پاکستان کا مستقبل اور پی ٹی آئی کا کردار ۔۔شہباز الرحمٰن خان

ٹی وی پر ایک خبر  چلی ،جو آگ کی طرح پھیل گئی، حسبِ روایت پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا حرکت میں آیا، حالات کی نزاکت کا فائدے اٹھاتے ہوئے خبر کو نفرت کا تڑکا لگا کر اپنی ذہنی پسماندگی کا ارتقاء کیا  گیا،کئی  دوست احباب نے طنز  کے نشتر چلائے ،میرے لئے یہ بات واضح ہے  کہ میں جس راستے پر گامزن ہو ں ،یہ کانٹوں کی سیج ہے، سیاست میرے نزدیک ایک عبادت ہے، مجھے آصف علی زرداری صاحب کے الفاظ یاد ہیں، سیاست Thank less ہے ،اس کا مطلب آپ کوئی بھی سماجی اور سیاسی کام کریں، کبھی امید مت  رکھیں کہ  لوگ آپ کی تعریف کریں گے ،کیونکہ آپ سب کو ایک ساتھ خوش نہیں رکھ سکتے، محنت کریں ،لوگوں کی مدد کریں، اور اپنے راستے پر چلتے جائیں۔

میرے لیے سب سے زیادہ سنجیدہ بات یہ ہے کس طرح ہمارے لوگوں کے دماغ کنٹرول کیے جاتے ہیں، اور تخلیقی صلاحیتوں سے مالا مال  نوجوان نسل کو  کیسے نفرت سے  پروان چڑھایا جارہا  ہے،۔باچا خان (عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ )نے  کہا تھا کہ “ایک ایسی نسل کو تیار ہوتا دیکھ رہا ہوں ، جو خون کی پیاسی ہوگی یہ مدرسوں سے جو طوفان اٹھنے والا ہے مجھے نظر آرہا ہے “کوئی یونیورسٹیوں کی بنیاد نہیں رکھی گئی اور مدرسوں میں سعودیہ اور امریکہ کا اسلام افغانستان میں خون کی ہولی کھیلتا رہا، اب جو واردات ہوئی ہے یہ پہلے سے زیادہ خطرناک ہے کیونکہ اس میں جو دماغ متحرک ہیں وہ ایک تو   پاکستان میں رہائش پذیر نہیں، یورپ اور امریکہ کے پُرباش  طرزِ زندگی    زندگی کے بھرپور مزے  لے رہے ہیں، نہ ہی ان کو پاکستان میں رہنا پسند ہے اور نہ کبھی واپس آنا ہے ،دوسرے وہ دماغ ہیں جو میڈیا اور سوشل میڈیا سے کنٹرول کیے جاتے ہیں۔

جس دن میڈیا پر یہ  خبر چلی کہ  چین کی حکومت نے جذبہ خیر سگالی کے تحت پاکستان کی عوام کے لیے کچھ  ماسک اور کرونا وائرس ٹیسٹنگ کِٹس بھیجی ہیں، اسکے دو دن کے بعد ممی ڈیڈی انقلابی فیس بک پر متحرک ہوئے اور مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا یہ دیکھو سندھ حکومت نے ماسک بیچ دیئے ،اور ایک نجی ہسپتال  ماسک بیچے جانے کی تصویر مجھے بھیجی۔ ایک دوست کی کال آئی ،کہنے لگا یار چائنہ سے دولاکھ ماسک آئے ہیں، پیپلز پارٹی اپنے ورکرز میں تقسیم کرے گی، آج ایک نجی ٹی وی چینل کی خبر ہے، چین کے  دیے ہوئے ماسک لیڈیز انڈرگارمنٹس  سے بنے ہیں، جو ناقابلِ استعمال ہیں، یہ شکایت  سپین نے کی، اور چیک ریپبلک ،اٹلی اور دوسرے ممالک نے جو ملک آفت کی گھڑی میں ہمارے ساتھ دشمنوں کی صفوں میں ہیں، سوچیں ہم ان کے ساتھ اپنے سماجی معاشی رشتے بنا رہے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہمیں سوچنا ہوگا ،دوسری بات یہ کہ یہ ایک لمحہ فکریہ ہے، ہم ملک میں ماسک اور وینٹی لیٹر ٹیسٹنگ کِٹس نہیں بنا سکتے، اس کی وجہ صرف یہی ہے  کہ نوجوانوں کو جس نفرت اور اندھی کھائی میں پھینک دیا ہے یہ ایک منتشر جھنڈ ہے،  جس کا تعمیر و  تحقیق سے کوئی تعلق نہیں، ملک میں موت کا رقص جاری ہے اور  ہم حالت ِ وبا میں مبتلا ہیں، تھوڑی دیر سوچیں ،ان ڈاکٹرز،انجینئر  اور تعلیم یافتہ افراد کے دماغوں سے کتنا گندا کھیل کھیلا جارہا ہے، اس کے اثرات بہت بھیانک مرتب ہوں گے، تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔

Facebook Comments

شہباز الرحمٰن خان
شہباز الراحمن خان سابق ڈپٹی جنرل سیکریٹری پیپلز پارٹی برائے نوجوان کراچی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply