہ غیر آئینی ہے۔ جبکہ یہ بالکل ۱۰۰ فیصد آئینی ہے اوریہ کام صدر پاکستان درج ذیل آئینی شقوں کے ذریعے اس کا اعلان کر سکتے ہیں۔فوج اور سپریم کورٹ کو ان کے حکم کو بجا لانے کے لئے تیار رہنا ہوگا۔صدر کے اس آئینی اقدام کے بعد یہ سیاستدان بجھتے ہوئے چراغ کی طرح لمبی چیخیں مارنے کے بعد اپنے انجام کو پہنچیں گے۔
بنیادی حقوق کا حصول اور تحفظ ہر پاکستانی کا حق ہے اور صدر کی ریاست کے سربراہ کی حیثیت سے آئینی و اخلاقی ذمہ داری ہے کہ جب حالات عوامی فلاح و بہبود کے خلاف ہوں وہ آیئن میں موجود درجہ ذیل اختیارات کو بروئے کار لا کر خصوصی اقدامات کرے۔وہ آئین پاکستان کی تمہید،ابتدائیہ، مملکت سے وفاداری ۵۔(۱،۲)، بنیادی حقوق ۸(۲) ، (۹)، آرٹیکل ۴۲ ،اور آرٹیکل ۴۸۔۲شق(۱) اور آرٹیکل ۴۸ شق(۶) آرٹیکل ۱۸۶(۱)، ۱۹۰، ۱۹۹، ۲۴۳۔(۱)(۱۔الف) آرٹیکل۲۴۴،کے تحت ایک آرڈیننس کے ذریعے یہ اختیارات ان دو(افواج پاکستان اور سپریم کورٹ) اداروں کو تفویض کریں گے۔

تمہید:۔جس میں بنیادی حقوق کی ضمانت دی جائے گی اور ان حقوق میں قانون اور اخلاق عامہ کے تابع حیثیت اور مواقع میں مساوات،قانون کی نظر میں برابری ،معاشرتی ، معاشی اور سیاسی انصاف اور خیال اظہار،دین، عبادت اور اجتماع کی آزادی شامل ہوگی۔

ابتدائیہ:۔۴(۲،۱، الف، ب،ج)ہر شہری کا خواہ کہیں بھی ہو،اور کسی دوسرے شخص کا جو فی الوقت پاکستان میں ہو،یہ نا قابلِ انتقال حق ہے کہ اسے قانون کا تحفظ حاصل ہو،اور اس کے ساتھ قانون کے مطابق سلوق کیا جائے گا۔

بنیادی حقوق:۔مملکت کوئی ایسا قانون وضع نہیں کرے گی جوبایں طور عطا کردہ حقوق کو سلب یا کم کرے اورہر وہ قانون جو اس شق کی خلاف ورزی میں وضع کیا جائے اس خلاف ورزی کی حد تک کالعدم ہو گا۔۹:۔فرد کی سلامتی کسی شخص کو ،زندگی یا آزادی سے محروم نہیں کیا جائے گا سوائے جبکہ قانون اس کی اجازت دے۔

صدر کے اختیارات: آرٹیکل ۴۲ جلد سوئم حلف ، آرٹیکل ۴۸۔۲شق(۱۔ میں شامل کسی امر کے باوجود صدر کسی ایسے معاملے کی نسبت جس کے بارے میں دستور کی رو سے اسے ایسا کرنے کا اختیار دیا گیا ہے ،اپنی صوابدید پرعمل کرئے گا۔اور کسی ایسی چیز کے جواز پر جو صدر نے اپنی صوابدید پر کی ہو کسی وجہ سے خواہ کچھ بھی ہو اعتراض نہیں کیا جائے گا ) اور آرٹیکل ۴۸ شق(۶۔اگر صدر کسی بھی وقت،اپنی صوابدید پر، یا وزیراعظم کے مشورے پر، یہ سمجھے کہ یہ مناسب ہے کہ قومی اہمیت کے کسی معاملے کو ریفرنڈم کے حوالے کیا جائے تو صدر اس معاملے کو ایک ایسے سوال کی شکل میں جس کا جواب یا تو”ہاں“یا”ناں“ میں دیا جاسکتا ہو ریفرنڈم کے حوالے کرنے کا حکم دے گا۔)
آرٹیکل۱۸۶(۱،۲) اگر‘کسی وقت‘صدر مناسب خیال کرئے کہ کسی قانونی مسئلہ کے بارے میں جس کو وہ عوامی اہمیت کا حامل خیال کرتا ہو‘عدالت عظمیٰ کی رائے حاصل کی جائے ‘ تو وہ اس مسئلے کو عدالت عظمیٰ کے غور کے لئے بھیج سکے گا۔(۲) اور عدالت صدر کو اس مسئلے کے بارے میں اپنی رائے سے مطلع کرے گی۔

ٹیکنوکریٹ حکومت کے اہداف درجہ ذیل ہونگے :
۔ انصاف کی بروقت فراہمی کو یقینی بناکر امن و امان کو بحال رکھنا۔
۔ انصاف کی بروقت فراہمی کو یقینی بناکر کرپشن کو جڑ سے اکھاڑنا۔
۔سیاسی بت پرستی ختم کرنے کے لئے لائحہ عمل طے کرنا۔(پارلیمانی کو صدارتی نظام سے بدلنا)
۔صاف اور شفاف انتخابات منعقد کرنا۔
سپریم کورٹ اور افواج پاکستان کا کردار آیئن پاکستان کے مطابق رہےگا :
۔ ان دو اداروں کے باہمی اتفاق سے منتخب کردہ ٹیم کی کامیابی کو یقینی بنانا ان کی اولین ذمہ داری ہے۔
۔ ٹیکنوکریٹ حکومت کے اہداف کے حصول کے لئے حکومت کے اقدامات کو عملی جامعہ پہنانے میں جو بھی رکاوٹ آئے اس کو دور کرنا اور نفاذ کو یقینی بنانا۔
۔ یہ دونوں ادارے آیئن کے مطابق مدد فراہم کرنے کے پابند ہوں گے۔
۔اس آرڈیننس کے بعد یہ (تھنک ٹینک) اپنا کام شروع کریں گے اور ایسی حکومتی ٹیم کو منتخب کریں گے جو دینی اور دنیاوی علم و شعور کے ساتھ ساتھ معاشرے میں اچھی شہرت کے حامل ہوں اور دیگر اپنے فرایض منصبی کو آئینی دایرے میں رہ کر ادا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں تاکہ ان کی کاوشوں سے ملک کی سمت درست ہو سکے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تھنک ٹینک: قومی حکومت میں فیصلے کااختیار صرف ایک تھنک ٹینک کو ہوگا اور انکے فیصلوں کو حکومتی عہدیدار عملی طور پر نافذ کرنے کے پابند ہوں گے۔فوج اور سپریم کورٹ صرف تھنک ٹینک کو مشاورت دے سکتے ہیں اور ان کے فیصلوں کے نفاذ میں اپنا کردار ادا کریں گے، مگر کسی قسم کے احکامات نہیں دے سکیں گے۔
میری نظر میں ایک ایسی ٹیم موجود ہے جو اپنے ملک کو درست راستے پر ڈالنے کی اہلیت و صلاحیت رکھتی ہے اور ہر کوشش کرنے کو ہر وقت تیار ہے۔ پاکستان اسے محب وطن افراد میں خود کفیل ہے جو ملک کے لیے ہر خدمت انجام دینے کے لیے ہمہ وقت دستیاب ہیں۔جوریاست و آئین پاکستان پر مکمل یقین رکھتے ہیں اور آنے والی نسلوں کو ایک محفوظ اور مضبوط پاکستان دینے کے آرزومند ہیں۔ خدا کرے کہ یہ کام افواج پاکستان اور سپریم کورٹ کی زیر نگرانی ہو، اور مجھے یقین ہے کہ یہ صدر پاکستان جناب ممنون حسین، جناب جنرل قمر جاوید باجوہ اور جناب ثاقب نثار کے ہاتھوں ہوگا انشااللہ۔
( بقول اقبال ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply