• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • سب سے بڑی عریانی ، فحاشی ، بے حیائی اور بے پردگی۔۔محمد وقاص رشید

سب سے بڑی عریانی ، فحاشی ، بے حیائی اور بے پردگی۔۔محمد وقاص رشید

سانحہ مینارِ پاکستان کے ہنگام ہر دفعہ کی طرح ملک میں لبرل اور مذہبی کی ایک ہیجان خیز بحث جاری ہے۔ ریاست اس بحث سے بہت لطف اندوز ہوتی ہے  کیونکہ اس کا سب سے زیادہ فائدہ اسی کو ہوتا ہے  کہ سارے قضیے میں سب سے اہم کردار ہونے کے باوجود ذمہ داری کے اور فرض کے تعین میں   اس کی طرف کسی کا دھیان نہیں جاتا ۔یہ ایسا ہی ہے کہ لبرل اور مذہبی دونوں طبقات کو یہ سمجھنا ہو گا کہ اختلافِ رائے کے سنگ اپنے اپنے عقائد لیے ایک دوسرے کے احترام کے ساتھ پُر امن طریقے سے رہنا ہی ایک انسانی سماج کی تعریف ہے ۔ہر سماجی سانحے پر ایک دوسرے کے خلاف منہ سے جھاگ گرا کر ہم اپنی اپنی انا کو تسکین تو دے سکتے ہیں لیکن اس سے سوائے ایک منافرت کی خلیج قائم ہونے کے کچھ بھی نہیں ہوتا اور یہ خلیج اس قومی یکجہتی کو نقصان پہنچاتی ہے جو ان سانحات کے حل کیلئے بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔

آپ اندازہ لگائیے کہ کتنے بڑے کرب کی بات ہے کہ کائنات کے آفاقی مقدسات کے بعد سب سے زیادہ مقدس شے ایک عورت کی عصمت ہے اور ہمارے قومی شعور کاعالم یہ ہے کہ یہاں آئے روز یہ لرزہ خیز وارداتیں ہوتی  ہیں اس ملت کی بیٹیوں کی عزتیں تار تار کی جاتی ہیں اور ہم میں سے ایک مکتبہ ءِ فکر اسے پردے اور بے پردگی سے جوڑ تا ہے دوسرا اسے victim blaming کہتا ہے ۔ ایک دوسرے پر سوشل میڈیا کے ذریعے لعن طعن کی جاتی ہے دو چار دن واویلا ہوتا ہے اور اگلی خبر آنے تک لوگ دوبارہ اپنے خون پسینے کی کمائیوں اور دیہاڑیوں سے خاموشی سے انہیں پالنے میں مصروف ہو جاتے ہیں جو کہ یہاں دھرتی کی ماؤں ،بہنوں ،بیٹیوں کی عصمتوں کی حفاظت پر مامور ہیں ۔

یوں عوام کے آپس میں دست و گریباں ہونے کا سب سے زیادہ فائدہ انہی ریاستی اداروں کو ہوتا ہے کیونکہ ہم آپس میں ایک دوسرے پر ٹھٹھہ کر کے ،جگتیں کر کے ایک دوسرے پر ریاستی نظام کا بنایا کیچڑ اچھال کر اپنے اپنے حال میں مگن ہو جاتے ہیں اور ہوس کے مارے ہوئے گِدھ ملت کی کسی اور بیٹی یا حتی کہ کمسن بچے یا بچی کو نوچنے کے لیے پر پھیلا لیتے ہیں۔ اسی لیے ان کے سربراہان اور ذمہ داران ہمیشہ ایسی باتیں کرتے ملیں گے جس سے قصور اور ذمہ داری کا بوجھ ییچارے مظلوم پہ ہی پڑے۔

شومئی قسمت کہ یہاں بھی ہمارا نفاق ہمیں تباہ و برباد کیے جا رہا ہے ۔ہوس میں لتھڑے ہوئے ہاتھ جب کسی پاکستانی ملت کی بیٹی کی طرف بڑھتے ہیں تو ان کے  درمیان لبرل ،مذہبی کی کوئی تفریق نہیں ہوتی ۔خود اپنی گاڑی چلانے والی سانحہ موٹر وے کی اونچے طبقے کی محترم خاتون ہو یا سانحہ مہوٹہ موہڑہ کی ایک محترم غریب بھکارن ۔راولپنڈی کے مدرسے کی معصوم حافظہ بچی ہو یا پشاور ہونیورسٹی کی مقدس طالبہ۔۔ ظالم ہماری ان بیٹیوں میں فرق نہیں کرتے۔ ۔لیکن بد بختی ہے کہ ہم مظلوم جن کی بیٹیاں مائیں بہنیں بیویاں اس ظلم کا شکار ہوتی ہیں فوراً مذہبی ،لبرل کی تقسیم میں پڑ کر اپنی طاقت کھو دیتے ہیں اور ظلم جاری رہتا ہے۔

کاش ہمارا شعور اتنا تو بالیدہ ہو پائے اور ہم اس ہیجان کا شکار نہ ہوں جس سے ہماری آنکھوں پر یہ پٹی بندھ جاتی ہے ۔ ہمارے کانوں میں اسی منافرت کی روئی دھنس جاتی ہے اور ہم وہ سب سے اہم خبر نہیں سن اور دیکھ پاتے جس میں اس ملت کی بیٹیوں کے اصل مجرم چھپے ہوتے ہیں ۔ خدا کا واسطہ عقل کرو اس قوم کے لوگو۔۔   لبرل اور مذہبی کی بہن بیٹی ماں بیوی ایک جتنی عصمت والی ہوتی ہے۔ خبر سننا چاہو گے ؟
یہ خبر اکثرو بیشتر سانحات میں مشترک ہوتی ہے کوئی سنے تو کوئی غور کرے تو۔  ہم میں اتنا شعور پروان چڑھے تو۔۔۔
کون تھی زینب ؟ لبرل تھی یا مذہبی۔۔  بیٹی تھی بیٹی۔۔ اس کا جنسی درندہ قاتل پہلے بھی بچوں کے ساتھ یہ بربریت کر چکا تھا۔

کون تھا وہ عابد جس نے موٹر وے پر ہمارےذہنوں کے علاوہ پوری کائنات کو ہلا دیا ایک ماں کو بچوں کے سامنے اپنی بربریت کا نشانہ بنا کر ۔وہ اپنے علاقے میں ایک غریب کی بیٹی کو گھر میں داخل ہو کر اسکے سامنے اسی طرح جنسی حیوانیت کا نشانہ بنا چکا تھا ۔

راولپنڈی پیر ودھائی کے مدرسہ میں وہ یتیم حافظہ بچی جس سے اسکے بقول عشرت نامی عورت کی موجودگی اور اعانت سے مفتی شاہنواز نامی شیطان نے زیادتی کی اس معصوم بچی کے بقول اس شیطان کی زیادتی کی وجہ سے ایک معصوم طالبہ کی بیٹی پیدا ہوئی ۔ لیکن کوئی کاروائی نہیں کی گئی۔

کون تھا وہ مہوٹہ موہڑہ کا حیوان صفت بھیڑیا جس نے ماں سے زیادتی کرتے ہوئے 14 ماہ کے بچے کو رونے چلانے پر خنجر مار دیا اور اسکے بعد ماں کو بھی مار دیا۔ ۔ پہلے سے عادی مجرم۔۔۔ ۔
اور کل رات دل پھٹ گیا میرا یہ خبر سن کر کہ لاہور رنگ روڈ پر 36 سالہ محترمہ ماں اور چودہ سالہ معصوم و مطہر بیٹی کو ایک دوسرے کے سامنے زیادتی کا نشانہ بنا کر اپنا ہی نہیں پوری انسانیت کا منہ کالا کرنے والے رکشہ ڈرائیورز پہلے سے دو اسی طرح کے جرائم میں پولیس کو مطلوب تھے۔

کتنی آرام سے یہ خبر دے دی جاتی ہے۔۔۔ ضمانت پر تھے، مفرور تھے، بچ گئے تھے، چھوٹ گئے تھے، صلح ہو گئی تھی، اے لبرلو اے مذہبیو خدا کے لیے غور کرو کیا مطلب ہے اس خبر کا ۔ بتاؤں ؟
جی ہاں۔ ۔ آپ جو بھی سانحہ اور حادثہ اٹھا کر دیکھ لیں اگر آپ کی آنکھوں سے منافرت کی پٹی اتر گئی ہو تو غور فرما لیں ۔خدارا اپنی بیٹیوں کی عصمت کی بقا اور تحفظ کے لیے اس مذہبی /لبرل کی تقسیم اور عصبیت سے اوپر اٹھ کر غور کر لیں ۔یہ ایک تلخ ترین زمینی حقیقت ہے ۔

آئیں مل کر پوچھیں اپنی اس ریاست سے کہ اُس پہلے انسانیت سوز جرم کے بعد مجرم کو کیا زینب کے قتل لیے چھوڑا ،عابد نامی سفاک درندے کو غریب کی بیٹی سے ظلم کرنے کے بعد کیا سانحہ موٹر وے کے لیے صلح کرنے دی ،جس کو مجبور ہوں میں (معذرت کے ساتھ) دلالی کہنے پر ، راولپنڈی کے شیطان صفت ملاں کو جو سارا دن حیا حیا کرتے نہیں تھکتا اسکو ایک بچی سے ظلم کرنے  کے بعد جکڑ کر دوسری معصومہ کی عصمت کیوں نہیں محفوظ بنائی گئی ،یونیورسٹی کے اس چانسلر کو کیوں نہیں اولین شکایات موصول ہونے کے بعد نکیل ڈال کر مزید حرمتیں بچا لی گئیں اور لاہور رنگ روڈ کے ان درندہ صفت رکشہ ڈرائیوروں کو کیا ان ماں بیٹی کی عصمتیں پامال کرنے کے لیے کھلا چھوڑا گیا تھا ؟ ۔

پچھلے دورِ حکومت میں زینب کے والد کا مائیک بند کرنے اور اسکی لاش کا دس ہزار روپیہ مانگنے والوں کے لئے غمزدہ باپ سے تالیاں بجوانے سے لے کر موجودہ دورِ حکومت میں ہوس کے پجاریوں کو “کوئی روبوٹ تو نہیں ” کہنے تک۔ ۔ یہ ریاستی نظام بے حسی اور بے ضمیری کا ایک متعفن ترین نظام ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کیونکہ ہوس کے پجاریوں کے لیے اور انہیں آزاد چھوڑتے اس ریاستی نظام کے لیے مذہبی کی بیٹی اور لبرل کی بیٹی کا فرق نہیں ہے اس لیے اب وقت آگیا ہے کہ ہم بھی رسول اللہ ص کے مشرک کی بیٹی کو کہے گئے عظیم الفاظ “بیٹی تو ہے ناں ” کے مصداق اپنی ملت کی بیٹیوں میں فرق کرنا چھوڑیں اور ریاست سے پوچھیں کہ اسکے نظام کو چلانے والو جواب دو کہ ہمارے خون پسینے اور دیہاڑیوں سے تمہارے محلات میں موجود تمہاری عصمتوں کی حفاظت پر مامور یہ پولیس یہ سکیورٹی کے ادارے ملت کی ایک بیٹی کے سیالکوٹ موٹر وے پر آواز دینے پر بھی وہاں کیوں نہیں پہنچے تھے۔۔۔کیا سارا سال تمہاری ہر تقریب پر تمہارے نجی فنکشنز پر تعینات پورے دیس کی پولیس میں سے قومی جشنِ آزادی پر مینارِ پاکستان پر قوم کی ماؤں بہنوں بیٹیوں کے لئے دو محافظ بھی نہیں تعینات ہو سکتے تھے ؟ ۔ہاں اگر نہیں ہو سکتے تھے اگر اس نظام کے لیے ہم لبرل ہوں یا مذہبی ہماری عصمتیں ہماری عزتیں اور ہماری حرمتیں اتنی ارزاں ہیں کہ کسی ایک کی بیٹی کی بے حرمتی کرکے اسے زندہ درگور کرنے والا وحشی کسی دوسری بیٹی کی عصمت دری کرنے کے لیے چھوڑ دیا جائے تو ہم اسے سب سے بڑی فحاشی قرار دیتے ہیں جو بھیڑیا ایک بہن کی ناموس کی ضمانت ضبط کرے ، کسی دوسری بہن کی حرمت پامال کرنے کو اسکی ضمانت لے لی جائے ہم اسے سب سے بڑی عریانی کا نام دیتے ہیں اور جو ایک ماں کے سر سے دستار کھینچے اس سے کسی دوسری ماں کی دستار پر اپنے مکروہ ہاتھ ڈالنے کے لئے صلح کر لی جائے تو ہم اسے سب سے بڑی بے پردگی سے تعبیر کرتے ہیں ۔ ہم تمام لبرل اور مذہبی ،آپس میں لڑنے کی بجائے تمام اختلافات بھلا کر اس ملت کی بیٹیوں کی حرمت کے لئے اس نظام کی تبدیلی کا مطالبہ کرتے ہیں۔۔وہ نظام جس میں ریاست مذہبی لبرل کو تقسیم کرنے اور اس لڑائی کے پیچھے چھپنے کی بجائے یہ بتائے کہ ملت کی بیٹی کی ناموس کی حفاظت کیوں نہیں کر سکی وہ ناموس جو لبرل اور مذہبی کی بیٹی کی ایک جیسی ہے کیونکہ ۔ “وہ بیٹی تو ہے “

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply