مزاح کہتے تھے جسے۔۔ذیشان محمود

پنجاب آکر معلوم ہوا  کہ یہاں مِزاح کو جگت بازی کہتے ہیں لیکن جیسے مزاح اور مذاق میں فرق ہے اسی طرح مزاح اور جگت بازی میں بھی زمین و آسمان کا فرق ہے۔ مذاق تو تفننِ طبع کے لئے اور شاید بچوں کو ہنسانے کے لئے ایک معمولی سا جملہ یا بات بن کر رہ گیا ہے جبکہ مزاح تو وہ ہے جو شائستگی اور ادب کے دائرہ میں آپ کے قلب و ذہن میں احساسِ نفاست و سرور اور شگفتگی پیدا کردے۔

بچپن میں ہمیں کوئی لطیفہ سنانے کو کہتا تو ہم فوراً کہتے کہ “لطیف کی بیگم کا نام ہے لطیفہ”۔ یا اندھے بہرے، کنجوس، پاگل، بیوقوف، امیر غریب، بادشاہ وزیر یا باپ بیٹے کے لطائف سناتے۔ اخبارِ جہاں، نونہال، تعلیم و تربیت سے لطائف پڑھتے۔ ہاں بعض ڈائجسٹ یا اخبار جہاں کے کٹ پیس وغیرہ میں نسبتاً بڑوں کے لطائف شامل ہوتے لیکن ان کا معیار بھی اتنا گرا ہوا نہ ہوتا تھا۔ ہم کلاس میں کسی کی ذات یا علاقہ کا نام لے کر لطیفہ شروع کرتے تو ہمیں منع کیا جاتا کہ کسی کی ذات ، قوم، علاقے کا ذکر نہیں کرنا چاہیے بلکہ ایک شخص یا ایک جگہ کہہ کر لطیفہ بیان کرنا ہے۔

ہمارے ایک استاد محترم (اللہ تعالیٰ انہیں صحت و سلامتی والی لمبی زندگی عطا فرمائے) لطیفوں کی ایک جیبی ڈائری ہمیشہ پاس رکھتے تھے اور بقول انور مسعود کہ بعض لوگوں میں ظرافت بھری ہوتی ہے۔ ہمارے یہ استاد محترم بھی نہایت درجے خوش مزاج، ظریف الطبع اور بذلہ سنج واقع ہوئے تھے۔ کوئی پانی پینے کا پوچھے تو لطیفہ، کوئی واش روم کا پوچھے تو لطیفہ۔ عینک، قلم، کاپی، جرسی، بال، ٹوپی، آنا، جانا، اٹھنا، بیٹھنا، لکھنا غرضیکہ ہر لفظ پر ایک لطیفہ ان کو یاد آجاتا۔ لیکن ہم اسے قطعاً جگت نہیں ٹھہرا سکتے تھے۔ وہ نہایت شُستہ اور برجستہ بات کہتے کہ پوری محفل کشتِ زعفران بن جاتی۔ اگر پورا پیریڈ کوئی لطیفہ یا مزاح نہ ہوتا تو آخری پانچ منٹ اصرار کر کے ان کی جیبی ڈائری کھلوائی جاتی اور پہلے سے سنے لطائف پر پھر دل کھول کر لوٹ پوٹ ہوا جاتا۔

سٹیج ڈراموں نے جگت بازی کے نام پر مذاق اور مزاح میں قباحت پیدا کردی اور پنجابی زبان کی وسعت نے اسے نہ صرف کھلے بانہوں قبول کیا بلکہ اپنے اندر سمو لیا۔ اپنے ماحول کے مطابق جگت بازی کے معیار قائم ہوئے اور اس پر علاقوں کے لحاظ سے بھی اثر پڑا۔ فیصل آباد کے رہنے والے تو اتنے بدنام ہوئے کہ ان کی کوئی بات بھی جگت سے خالی نہیں ہوتی۔

بہرحال پنجاب آکر معلوم ہوا کہ ہم جسے کنجوس کہتے تھے اسے یہاں شیخ اور امیر کو مَلَک کہا جاتا ہے۔ آرائیں بیچاروں کو غریب جبکہ ان کے مقابل چوہدری یا جٹ کے القابات کو تکبر، بڑے پن یا دوسروں سے برتر ہونے کے لئے جگتوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ باقی ذاتیں بھی جگتوں کا شکار رہیں بلکہ بعض نے تو اس پر نظمیں بھی بنا لیں جنہیں قبولیت عامہ یعنی وائرل ہونے کا شرف حاصل ہوا۔

جگت بازی کی جس قباحت کا ذکر کر رہا تھا وہ یہ کہ اس میں مزاح کو فحش گوئی کے علاوہ طعن و تشنیع اور استہزاء تک لے جانا اچھے جگت باز ہونے کی نشانی سمجھا جاتا ہے۔ رشتوں کی بے حرمتی حتیٰ کہ ماں باپ اور بہن تک کو نہیں بخشا جاتا۔ جسمانی ساخت اور خصوصاً چہرے یا منہ پر تو جاہلانہ اور vulgar یعنی فحش اور لچر جگت بازی ہوتی ہے۔
اردو میں تو خصوصاً مزاح ایک فن ہے جو عموماً شاعری کی طرح ودیعت ہوتا ہے۔ فرحت اللہ بیگ، مشتاق احمد یوسفی، ابن انشاء، شفیق الرحمن، سید محمد جعفری، پطرس بخاری اور آجکل انور مقصود اور ڈاکٹر یونس بٹ سمیت اردو کے مزاح نگاروں کی ایک لمبی فہرست ہے جن کی مزاح نگاری ایک سند کا درجہ رکھتی ہے۔ ان کی تحریروں میں زبان کے اعلی محاوروں کے استعمال اور ایک شستہ پن کی موجودگی کے سبب ان کی مزاح نگاری کو سبقاً بھی پڑھایا جاتا ہے۔

مشتاق یوسفی کی آبِ گم کا مزاح سمجھنے کے لئے اردو ادب سے بھی سُن گن ہونی ضروری ہے ورنہ ممکن نہیں کہ وہ مزاح آپ کو سمجھ بھی آئے۔ مشتاق یوسفی صرف سادہ مزاح نہیں لکھتے تھے بلکہ ان کی تحریر جغرافیہ، تاریخ، شاعری سمیت مختلف چیزوں کا مجموعہ ہوتی جس کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس کا تسلسل نہیں ٹوٹتا تھا۔
ان کی اعلیٰ درجہ کی مزاح نگاری کے سبب نقادوں اور استادوں دونوں نے انہیں بیسویں صدی کا مزاح نگار قرار دیا لیکن ساتھ یہ بھی کہا کہ اردو مزاح نگاری کو جتنا نقصان یوسفی نے پہنچایا اور کسی نے نہیں پہنچایا کیوں کہ انہوں نے ایسے اعلیٰ معیار قائم کردئیے کہ لوگ وہاں جاتے سہم جاتے ہیں اور اب وہاں پہنچنا مشکل ہی نظر آتا ہے۔ زمانے کی جدت نے جہاں مطالعہ کا شوق کم کیا وہیں یو ٹیوب سے ٹک ٹاک، فلموں سے سیزنز اور پھر ڈراموں سے ویب سیریز تک کے سفر میں کتاب صرف سکول تک رہ گئی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بقول یوسفی میں نے جو لکھا ہے دیکھنے کے لئے نہیں پڑھنے کے لئے لکھا ہے لیکن اب ان کی کتابیں الماریوں کی زینت بن جائیں گی یا صرف لائیبریری میں ملا کریں گی۔ مزاح نگاری پر اب جو لکھنے والے ہیں وہ یوسفی کو اگر معیار نہ بھی بنائیں تو اپنا معیار ہی بہتر کرلیں اور اردو کے مزاح کے زخیرہ کو وسیع کر دیں تاکہ مزاح نگاری کی میراث بھی بڑھتی رہے۔

Facebook Comments

ذیشان محمود
طالب علم اور ایک عام قاری

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply