• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • حروں کے روحانی پیشوا شہید سوریا بادشاہ اور اسٹولا کی گمنام قبر ۔۔۔ محمد عبدہ

حروں کے روحانی پیشوا شہید سوریا بادشاہ اور اسٹولا کی گمنام قبر ۔۔۔ محمد عبدہ

سندھی صوفیا کے سلسلہ راشدی کی ایک شاخ کے بانی پیر پگاڑا ہیں اس شاخ کے پہلے پیر سید صبغۃ اللہ اول اپنے والد پیر محمد راشد بن سید محمد بقا کی وفات کے بعد مسند آرائے رشد و ہدایت ہوئے۔ اور پیر پگارا ’’صاحب دستار‘‘ کہلائے۔ ان کے دوسرے بھائی ’’پیر جھنڈا‘‘ کے لقب سے ملقب ہوئے۔ اس وقت تک سکھوں کی یلغار سندھ کی حدود تک وسیع ہو گئی تھی۔ اور انگریزوں کا بھی اسی اسلامی سلطنت پر دانت تھا۔ پیر پگارڑ نے سندھ کو دشمنوں سے بچانے کے لیے سرفروشوں کی ایک جماعت تیار کی اور انھیں حر کا نام دیا۔ اس وقت سے پیران پگارا کے مرید حر کہلاتے ہیں۔ حروں نے انگریزوں کے خلاف متعدد مرتبہ علم جہاد بلند کیا اورسندھ پر انگریزوں کے قبضے کے بعد بھی کافی عرصے تک چین سے نہ بیٹھنے دیا۔ سید صبغت اللہ شاہ راشدی 1909ء میں پیدا ہوئے تھے۔ 12 برس کی عمر میں آپ گدی نشین ہوئے۔ اور حروں کے چھٹے پیر پگاڑا منتخب ہوئے۔ انگریز سامراج سے شدید نفرت آپ کو ورثے میں ملی تھی۔
سید صبغت اللہ شاہ پیر صاحب پگارو حُر مجاہدین کو تحریک حریت کی صف بندی میں مصرو ف تھے جو برطانوی سامراج کی نظر میں کھٹک رہا تھا برصغیر میں برطانوی راج سے چھٹکارے کے لئے سوریا بادشاہ نے حر تحریک شروع کی۔ سکھر شہر میں دریائے سندھ پر بنے ”بیراج“ کو بائیں طرف کے پل سے عبور کریں تو ایک بہت بڑی نہر کے کنارے کنارے خوبصورت سڑک پیرجوگوٹھ جاتی ہے جو پیر صاحب آف پگاڑا کا آبائی علاقہ ہے پیرجوگوٹھ میں پیرپگاڑا کے گھوڑوں کا بہت بڑا فارم موجود ہے۔ اسی علاقہ میں پیر صاحب کا بے شمار کمروں پر مشتمل ایک عالیشان محل بھی موجود ہے جس کی چھت پر لگا ڈش انٹینا یہ گواہی دیتا ہے کہ پاکستا ن میں سب سے پہلے وہ پیر صاحب آف پگاڑا کی چھت کی زینت بنا۔ سندھ سے انگریزوں کو نکالنے کی جدوجہد میں جن خاندانوں نے قربانیاں دیں اُن میں پیر صاحب پگاڑا کا خاندان سرفہرست ہے۔ سندھ کے علاقہ سانگھڑ کے ”مکھی جنگل“ سے انگریزوں کو نکالنے کیلئے ”حُر تحریک“ کی بنیاد رکھی گئی۔ اس تحریک کو برطانوی حکومت نے بغاوت کا نام دے کر آپ کو قتل کے ایک جھوٹے مقدمے میں ملوث کرلیا۔
اس مقدمے میں آپ کی پیروی قائداعظم نے کی، مگر انگریزوں نے آپ کو 10 سال قید کی سزا سنادی۔ آپ کو 26 مارچ 1930ءکو گرفتار کیا بعد ازاں 15 ستمبر 1930ءکو مزید آپ کے خلاف جھوٹے کیسز رجسٹرڈ کر کے گڑبنگلو سے گرفتار کر کے بمبئی پریزیڈینسی سے ملحق رتناگری جیل منتقل کر دیا گیا مگر حکومت کے خدشات قائم رہے تو مختصر عرصے بعد جیلیں تبدیل ہوتی رہیں۔ رتناگری سے راج شاہی جیل، مدنا پور منتقل کیا وہاں سے علی پور ڈھاکہ رکھا گیا۔ حضرت پیر صاحب پگارو مختلف جیلوں میں رہ کر ان علاقوں کے حریت رہنماﺅں سے رابطے میں آ چکے تھے۔ ان کے ولولے او ر منصوبے مزید قوی و وسیع ہوتے چلے گئے۔ رہائی کے بعد انہوں نے سانگھڑ کے قریب گڑنگ کے مقام پر اپنی تحریک کا آغاز کیاانگریز حکومت نے 1936ءمیں آپ کو ناگپور جیل سے رہا کیا تو آپ جیسلمیر کے راستے سکھر پہنچے تو پورا سندھ آپ کے استقبال کو اُمنڈ آیا۔ اپنے محبوب مرشد کی زیارت کے لئے بیقرار و بے چین تھا اور آپ کے ایک اشارے پر سر دھڑ کی بازی لگانے کو تیار تھا۔ حضرت پیر صاحب نے پیر جوگوٹھ پہنچتے ہی مجاہدین کی عام لام بندی کا اعلان کر دیا اورکفن یا وطن کا نعرہ بلند کرتے ہوئے میدان میں اتر آئے۔ اب انگریز کےلئے پیر صاحب کو آزاد چھوڑنا مشکل ہی نہیں محال ہو چکا تھا۔ ایسے میں سرکار برطانیہ ایک بار پھر حرکت میں آئی اور حضرت پیر صاحب پگارو کو کراچی سے 24 اکتوبر 1941ءکو گرفتار کر کے سیونی میں ایک بار پھر پابند سلاسل کر دیا گیا۔ حضرت سید صبغت اللہ شاہ پیر صاحب پگارو کی گرفتاری کے باوجود انگریز کا سندھ میں امن کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔ انگریز افسر شاہی اور مخبروں کا جینا حرام ہوگیا۔ حُر مجاہدین اپنے عظیم مرشد کی گرفتاری پر بپھرے ہوئے شیر کی مانند ہر سمت تباہی پھیلاتے نظر آرہے تھے۔ انگریز نے ان کے خلاف ظلم و ستم کی انتہا کر دی۔ سندھ میں مارشل لاءلگا کر حر ایکٹ نافذ کر دیا۔ لوگوں کی بستیوں کی بستیاں جلا ڈالیں اور تمام حر قوم کو حراستی کیمپوں میں منتقل کر دیا گیا۔
انگریز مزاحمت ترک کرنے پر سکھر سے نوابشاہ تک کی ریاست دینے کی پیشکش کر چکا تھا مگر حضرت سوریا بادشاہ فرماتے ہیں کہ جب مجھ سے سودے بازی کی بات کرتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ مجھ میں سے حسینیت خارج ہو رہی ہے لہٰذا آپ نے انگریز کی تمام پیشکشیں مسترد کرکے تختہ دار پر چڑھنا اعزاز تصور کیا۔ آپ کو 20 مارچ 1943ءکو حیدر آباد جیل میں سولی پر لٹکا کر شہید کر دیا گیا۔ اور کسی نامعلوم مقام پر دفن کردیا۔ اور دونوں فرزندان سید سکندر شاہ اور سید نادر شاہ کو علیگڑھ منتقل کر دیا۔ آپ کے ارادت مند وہاں بھی پہنچ گئے تو انگریز تنگ آ کر دونوں شہزادوں کو برطانیہ لے گئے۔ قیام پاکستان کے بعد آپ کی گدی بحال ہوئی۔ شہید سوریا بادشاہ کے فرزند اکبر سید سکندر شاہ المعروف شاہ مردان شاہ ثانی4 فروری 1952 کو مسند نشین ہو کر دستار پگارو حاصل کی۔ قیام پاکستان کے بعد برطانوی حکام تمام ریکارڈ پاکستان حکومت کے سپرد کرکے چلے گئے۔ چند روز قبل یہ بات سامنے آئی ہے کہ سوریا بادشاہ کی پھانسی کا ریکارڈ جیل انتظامیہ کے پاس موجود نہیں،۔ جیل میں سوریا بادشاہ کی پھانسی کی تیاریوں کا ریکارڈ تو ہے لیکن پھانسی کا ریکارڈ موجود نہیں۔
چند سال پہلے میں ڈولفن اور سبز کچھوے کے سمندری سروے میں گوادر اور پسنی کے سمندر میں موجود جزیرے اسٹولا گیا۔ یہ جزیرہ پاکستان کی سمندری حدود میں پسنی سے چھ گھنٹے کی مسافت پر ہے۔ ایک چھوٹی سی بنجر پہاڑی پر مشتمل بے آباد جزیرہ ہے۔ اپسنی و گوادر کے مچھیرے بعض دفعہ اس جزیرے پر رات گزارنے آتے ہیں۔ س جزیرے پر ایک گمنام قبر ہے جس پر مزار بنا ہوا ہے اور ساتھ میں ایک مسجد ہے۔ قبر کے بارے مشہور ہے کہ یہاں حضرت خضر ہیں۔ اور کچھ کے بقول یہاں بہت بڑے بزرگ دفن ہیں۔ جستجوانہ طبعیت کے ناطے حضرت خضر والی کہانی مجھے ہضم نا ہوئی۔ مگر کوئی اور سرا بھی نظر نہیں آ رہا تھا۔ پچھلے سال ہی حکومت برطانیہ برصغیر سے متعلق اپنی چند پرانی رپورٹ منظر عام پر لائی ہے۔ جس میں سے ایک سوریا بادشاہ کے متعلق بھی تھی۔ کہ انہیں حیدرآباد جیل میں پھانسی دینے کے بعد اسٹولا جزیرہ میں دفن کردیا گیا تھا۔ تو غالب امکان یہی ہے کہ اسٹولا پر گمنام قبر سوریا بادشاہ پیر پگاڑا سید صبغت اللہ شاہ شہید ہی کی ہے۔ حکومت سے التماس ہے اور ان کی زمہ داری بھی بنتی ہے کہ تحریک پاکستان کے اس عظیم شہید مجاہد کے اس راز پر تحقیقات کریں۔
 

Facebook Comments

محمد عبدہ
مضمون نگار "محمد عبدہ" کا تعلق فیصل آباد سے ہے اور حالیہ کوریا میں مقیم اور سیاحت کے شعبے سے تعلق ہے۔ پاکستان کے تاریخی و پہاڑی مقامات اور تاریخ پاکستان پر تحقیقی مضامین لکھتے ہیں۔ "سفرنامہ فلپائن" "کوریا کا کلچر و تاریخ" اور پاکستانی پہاڑوں کی تاریخ کوہ پیمائی" جیسے منفرد موضوعات پر تین کتابیں بھی لکھ چکے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply