بے چارگی۔۔اکرام اللہ

گلی کی نکڑ پر کھڑے ، دیوار سے ٹیک لگائے پچھلے بیس منٹ سے وہ اپنی بات دہرائے جارہا تھا کہ کچھ کریں۔ گردو پیش سے بیگانہ ، میری آنکھوں میں موجود بے بسی سے نظریں ملائے بغیر اپنی ہی دھن میں وہ دھیمے دھیمے اور معذرت خواہانہ لہجے میں بولے جا رہا تھا اور میں شرمندگی سے زمین میں گڑھے جارہا تھا کہ کچھ کرنا تو کجا ، میں سوائے یہ کہنے کے کہ اللہ سب بہتر کرے گا، تسلی یا امید دینے سے بھی قاصر تھا۔

اس سے میرا تعارف برسوں پرانا تھا، میں نے ہمیشہ اسے دوسروں کی معاونت کرنے والے ایک ہمدرد دوست کے طور پر پایا تھا، پیشے کے اعتبار سے وہ استاد تھا ، گزشتہ کچھ عرصے سے اس نے کرائے کی ایک عمارت میں چھوٹا سا اسکول قائم کیا ہوا تھا اور اس سے پہلے جب بھی ہمیں اکیلے ملنے کا موقع ملا تو اس کا پسندیدہ موضوع اسکول کے تدریسی اور انتظامی معاملات میں بہتری کے لیے تجاویز پر گفتگو کرنا ہوتا تھا لیکن آج معاملہ یکسر مختلف تھا۔

‘تم تو جانتے ہو کہ کرایہ بھی کتنا زیادہ ہے اور مالک مکان کوئی بھی بات سننے پر تیار نہیں’ مختصر سے وقفے کے بعد وہ پھر بڑبڑایا۔ ‘اس نے تو صاف کہلوا بھیجا ہے کہ ‘مجھے حالات کی خرابی سے سروکار ہے نہ ہی اچھے دنوں کا انتظار کرسکتا ہوں’ پریشانی سے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے اس نے خودکلامی سی کی کہ ‘اسے تو بس اپنا کرایہ 10 تاریخ سے پہلے چاہیے ہوتا ہے’

‘ایک کام کرو، تم کسی ادارے سے بول کر میرے ٹیچرز کی تنخواہیں ہی دلوادو’ اب کی بار اس نے سرگوشی سی کی کہ کہیں کوئی اور اس کی بات سن نہ لے اور اس کی سفید پوشی کا بھرم بھی خاک میں نہ مل جائے۔ اس کے پاس اس بھرم کے علاوہ اب بچا بھی کیا تھا، میں بخوبی واقف تھا کہ گھر اور  سکول کے انتظامی اخراجات کے لیے وہ گھر میں موجود سونے کے زیورات تک بیچ چکا ہے۔

میں نے بارہا گھر کی بیٹھک میں بیٹھنے کی پیشکش کی لیکن ہر بار وہ ٹال کر اپنے مسئلے کی طرف توجہ دلاتا، اس کی بے چینی اتنی تھی کہ کسی ایک جگہ ٹک کر بیٹھنا شاید اس کے لیے محال تھا، تبھی تو وہ اس خراب موسم میں اپنی پرانی موٹر سائیکل کے بجائے تین کلومیٹر دور سے پیدل چلتا ہوا آیا تھا یا پھر شاید کئی جگہوں سے ہونے کے بعد میرے پاس آیا تھا کیونکہ انتہائی نفاست پسند ہونے کے باوجود اس کا چہرہ گرد سے اٹا ہوا تھا اور وہ اپنے حال سے مکمل بیگانہ جھکی جھکی نظروں کے ساتھ اپنی بات دہرائے جا رہا تھا کہ ‘کچھ تو کریں’ ، ‘کسی اور سے بول کر دیکھ لیں’

‘دیکھو یار’  اس نے کچھ کہنا چاہا لیکن آواز رندھ سی گئی تھی، میں نے اس کی آنکھوں میں جھانکنے کی ہمت کی تو آنسوؤں کے بادل صاف دکھائی دے رہے تھے، میں نے خموشی سے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر تھپتھپایا تو اس نے قریب کھڑے بجلی کے پول سے ٹیک لگائی کہ کہیں اس کی بے جان ہوتی ٹانگیں اس کے جسم کا بوجھ سہارنے سے انکار نہ کردیں۔

صرف میرے گھر اور کچن کی بات نہیں ، مالک ‘مکان کے ڈراوئے اور بے عزتی بھی میں سہہ لوں لیکن درجن سے زیادہ  سٹاف ہے ، ان کی امیدیں ہیں، ان کی  ضروریات ہیں ، اللہ کے حضور ان کے لیے مجھے جوابدہ ہونا ہے لیکن کہیں سے کوئی بھی تو صورت بنتی نظر نہیں آتی’ ایک ہی سانس میں پہلی بار وہ بہت کچھ کہہ گیا۔ آواز روہانسی ، آنکھیں چھلکنے کو تیار کہ اچانک آسمان پر گڑگڑاہٹ ہوئی اور بارش کے قطرے گرنے لگے۔ بارش کے قطروں نے دونوں کی لاج رکھی اور آسمان کی طرف منہ کرکے چہرے پر گرنے والے قطروں اور آنسؤوں کو صاف کیا۔

کچھ ہی دیر میں بارش نے زور پکڑا، میں نے اسے توجہ دلائی کہ بجلی کے پول سے ہٹ جانا چاہیئے، ان کا کوئی بھروسہ نہیں کہ کب ان میں کرنٹ دوڑنے لگے لیکن وہ ٹھس سے مس ہوئے بغیر میری طرف دیکھ کر دیوانہ وار ہنس کر کہنے لگا کہ ‘کرنٹ لگا تو کیا ہوگا، مر جاؤں گا ناں، مر جانے دینا لیکن تب میری لاش کو خموشی سے نہ دفنانا، کے ای سے کلیم کرنا اور کوشش کرنا کہ اچھی رقم مل جائے۔ میں اس کی وحشت سے سہم سا گیا اور اسے سکتے سے نکالنے اور حال میں لانے کے لیے باقاعدہ چلایا کہ ‘تمھارے اسکول کو تمھاری ضرورت ہے’  اس نے بجلی کے کھمبے سے ٹیک لگائے انتہائی بے نیازی سے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا کہ ‘میری ضرورت نہیں ہے بھائی،  سکول کو پیسوں کی ضرورت ہے، پیسے ہوں گے تو میری بیگم مجھ سے بھی زیادہ بہتر انداز میں چلا لے گی  سکول’

Advertisements
julia rana solicitors

میں چپ ہی رہا کہ وہ ٹھیک ہی تو کہہ رہا تھا، زر کے نظام میں انسان کے ذاتی اوصاف بے وقعت اور سرمائے کی اہمیت مسلم ہے۔

Facebook Comments

اکرام اللہ
اکرام اللہ عرصہ دراز سے درس و تدریس سے وابستہ ہیں اور کراچی، اسلام آباد، نوشہرہ اور سوات میں تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ آپ انسانی حقوق کے سرگرم کارکن ہیں اور نظم و نثر کے ذریعے مظلوموں کی داد رسی کرتے ہیں۔ مزید یہ کہ آپ 'کراچی مزدور اتحاد' کے کنوینر اور 'اکیڈمک ویلفئیر اینڈ ایڈوائزری زون (آواز)' کے سرپرست بھی ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply