ایک لڑکا سر کے بل ایسے کھڑاہے
نرم گیلی ریت پر، جیسے اسے
آکاش کی اونچائی میں پانی
سمندر کی اتھاہ گہرائی میں آکاش
ساحل پر جمے لوگوں کے جمگھٹ
سب کو اُلٹا دیکھنا ہے۔
ایک چوزہ، سر کٹا ، جو
نزع کے عالم میں گیلی ریت پر
اپنے تڑپنے کا فقط خود ہی تماشائی ہے، لیکن
پاس اس کے
گوشت کے قتلوں کا بیوپاری
کٹے سر کا گلابی پھول ہاتھوں میں لیے
اب بے حس و بے جان چوزہ بھی اُٹھا لیتا ہے
۔۔۔بگھی کے اِدھر آنے سے پہلے
کالی بگھی
(کالی ہی کیوں؟)
بھدر پُرشوں کی سواری
ریت پر چلنا جنہیں دشوار لگتا ہے ہمیشہ
ناریل آدھا
شکستہ ر استے میں
ریت پر ٹوٹا ہوا ، بے جان سورج
گہن کا کھایا ہوا سا
شام اب ڈھل ہی چکی ہے
لوگ سب اپنے گھروں کو جا چکے ہیں
میں اکیلا ساحل ِ بنگال پر
جاؤں کہاں؟
پنجاب کافی دور ہے
—————–
(بنگلہ دیش چٹ گام۔1978 )
لگ بھگ دس بارہ برسوں کے لیے اردو میں ایک دور ایسا بھی آیا تھا جس میں انگریزی شاعری کی بے ہودہ نقل میں لایعنیت کی شاعری کا رواج پنپنے لگا تھا۔مر کھپ گئے وہ سب شاعر اور ان کے نام تک ہم کو یاد نہیں، لیکن اس وقت ترقی پسند شاعری کی مخالفت میں جو لہریں رواں دواں تھیں، ان میں کیچڑ سے لدی پھندی یہ غلیظ لہر بھی تھی۔ میں نے یہ نظم ایک تجربے کے طور پر لکھی اور پھر اس کام سے توبہ کر لی۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں