پانڈو واور مشک پوری۔۔مظفر عباس

انسان کی عادت ہے ہر چیز کو سر نگوں کرنا ,چاہے وہ اسی جیسا کوئی   دوسرا انسان ہو، جانور، سمندر یا پہاڑ وه اپنی اس تجسس بھری عادت کی بدولت ہر چیز کو سر کرنا چاہتا ہے۔وه گندم کے دانے میں تجسس کی بنیاد پے جنت سے بےدخل کر دیا جاتا ہے۔مگر عادت سے مجبور ہے کہ اسکی یہ فطرت اسے کے ٹو ،ماؤنٹ ایورسٹ جیسے انسان  دشمن پہاڑوں کو بھی پاؤں تلے
روندھ کر اپنی برتری کے جھنڈے گھاڑ دینے پے مجبور کر دیتی ہے۔اور انسان ہے کہ چاند پے قدم رکھ کے اس کے داغ کو مزید نمایاں کر دیتا ہے. اور دنیا کو بتاتا ہے کہ مجھ سے کچھ مشکل نہیں۔۔میں مریخ پے بھی پہنچ جاؤں گا ۔

ہم بھی فطرت کی اسی بنیاد پر زنده ہیں ۔تو ہم اس جنون میں کس طرح پیچھے ره سکتے تھے ۔

یہ بھی پڑھیں :  پہنچی وہیں پہ خاک، جہاں کا خمیر تھا۔صادق کاکڑ
ہم نے بھی اپنےآفس کے دوستوں کے ہمراه مشک پوری ٹاپ کی طرف رخت سفرباندھا ۔اور رات کے آخری پہر لاہور سے روانہ ہوئے اور راستوں میں وقفے لیتے ہوئے صبح نتھیا گلی پہنچے۔ہم نے اپنا ٹریک نتھیا گلی سے شروع کیا ۔جو کہ ڈنگا گلی کی نسبت کم ڈھلوان رکھتا ہے۔
فٹ) اونچی اور ایبٹ آباد ڈسٹرکٹ ، خیبر پختونخواه میں واقع ہے۔٩٢٠٠ میٹر (٢٨٠٠مشک پوری ٹاپ سطح سمندر سے
مشک پوری دراصل، سنسکراتی لفظ موکش (آزادی) اور پوری (شہر ) سے نکلا ہے۔
مشک پوری تقریباً  تین گھنٹے کا ٹریک ہے ۔جو کہ تقریبا ً چار کلومیٹر (ڈھائی میل) بنتا ہے۔
نتھیا گلی سے شروع ہونے والا ٹریک صنوبر کے درختوں سے گھرا ہے۔طویل قامت صنوبر کے درخت جن کی لمبائی پچاس سے لیکرایک سو پچاس تک ہوتی ہے بڑی شان سے ایستادہ    ہیں۔سال پرانا ہے جو کہ کیلیفورنیا ۴۶٠٠جن کی عمر سو سے ہزار سال تک ہوتی ہے۔اور ان میں سے تو ایک طویل عمر درخت کے وا ئٹ ماونٹین میں موجودہے۔
جو اپنی طویل عمری کے باعث ہم جیسےمسافروں کو دیکھتے ہوں گے اور ہنستے ہوں گے کہ کس قدر ہیجان میں مبتلہ ہیں اور
کس رفتار سے گزر رہےہیں۔

ان کو کیا معلوم کہ ہم میں سے بہت کم ایک صدی تک پہنچتے ہیں اور وه سینکڑوں سال سے موجود ہیں۔کچھ صنوبر کے درخت ہمیں دیکھ کر مسکرا رہے تھے اور کچھ ناک منہ  بسورے ، طنزیہ نظروں سے پاوٗں میں موجود خالی پلاسٹک کی بوتلیں، شاپر بیگ اور دوسری انسانی آلائشوں کی نشاندہی کر رہے تھے۔
میں جس کے ہاتھ میں خالی چپس کا پیکٹ تھا ابھی پھینکنے  ہی لگا تھا کہ  ایک ضعیف درخت نے نوجوان درختوں کی طرف
دیکھا۔اور مخاطب ہوا ۔میں نا کہتا تھا میں ان کو کئی سو سال سے دیکھ رہا ہوں یہ بدلنے  والے نہیں۔
تم نوجوانوں کو کیاسوجھتی ہے کہ ان سے بائیکاٹ نہیں کرتے۔میرا یہ سننا تھا میں نے خالی ریپر لیا اور جیب میں رکھ لیا کہ کہیں  ڈسٹ بن میں ڈالوں گا۔
نوجوان صنوبر نے مسکراتے ہوئے ضعیف کو دیکھا اور کہا میں نا کہتا تھا کہ یہ نسل پچھلوں  سے بہتر ہے۔آپ بزرگ بھی نا۔۔۔۔جلدی مایوس ہو جاتے ہیں۔
پیدل اوبر کھابڑ راستے کا ٹریک انتہائی تھکا دینے والا مگر ایڈونچر سے بھرپور تھا۔
ہم میں سے تو اکثر لوگ آدھے راستےمیں تھک چکے تھے اور کچھ تو شہادت کے مرتبےپے فائز ہونے والے تھے۔
(یہاں شہادت سے مراد بہت زیاده تھکن کا احساس اور قدم اٹھانا دو بھر لیا گیا ہے)

یہ بھی پڑھیں :  اک ذرا سی بات تھی اور گلی گلی گئی۔رفعت علوی

جن میں صنف نازک حسب عادت سر فہرست تھیں۔ان میں سے کچھ نے سمجھداری کا مظاہره کرتے ہوئےوہاں پر موجود خچروں کو ٹریکنگ کے لئے منتخب کیا۔بقول ان کے وه ا س ایڈونچر کو انجوائے کرنا چاہتی تھیں ۔
دراصل بتاتاچلوں کہ  جنہیں میں اب تک خچر سمجھتا رہا دراصل وه گھوڑے تھے۔ اور اس میں بھی نازک صنف یعنی
گھوڑی۔جو کہ بہرحال ہماری مستورات کی نسبت کافی پتلی اور چاک و چوبند تھی۔ اس کا ادراک مجھے اس وقت ہوا جب میں نے گھوڑےکی لگام پکڑے آدمی سے کہا
بھائی تمہارا خچر بہت چاک و چوبند ہےتو اس نے خوفناک نظروں سے گھورتے ہوئے جواب دیا، جناب یہ خچر نہیں گھوڑی ہے۔


ّقدیم روایات کے مطابق یہاں مہا بھارت کے مشہور کردار پانڈوو سکون حاصل کرنے آتے تھے۔
پانڈوو پانچ بھائی جو دروپدی کے خاوند مانے جاتے ہیں۔
بالآخر تقریباً تین گھنٹے کا ٹریک اختتام کو پہنچا اور ہم مشک پوری ٹاپ پے پہنچے ۔
حد نگاہ  تک برف کی سفید چادر تنی ہوئی ایسا منظر تھاجیسے کسی ماه جبیں کا سفید مر مر سے تراشا بدن اور اس سے مہک کی مانند اٹھتی ٹھنڈی ہوا۔
ہزار وں فٹ کی  بلندی اور اس بلندی پے بھی آسماں تا حد نظر اور بادل اتنے قریب کہ  ہاتھوں میں آجائیں۔
مگر شہروں کی  بدولت اتنے صاف کہ شاید ہم جو لاہور میں دیکھتے ہیں وه گرد کی ایک چادر ہے جو آسماں پے تنی ہے۔
کانوں سے ٹکراتی تیز ہوا اور اس میں بھی مدھر او سریلےگنگناتے راگ جو سماعتوں میں ایک عجیب رس گھول رہے ہیں۔ہم شہری علاقوں کے لوگوں کے لئے اس قدر تروتازه ہوا میں سانس لینا بھی ایک نیا تجربہ تھا۔
مجھے ڈر تھا کے کہیں پھیپھڑےجو پہلے ہی گرد اور دھویں کے عادی ہیں ، سانس روک لینے کی دھمکی نا دے دیں۔
ٹھنڈی ہوا کی ایسی لہر کہ  جو جسم کو سرد کم مگر روح کو گرما رہی تھی۔
اس سردی کے باعث زیاده پرندے تو وادی میں موجود نا تھے مگر کووں کی بہتات تھی ۔کوے بھی ایسے چمکیلے عجیب
کالے کہ کالے رنگ سے آنکھیں چندھیا جائیں ۔
شور ، گردوغبار اور دھوئیں سے کوسوں دور ان بے زبانوں کو کیا معلوم کہ ان کے کتنے ہم نوالہ بھائی ہم نے لاہور میں بریانی میں ڈکار دیے۔ اور جو بچے ہیں وه اپنے کالے رنگ کو ترستے ہیں۔
اس خوبصورت ماحول میں مہا بھارت کے ستائے ہوئے پانڈوو اور دروپدی کیسے موجود نا ہوتے۔
اور پاس ہی دروپدی سوئمبر میں ارجن کو دلہا چننے کے بعد موجود تھی۔ اور ہماری طرح سکون کی تلاش میں دوباره یہاں آ پہنچی  تھی۔یدہشٹر آنے والی جنگ کی چالوں پے غور کر رہا تھا، بھیم جنگ کی جیت کا جشن منانے کا سامان تیار کر رہا تھا۔ نکھل اپنیخوبصورتی کو پر سکون ماحول میں اور جلا بخش رہا تھا۔اور سہدیو سکون سے تاروں  کی چالوں پے غور کر رہا تھا۔اور ہم تمام لوگ اپنی خوش گپیوں میں مصروف تھے ۔کچھ سیاح جو ہم سے پہلے موجود تھے وه اپنے میوزک پے رقص میں مصروف تھے۔کچھ لوگ وقت کو نہیں تھام سکتے تو منظر کیمرے میں محفوظ کر لیتے ہیں۔اور ہم لوگ ایک ایک چیز کو ایسے تک رہے تھے جیسے کوئی قیدی عمر قید کے بعد آزاد فضامیں سانس لے اور چاہے کہ
بس یہی ابتدا اور انتہا ہے۔
مگر وقت کو گزرنا ہے اور ہمیں واپس جانا ہے۔اس خوبصورت وادی کو چھوڑ کر واپسی کا ٹریک دشوار ہو چکا کیونکہ تھکاوٹ اپنے عروج پر  ہے۔اور راستے میں برف تھوڑی پگھل چکی ہے اور پھسلن میں اضافہ ہو چکا ہے۔ اور کچے ٹریک پے کچھ راستہ تو کیچڑ کی صورت موجود ہے۔جس کے سبب کئی لوگ ایک قدم کی بجائے پانچ قدم دور  راستے میں زمین پر برف چاٹتے پائے گئے مگر چونکہ شہسوار ہی گرتے ہیں مگر یہاں پیدل سوار اس شعر کیصورت موجود رہے۔

یہ بھی پڑھیں :  مدینے کا سفر اور میں نم دیدہ نم دیدہ۔محمود چوہدری/قسط1
ہمیں ٹریک سے اترتے اور واپس نتھیا گلی میں پہنچتے پہنچتے مغرب ہو چکی تھی اور نیچے باربی کیو اپنے مہمانوں کو اپنی خوشبو سے خوش آمدید کہ رہاتھا۔اچانک معلوم ہوا کہ پیچھے ره جانے والے چار لوگ راستہ بھٹک گئے ہیں۔
جن کو واپس آتے آتے دو گھنٹے لگ گئے ۔جو مسلسل ٹریک پے نشاندہی نہ ہونے کے سبب اوپر نیچے بھٹکتے رہے اور
موبائل سگنل نہ ہونے کی وجہ سے رابطہ برقرار نہ رکھ سکے۔
اور جنگلی جانوروں کے ڈر اور اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارنے کے سبب وه تھکے ہارے ہم تک پہنچے۔اور ہم ہمارا واپسی کا سفر شروع ہوا۔
اگر ٹریک میں باقائده کوئی سائن بورڈ آویزاں کر دیے جائیں ، اور ٹریک کی حالت بہتر بنا دی جائے تو سفر مزید آسان ہو
جائے۔اور لوگ اس خوبصورت وادی کی طرف متوجہ ہو سکیں۔

 

Save

Advertisements
julia rana solicitors london

Save

Facebook Comments

مظفر عباس نقوی
سیاست ادب مزاح آذادمنش زبان دراز

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply