آرٹ اور مذہب ۔۔روبینہ فیصل

آپ اور پاپا 2007 میں بھی سیم ہیومر انجوائے کرتے تھے آپ 2021 میں بھی ان ہی باتوں پر ہنس رہے ہیں ۔۔ آپ کے وہی ٹاک شوز ، وہی ڈرامے وہی گھسا پٹا مزاح جو grow نہیں کر رہا ۔۔ آپ کے مزاحیہ شوز کی ابھی تک وہی extreme ہے کہ آدمی عورتوں کاگیٹ اپ کر لیں تو یہ آپ لوگوں کے لئے بہترین مزاح اور مذاق ہے ۔۔

ماما آپ لوگ grow کیوں نہیں کر رہے ؟

آپ سب پاکستانی ایک ہی ببل میں اتنے سالوں سے کیسے رہتے جاتے ہیں اور آپ اسbubble سے باہر آنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے ہیں ۔ ؟

میں نے پہلے تو ہادی کو یہ بتانے کی کوشش کی کہ “میں اینج دی نہیں “ مطلب میں تو صرف پاپا کے ساتھ بیٹھ کر ٹاک شو پر ہنسنے کی کوشش کرتی ہوں ۔  میں نے تو کب کا حسب ِ حال مذاکرات اور خبرناک ٹائپ سب چھوڑ دیا ہو ا ہے ۔  وہ تو بس ایسے ہی ۔۔۔میں تو بس ڈرامہ دیکھتی ہوں ۔۔ پاکستان سے اور کیسے جڑے رہیں ۔۔ وغیرہ وغیرہ  ( یہ میری مشوم مشوم صفائیاں ) تو ہادی کہتا ہے ؛ تو جو پاکستانی ڈرامے لکھ رہےہیں وہ کیوں نہیں انٹرنیشل شوز دیکھتے تاکہ پروڈکشن میں نہ سہی content میں تو کچھ امپرووکریں  ۔

پاپا ٹاک شو دیکھیں یا آپ ڈرامے،آپ لوگوں نے ایک ہی دائرے میں گھومتے رہنے کافیصلہ کیوں کیا ہوا ہے اور آپ اس سے اکتاتے کیوں نہیں ہیں ۔ ؟ آپ دنیا کے آرٹ سے محروم کیوں رہنا چاہتے ہیں ۔  پاکستان کا آرٹ کیوں نہیں ترقی کر رہا ؟

مجھے سمجھ لگ چکی تھی کہ اپنا دفاع ناممکن ہے میں نے ہتھیار ڈالتے ہوئے کہا تمہیں کیاوجہ نظر آتی ہے اس بانجھ پن کی ۔۔۔ یا slow growth کی   یا بالکل موت کی  ۔؟

کہتا میں نے یہ دیکھا ہے جن ملکوں میں مذہب کو لوگوں کے سروں پر بہت زیادہ طاری کردیا جاتا ہے وہاں یہ پرابلم ہوتی ہے کیونکہ مذہب کے نام پر بہت سی چیزوں کو prohibited ( شجر ممنوعہ ) کر دیا جاتا ہے اور ادب ،آرٹ اور کرافٹ کو کیسے آپ پابندیوں میں پیدا کرسکتے ہیں ۔ پیدا کر بھی لیں تو restricted سوچ کے ساتھ کیا پیدا کریں گے پھر یہی ہوگاجو پاکستان میں ہورہا ہے مزاح کے نام پر بس کھسرے بننا سب سے بڑی کامیڈی رہے گی ۔

اور اگر کوئی حد کراس کر نے کی کوشش کرے گا تو کبھی blasphemy کے نام پر اور کبھی کسی اور نام پر کامیڈین کو بھی kill کر دیا جائے گا ۔  جیسے ابھی افغانستان میں ہوا ۔۔تو لوگ زندہ رہنے کے لئے اپنی thoughts کو kill کرتے رہیں گے اور بس dead art پروڈیوس ہوگا   اور اسی لئے آپ سائنس اور ٹیکنالوجی میں بھی ترقی نہیں کر سکتے کیونکہ یہ سب آپس میں interlinked ہوتے ہیں

میں نے کہا کاکا یہ باتیں مجھ سے تو کر لیں کسی اور سے نہ کرنا ۔۔ اس نے کہا لیکن یہ باتیں آپ کو کر نی چاہئیں آپ کیسی رائٹر ہیں  ۔

میں نے کہا میں بھی کرتی ہوتی تھی ،اب سمجھ نہیں آتی کیونکہ مذہب کا نام سنتے ہی پڑھےلکھے لوگوں کا بھی ایک ہی رویہ ہوجاتا ہے ۔ غصے میں بھر جاتے ہیں اور کہتے ہیں آپ کومذہب پر بولنے کا حق نہیں ۔۔۔ ( یہ حق کون دیتا ہے ؟ )

کوئی کسی کی بات نہیں  سننا چاہتا ۔ بس جہاں مذہب کی بات آتی ہے سب ایک دم لال پیلے ہوجاتے ہیں  ۔( ان کا بھی قصور نہیں کیونکہ ایجنڈا کے تحت مذاہب خاص کرکے اسلام کو بدنام کر نے والوں نے بھی تو اَت اٹھائی ہوتی ہے ) ۔

خیر دونوں جانب کے شدت پسندوں کی وجہ سے ہمارا ملک تو وہ بن چکا ہے جہاں خوبصورت آرٹ تخلیق کرنے والے ( مورتیاں بنانے والے کو ) سب سے بڑا گنہگارسمجھا جاتا ہے ۔۔ اس پر لعنتیں ڈالی جاتی ہیں  ۔

حتیٰ  کہ عوامی لیڈروں کو اپنی آکسفورڈ کی ڈگریوں اور لباس کو چولہے میں ڈال کر روپ بھرنے پڑتے ہیں کبھی ہاتھ میں تسبیح اور سر پر دوپٹہ رکھ کر اور کبھی کسی باپردہ خاتون کوشریک حیات بنا کر ۔

اپنی اوریجنلٹی ختم کر کے بھیڑ چال کا حصہ بننے والے ہم لوگ ادب اور آرٹ سے کتنادور جا چکے ہیں اور جا رہے ہیں یہ یہاں کینیڈا میں پھلنے پھولنے والے بچوں کے ساتھ بات کر کے پتہ چلتا ہے  ۔

یاد رکھیے وہ معاشرے بے حس اور جانور بنتے جاتے ہیں جہاں تعلیم کے نام پر صرف پیسہ کمانے کو مدنظر رکھا جاتا ہے ۔وہاں ایک بچہ ڈاکٹر بن کر بھی کسی غریب کے گردےبیچ دے گا اور جہاں ادب اور آرٹ کی قدر ہوتی ہے ، انہیں پھلنے پھولنے دیا جاتا ہے وہ معاشرے ٹھنڈی ہوا بن جاتے ہیں اور وہاں عام انسان بھی مرنے کے بعد اپنے آرگنزڈونیٹ کر نے کے لئے محکمہ ہیلتھ کو نصیحت اور وصیت کر جاتا ہے ۔۔

مذہب کا معاملہ اپنے تک رکھیے اسے ہر جگہ ہر بات میں مت گھسائیں ۔۔ پاکستان میں بیٹھ کر فقیرا شاہکار مورتیاں تخلیق کر رہا ہے تو ان کو میرے سات سلام  ۔

میں نے کوئی ڈھائی  سو کے قریب دستک کے نام سے ٹاک شو کئے ہیں مگر مجھے آج بھی یادہے سب سے زیادہ  کنفیوز میں ایک انڈین بوڑھے ریٹائرڈ آرٹسٹ ینگو ورما صاحب ( may he rest in peace now ) کا انٹرویو کرتے ہوئے ہورہی تھی یہ وہ واحد انٹرویو تھا جسکی تیاری کے لئے ان کے گھر جا کر بات چیت کی ۔۔ کیونکہ ہر آرٹسٹ پر خالق کی ایک خاص مہربانی ہو تی ہے ۔یہ عام لوگ نہیں ہو تے ہیں ۔۔ کسی بھی دولت مند سےزیادہ خدا نے ان کو شعور اور احساس کی وہ دولت بخش رکھی ہوتی ہے جو ہر کسی کانصیب نہیں ہوتی ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آرٹ اور ادب پر لعنت نہیں ڈالیے اس کو اپنے اندر جذب کریں ۔۔ یقین مانئے خدا کواپنے زیادہ قریب پائیں گے اور اس کائنات کی گہرائی اور حسن کو سمجھ پائیں گے۔

Facebook Comments

روبینہ فیصل
کالم نگار، مصنفہ،افسانہ نگار، اینکر ،پاکستان کی دبنگ آواز اٹھانے والی خاتون

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply