• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • فرقہ وارانہ ہم آہنگی ضروری، مگر کیا صرف یکطرفہ؟۔۔سیّد عارف مصطفیٰ

فرقہ وارانہ ہم آہنگی ضروری، مگر کیا صرف یکطرفہ؟۔۔سیّد عارف مصطفیٰ

محرم الحرام کی آمد آمد ہے اور حسب دستور متعدد سیاسی و سماجی تنظیموں اور جماعتوں کی جانب سے ‘اتحاد بین المسلمین’ ٹائپ اجلاسوں کی بہار آئی ہوئی ہے ۔ حد تو یہ ہے کہ تین چار افراد پہ مشتمل تنظیموں اور ڈیڑھ ڈیڑھ پسلی کے حامل رہنماؤں کی جانب سے بھی فرقہ وارانہ یکجہتی کے فروغ کے لیے ولولہ انگیز بیانات جا ری  کئے جارہے ہیں ۔۔۔ اس قسم کے اجلاسوں کی عام سی ترکیب یہ ہے کہ کچھ چالو قسم کے گھاگ سیاسی گرگے اور چند آزمودہ و فارمولاعلما  کو ایک بڑی میز کے گرد بٹھاکے وہی ایک فارمولاسا میٹھا سا بنا بنایا بیان پڑھ دیا جاتا ہے کہ جو برس ہا برس سے زیراستعمال ہے اور جس میں تمام مکاتب فکر کے افراد کے مابین رواداری ، یگانگت اور اسلامی اخوت وغیرہ وغیرہ کی تلقین پہ مبنی ایک بھائی چارہ برانڈ بھاشن درج ہوتا ہے  ۔ ؟ ویسے بھی جو تنظیمیں اس طرح کے اجلاس کا تکّلف نہیں کرتیں وہ یہ راز بخوبی جانتی ہیں کہ اگر میڈیا کے رپورٹرز سے بہترعلقت استور کرلئے جائیں تو پھر کسی اجلاس کے تکلف کی بھی کیا ضرورت ہے بیان دینے کو تو بس ایک منہ ہی چاہیے اور جاری کرنے کو محض ایک لیٹر پیڈ ہی کافی ہے ۔

میرا اور مجھ جیسے میرے کئی ہم خیالوں کا مخمصہ مگر یہ ہے کہ صحیح طور پہ یہ جان سکیں کہ آخر اتحاد بین المسلمین صحیح طور پہ کسے کہتے ہیں اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی ہوتی کیا ہے کیونکہ یہ دونوں اصطلاحات یقیناً سننے میں بہت خوش کن اور دلپذیر ہیں مگر عملی طور پہ انکی تشریح یہ بن گئی ہے کہ ان پہ صرف یکطرفہ عمل کیا جائے اور ایک فریق جو عددی طور پہ بہت بڑی اکثریت پہ مشتمل ہے وہ تو عاجزی و انکساری کی مورت بن جائے جبکہ دوسرا فریق اس پہ عملدرآمد کے لئے اپنا حصہ بالکل نہ ڈالے ۔  میں یہاں بات کو سادہ و سہل طور پہ عرض کرتا ہوں کہ اس امر میں کیا حرج ہے کہ جو ایسے بیانات اور اجلاس میں حق پسندی بھی راہ پائے اور یہ مطالبے قراردادوں کی شکل میں منظور کئے جائیں کہ جن میں اکثریتی فریق کو دوسرے اقلیتی فریق کے جلوسوں کے لئے مکمل امن و امان اور تحفظ کی ذمہ داری میں شریک ہونے کا کہا جائے اور دوسرے فریق سے جواباً صرف اتنا سا تعاون کرنے پہ آمادہ ہونے کی بات کی جائے کہ وہ اپنے جلوسوں کو شہر کے   مرکزی بازاروں اور علاقوں سے گزارنے کے بجائے شہر کے مضافات میں کسی بڑی شاہراہ پہ نکال لے اور یوں ایسی دوطرفہ حقیقی اور بامعنی فرقہ وارانہ ہم آہنگی تشکیل پائے گی کہ جس کی حقیقی  قؤت کے مقابل کوئی شرپسند ٹھہر نہیں پائے گا اور امن کے عمل کو سبوتاژ کرنے کی جرات نہیں کرپائے گا۔

بدقسمتی سے آج کے اہل قلم اور ارباب فکر و نظر کی بھاری اکثریت روغنی روٹی اور مرغن بوٹی کی اسیر ہوچلی ہے ،لہٰذا وہ اس حریت فکر ہی سے محروم ہوچکی ہے کہ جو انہیں ان اہم معاملات پہ لکھنے یا بولنے کے لیے مجبور کرے اور اپنا فکری کردار ادا کرنے پہ اکسائے ۔ تو ایسے میں پھر یہ اجلاس اجلاس کھیلنے والے ‘موقع پرست گرو’ یکطرفہ بھائی چارے کی فریب کاری کا راگ کیوں نہ الاپیں ۔کیونکہ یہی کام آسان تربھی ہے اور اخبارات میں اپنی خبریں چھپوانے اور تصویریں لگوانے کا مجرب نسخہ بھی ۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے نام پہ ایک فریق کو گھٹنوں کے بل بٹھادینے ہی کو اتحادبین المسلمین کی شرط لازم بنالیا گیا ہے اور اس کے بل پہ کئی کئی روز تک شہر کے مرکزی بازار اور علاقے ایک ایسی ناکہ بندی کا شکار رہتے ہیں کہ جس کی وجہ سے وہاں آباد لاکھوں شہری محصور ہوجاتے ہیں اوروہاں سے دفتر جانا یا کاروبار جاری رکھنا تو کیا کسی کا گزرنا بھی کاردارد ہو جاتا ہے بلاشبہ یہ ایک طرح کی معاشی و سماجی قفل بندی ہے ۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ گنجان آبادیوں کے علاوہ شہر کے بڑے کاروباری مراکز و سرکاری و نجی ادارو ں کے دفاتر ہی نہیں بڑے بڑے ہسپتال اور شفاخانے بھی اسی رستے پہ واقع ہیں اور اس تمام دورانیئے میں یہاں مریضوں کا پہنچ پانا تو دور ، یہاں داخل مریضوں سے رابطہ کرنا تک ناممکن ہوجاتا ہے حتیٰ کہ یہاں سے ایمبولینسوں کا گذر بھی دشوار ہوجاتا ہے اور جو کوئی ایسا کرنے کی کوششیں کریں انکے اندر موجود مریض انہی خدمتی گاڑیوں کے اسٹریچر پہ دم توڑجاتے ہیں اور یہ معاملہ یقیناً ایک بڑا انسانی مسئلہ بھی ہے جسے کسی طور نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہاں مجھے امن و سلامتی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے ان مبینہ سفیروں سے یہ پوچھنا ہے کہ آخر ان کے بیانات میں کھل کر یہ مطالبہ کیوں نہیں کیا جاتا ہے کہ اتحاد بین المسلمین کا تقاضا  یہ بھی ہے کہ جہاں ایک فریق دوسرے کے تحفظ کے لئے سینہ سپر ہو تو دوسری طرف دوسرا فریق بھی وسیع القلبی سے اپنے جلوسوں کو شہر کے مضافاتی علاقوں کی طرف منتقل کردے ۔۔۔ کیونکہ کوئی بھی معاہدہ یا سمجھوتہ یا روادری کا عمل کبھی یکطرفہ نہیں ہوتا اور نہ ہی ہوسکتا ہے ۔ اگر یہ تنظیمی گرو ہ یہ مطالبہ کرپائیں اور اس پہ عملدرآمد کی جانب پیشرفت کرسکیں تو یہی عمل فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی بابت ایک حقیقی قدم ہوگا وگرنہ تو یہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا نعرہ جلد ہی بے معنی و بے اثر ہو کر رہ جائے گا کیونکہ اس یکطرفہ صورتحال سے جو خلاء جنم لے رہا ہے اسکا خاتمہ بھی از بس ضروری ہے اور اگر جسے ختم نہ کیا گیا تو قوی خدشہ ہے کہ اس صورتحال سے فتنہ پردازوں اور شرپسندوں کو یہ خلاء پر کرنے کا موقع مل سکتا ہے اور یہ وہ امکانی منظرنامہ ہے کہ جس سے بچنے کی ہرممکن سنجیدہ کوشش کی جان جی جانی چاہیے۔  اسکے بغیر حقیقی امن کی بات کرنا خود ایک غیرحقیقی بات ہوگی اس سے زیادہ کچھ نہیں  ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply