اک ذرا سی بات تھی اور گلی گلی گئی۔رفعت علوی

 میں مخمور و سرشار سوختہ جاں، جون ایلیا پر لکھی جانے والی ایک تحریر سے اقتباس. جون ایلیا کی برسی پر جون کو ٹریبیوٹ!
رزمی نے دروازے پہ دستک دی کوئی جواب نہ آیا، دوسری دستک کے بعد رزمی نے دروازے کو دھکا دیا، دروازہ کھلتا چلا گیا اندر کوئی نہیں  تھا ،نہ بہشتی صاحب اور نہ ہی جون، “ارے کوئی ہے؟
” میں نے آواز لگائی، مگر کہیں سے کوئی جواب نہ آیا “شاید باتھ روم میں ہیں، ارے بھائی کوئی ہے”
، رزمی صاحب کی آواز کہ مردے بھی قبروں سے اٹھ کھڑے ہوں. اب میں نے بستر کی طرف غور سے دیکھا ، بستر کی دوسری طرف فرش پہ ایک گٹھڑی پڑی تھی
“رزمی صاحب  ذرا لائٹ تو جلائیں۔” کمرے میں روشنی ہوئی تو گٹھڑی میں حرکت ہوئی اور اس میں سے ایک آواز اور ہاتھ ایک ساتھ برآمد ہوا ،کیا مردود بہشتی آگیا!
“علوی صاحب آئے ہیں جون بھائی۔۔” رزمی نے آگے بڑھ کر کہا۔۔
وہ آدھا اٹھ کر بیٹھے، چندھائی ہوئی نظروں سے ادھر ادھر دیکھا، کچھ بڑبڑائے اور کھڑے ہونے کی کوشش کرنے لگے
“یہ کمبخت سلیم جعفری کب آئے گا ،ارے بہشتی۔۔۔ ارے او جانی میری دوا لائیو”
جانی تم بیٹھو، وہ لکنت سے بولے ابھی وہ مردود سلیم آنے والا ہے، دیکھو ادھر ایک بوتل پڑی ہے!
میرا دل بھر آیا اور میں کچھ کہے بغیر کمرے سے باہر نکل آیا.
باہر بہشتی صاحب کھڑے تھے، انھوں نے مایوسی سے سر ہلایا۔۔
“میں تو کمرے سے نکل بھاگا ہوں۔۔” وہ بولے، بالکل ٹن ہیں اور اب رات گیارہ بجے سے پہلے ان کو ہوش آنے والا نہیں، میں نے مایوسی سے ان کی طرف دیکھا اورخاموشی    سے  دو دو زینے اتر گیا، کہ اب کسی چشم نگاہ دار کا خطرہ بھی نہیں، دن ستم پیشہ ہے۔ رازوں کو اگل دیتا ہے، رات تو معصوم ہے، وہ رازوں کو چھپالیتی ہے، وقت کے ہاتھوں میں بس سنگ ملامت ہے۔۔
جون، میرےجون، اچھے جون ،حرما نصیب جون۔۔
اب تیرا دل جو مچلے تو کوئی ٹوکنے والا بھی نہی!
جسم جو پگھلے تو کوئی دیکھنے والا بھی نہیں،
تم نے بہت شراب پی، اس کا سب ہی کو دکھ ہے جون،
اور جو دکھ ہے وہ یہ ہے، تم کو شراب پی گئی ،
جون نہیں  ہے اورجون ہے،
وہ بےنیاز، سودائی، خود فراموش، سوختہ جاں ، سر مست ، مخمور و سرشار شاعراب رہا نہیں ،
اب اس کا معاملہ اس کے خدا کے ساتھ ہے ناصحو!
 میں نہیں  کہتا کہ تم اس کی قبر پہ چراغ جلاؤ زاہدوں،
میں کب کہتا ہوں تم اپنی خانقاہوں میں تسبیح پھینک کے اس کے لئے فاتحہ کے لئے ہاتھ اٹھاؤ،
مگر اے فتنہ گروں! اے خود ساختہ چارہ گرو!
تم جب اس اداس شخص پہ تبصرہ کرو تو آئینہ سامنے رکھ لیا کرو ،یاد کرو وہ ہمارے عہد کا نمائندہ نہیں تھا۔ بقول زاہدھ حنا وہ تو ابھی تک اس عہد میں زندہ تھا جس میں اس کے اجداد اپنی جاگیریں ،اپنی جائیدادیں نازنینوں کے اشارہ ابرو اور ان کے مہندی لگے پیروں کی ایک ٹھوکر پہ نثار کر چکے تھے!

Facebook Comments

رفعت علوی
لکھاری،افسانہ نگار

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”اک ذرا سی بات تھی اور گلی گلی گئی۔رفعت علوی

Leave a Reply