مصنوعی خیالات ہمیں لے ڈوبتے ہیں۔۔شہزادہ احسن

جدید دور میں ہمارے خیالات شاید کہیں درجے بہتر ہوں ، اپنے سے بڑھ کر آگے کی سوچ رکھتے ہوں ۔ ایک جان دار اور مضبوط سوچ ہمیں زیرؤ سے ہیرو بنا دیتی ہے ۔ ہمارے مصنوعی خیالات ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑتے اور اگر وہ منفی سمت پر ہوں تو شاید پھر ہم کامیاب نہ ہو سکیں ۔ ہمارے خیالات اس میں کیسے مداخلت کرتے ہیں اور اس کی مدد سے کامیابی کیسے ممکن ہوتی ہے ، یہ ایک اہم پہلو ہے۔

ڈیل گارنیگی جن کی تحاریر آج بھی کامیابی کے لیے فائدہ مند رہی ہیں ۔ آج ان کی ہی کتاب سے ہم چند اہم پہلو ؤں کو  مدنظر رکھیں گے جس سے ہمیں یہ پتا چل سکے کہ کامیابی ہوتی کیا ہے اور اس کو ہم کیسے حاصل کر سکتے ہیں اور مصنوعی خیالات ہماری زندگی میں کیسی تبدیلیاں لاتے ہیں ۔

مثال آپ کے سامنے رکھتے ہیں جس میں ایک شخص آپ کے پاس تختہ لیکر پہنچتا ہے ، یہ تختہ 21 فٹ لمبا، 1-1/2 فٹ چوڑا اور آدھا فٹ موٹا ہے ۔ اس کے ساتھ سو پونڈ یعنی 22922.70 روپے بھی بھیجا  جاتا ہے ۔ کرنے والا کام اس میں یہ ہوگا کہ تختے کے  ایک سِرے سے دوسرے سِرے تک متوازن قدم رکھتے ہوئے چلتے جا ئیے  ۔ آپ سو پونڈ کی خاطر یہ کام پسند کریں گے ۔؟ یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ آپ یہ کام خوشی   سے کر لیں گے۔

خوشی سے اسی لیے کر لیں گے کیونکہ یہ کام کم عمر والا بچہ بھی شاید سرانجام دے جائے ۔ غور کریں صرف سات سیکنڈ بعد رقم گن رہے ہوں گے اور حیران ہو رہے ہوں گے  کہ خدا نے کس طرح آپ پر مہربانی کی ۔

اب اسی گیم کو دوسری جانب لیکر دیکھتے ہیں ۔ فرض کیجیے یہی تختہ دو چٹانوں کے درمیان رکھ دیا جائے ۔ یہ تختہ آدھے میل گہرے کھڈ پر پل کی مانند رکھا گیا ہو ، نیچے ایک خوفناک دریا بہہ رہا ہو اور دریا میں خوفناک مگر مچھ رہ رہے ہوں ، تو اب بھی ایک سو پونڈ کی خاطر اس تختہ پر چلنے کو  تیار ہو جائیں گے ؟

چلیں ہم پونڈز کی تعداد میں مزید اضافہ کر دیتے ہیں ایک سو سے لیکر پانچ سو پونڈ تک بھی لے جایا جائے گا تو شاید آپ پیشکش کو ماننے کے لیے تیار ہو جائیں لیکن ہوسکتا ہے عمل کے لیے تیار نہ ہوں ۔

اس ایک گیم کو دونوں طرح سن کر آپ کے خیال میں تبدیلی آگئی ہوگئی دونوں پہلوؤں کو مدنظر رکھا جائے تو شاید اتنا فرق نہ ہو لیکن  ہو سکتا ہے پھرآپ یہ پیشکش مسترد کر دیں اور دوبارہ کبھی  اس کو سوچیں بھی نہ ۔

اس تمام صورتحال  پہ  ڈیل کارنیگی نے جواب نکالا وہ یہ ہے کہ آپ کے تصورات کی بوقلمونی ۔ ان دو مواقع میں صرف تصوات میں تغیر پیدا ہوا ہے ۔ پہلی مرتبہ تختی پر چلنے کا تصور بہت واضح اور آسان تھا ۔ اور دوسری مرتبہ آپ کے ذہن میں ناکامی کے تصورات آنے لگے اور آپ کی نظروں کے سامنے موت کا منظر آگیا ۔

اس میں واضح  نظر آرہا ہے کہ تصورات آپ کے مستقبل کو کیسے تبدیل کرسکتے ہیں اور کرتے آئے  ہیں ۔ مصنوعی خطرات حقیقی صلاحیت پر زیادہ اثر انداز ہوتے ہیں ۔
ہم اگر ان باتوں کو  حقیقی دنیا میں رکھ کر دیکھیں تو ہمارے اندر بھی واضح  تبدیلیاں نظرآئیں گی  ۔ آپ کی اچھی سوچ آپ کے مستقبل کی ترجمانی کرتی ہے ۔ زندگی میں چلنے کے لیے یوں تو مشکلات آکر گھیر لیتی  اور بعض اوقات تومفلوج کر دیتی ہیں ۔ لیکن ان مشکلات کے حل کے لیے بھی ہمیں ایک مثبت اور ترقی پسند سوچ کی بہت ضرورت ہوتی ہے۔

ایک اچھے مستقبل کے لیے نہ تو آپ کی سوچ مصنوعی اور نہ   محدود  ہونی چاہیے ۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کسی کے ڈر کی  وجہ سے آپ چھوٹی سوچ رکھتے ہوں لیکن پھر ساری عمر آپ کی سوچ آپ کو بھی محدود کر دیتی  ہے اور جب انسان 40 سال سے زیادہ عمر کا ہوجاتا ہے تووہ پھر شاید مزید فیصلہ لینے سے ڈرتا ہے ۔ وہ یہ سمجھتا ہے کہ اب اگر کوئی فیصلہ کر لیا گیا تو شاید مجھے کامیابی نہ مل سکے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میرے  خیال  میں  20 سے 26 سال کی عمر تک آپ کو مضبوط سوچ کے ساتھ اہم فیصلے کر لینے چاہئیں  ۔ مثبت اور ترقی  پسند سوچ کے ساتھ اپنے مستقبل کو جاری رکھیں پھر جب آپ اپنے مستقبل تک پہنچیں  گے تو اس خوشی کو شاید  نہ میں  بیان کر سکوں اور نہ آپ ۔
بڑا سوچیں اور بڑی کامیابی حاصل کریں ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply