جشن آزادی مبارک۔۔ذیشان محمود

ہماری گلی میں دو جڑواں رہتے تھے۔ دونوں ہم شکل  تھے لیکن بڑے بھائی کی نشانی   دبلا اور کان کٹا ہونا تھی۔
بڑے بھائی کا دعویٰ تھا کہ وہ 5 منٹ پہلے پیدا ہوا اس لئے بڑا ہے جبکہ 5 منٹ چھوٹا بھائی نسبتاً صحت مند تھا اور بڑے کو لتاڑ کر ہم عمر کے دعویٰ میں صادق آ جاتا تھا تو کبھی بڑا چھوٹے کو لتاڑ لیتا۔ دونوں کی بھرم بازی بھی خوب تھی۔ لیکن ایک بار تو دونوں کو ہی چھوٹے بھائی سے پچھاڑ کھا کر گرتے دیکھا۔

پاکستان بھارت کی کہانی بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ دونوں کی پیدائش 15 اگست کو ہوئی۔ لیکن پاکستان نے اپنے پہلے پیدا ہونے کے اعلان کے سبب بڑا ہونے کا دعویٰ کیا۔ اور گورنر جنرل قائد اعظم کی اجازت سے 1948ء میں ایک دن قبل ہی آزادی کی سالگرہ کا جشن منانے کا اعلان کیا لیکن حقیقت یہی ہے کہ بھارت ایک روز ہی پیدا ہونے والے چھوٹے جڑواں بھائی کی طرح ہم عمر ہی ہے۔

دنیا میں کئی جڑواں ایسے ہیں جن میں چند منٹوں کا فرق ہے یا گھنٹوں کا، ایک رات 12 سے پہلے پیدا ہوا تو دوسرا اگلے دن علی الصبح، ایک 30 تاریخ کے آخری لمحات میں تو دوسرا یکم تاریخ کو، ایک سال کے آخری دن 31 دسمبر کو پیدا ہوا تو دوسرا یکم جنوری کو، اور تو اور ایسی مثال بھی موجود ہے کہ ایک 31 دسمبر 2000ء کو پیدا ہوا تو دوسرا یکم جنوری 2001ء کو۔

ان بچوں کو ہمیشہ جڑواں ہی کہا جاتا ہے۔ دن، تاریخ، مہینہ، سال یا صدی کے اس فرق کو حقیقت پر محمول نہیں کیا جاتا۔ تو کیسے ممکن ہے کہ تاریخ کے پنوں پر درج 15 اگست کو پیدا ہونے والے پاکستان و بھارت کو جڑواں نہ کہا جائے۔

سیاسی بناء پر مقرر کئے گئے ایام اور تاریخ میں رد وبدل بے شک زبان زد عام ہو جائے۔ لیکن حقیقت کو کیسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔ تاریخ کچھ نہیں چھپانے دیتی۔ ہزاروں سال پرانی تہذیبوں کی دریافت ان کی تاریخ کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

بدلتے زمانہ کے ساتھ حق و سچ کے دلائل کی فراہمی آسان تر ہوتی جا رہی ہے۔ کوئی ایک بندہ غیر مستند بات کہے تو ساری دنیا مستند بات پیش کر دیتی ہے۔ اسی ضمن میں ایک عجیب سی بحث کا خلاصہ بھی کئے دیتے ہیں۔

سوشل میڈیا پر یہ بحث عام ہے کہ پاکستان 14 کو نہیں 15 اگست کو معرض وجود میں آیا۔ لیکن حب الوطنی کے جذبہ سے سرشار جذباتی پاکستانی احباب گوگل سرچ کے تحت 14 اگست 1947ء کو 27 رمضان المبارک پیش تو کر رہے ہیں لیکن سکرین شاٹ شیئر کرتے وقت جذبات میں العربیہ لکھا ہوا نہیں پڑھتے یا کس ویب سائیٹ کا سرچ رزلٹ ہے وہ نہیں دیکھتے۔ گوگل سرچ پر عمومی طور پر سعودی سائیٹ کا رزلٹ شروع میں آتا ہے۔ اور ظاہر ہے عموماً وہ پاکستان سے ایک قمری دن آگے ہے۔

انہی جذباتی نوجوانوں سے درخواست ہے کہ بے شک اردو یا رومن میں سرچ کر لیں اور بی بی سی یا کئی ویب سائٹس پر بحوالہ تحقیقی مضامین دیکھیں کہ پاکستان کی اصل تاریخ پیدائش کیا ہے۔
ایک چھوٹی سی عقلی دلیل بھی پیش ہے۔

اس زمانہ کے اخبارات پر 15 اگست1947ء بمطابق 27 رمضان المبارک درج ہے۔ بالفرض چودہ اگست کو پاکستان کا یوم آزادی قرار دیے جانے اور اس دن 27 رمضان کی رات ہونے کی بات کو مان بھی لیا جائے تو قارئین کرام آپ 14 اگست کو جمعہ کیسے منائیں گے وہ تو 15 اگست 1947ء کو ہے۔

قطع نظر شمسی و قمری کیلنڈر کے اختلاف کے، یہ دو تاریخی باتیں کہ جمعہ کا دن اور 27 رمضان ہونا تو تواتر سے زبانی روایات ہیں۔ اور جمعہ کو 15 اگست کی شمسی تاریخ پر مشتمل ایک ہی عیسوی کیلنڈر دنیا میں رائج ہے۔

بہرحال پشاور کے ایک صاحب نے ٹوئٹڑ پر ہونے والی بحث یہ کہہ کر ختم کر دی کہ پشاور میں تو چاند ایک دن پہلے نکلتا ہے۔یعنی اس لئے پاکستان میں 14اگست کو 27 رمضان بھی تھی۔ لیکن پشاور کے چاند کی شہادت توحکومتی ادارہ مانتا ہی نہیں۔ ویسے بھی اس عقلی دلیل کا کیا کریں۔۔۔ شاید ان جیسے جذباتی نوجوان پہلے عقل کی تلاش میں ہی نکل پڑیں۔

یہ تاریخی غلطی ایسی ہی ہے جیسے آپ کی تاریخ پیدائش کچھ اور ہو اور شناختی کارڈ پر NADRA کچھ اور لکھ دے۔ اب تاریخ پیدائش کی تبدیلی کے لیے  جیسے مجسٹریٹ کی ضرورت ہے اسی طرح اس غلطی کا سدھار پارلیمان سے ممکن ہے لیکن سوال اس غیور قوم کا ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی باندھے کون۔ 75 سالہ اس مسئلے کو حل کرنے کی ہمت تو حکومت وقت میں بھی نہیں۔

بس اتنا یاد رکھیں اگر اپنا یوم آزادی 14 اگست کو قرار دیں گے تو 15 اگست بمطابق 27 رمضان بروز جمعہ کے بابرکت دن آزادی کا سہرا بھارت کو ملے گا۔ جشن آپ بے شک 11 اگست کو منا لیں لیکن آزادی کی تاریخ یاد رکھیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اسی لئے سب اہلِ وطنوں کو جشن آزادی بھی مبارک۔ اور پھر اصل یوم آزادی بھی۔

Facebook Comments

ذیشان محمود
طالب علم اور ایک عام قاری

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply