• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کیا ماں کے ہاتھ کا پکا کھانا واقعی لذیز ہوتاہے؟ حقیقت یا ناسٹلجیا ،یا مغالطہ؟۔۔عامر کاکازئی

کیا ماں کے ہاتھ کا پکا کھانا واقعی لذیز ہوتاہے؟ حقیقت یا ناسٹلجیا ،یا مغالطہ؟۔۔عامر کاکازئی

ایک جگہ کسی صاحبہ کی ایک تحریر پڑھی کہ دنیا کے ہر بچے کے پاس دنیا کا سب سے بہترین کھانا پکانے والی ماں ہے۔

اب کیا واقعی یہ بات درست ہے یا پھر یہ ایک ناسٹلجیا ہے؟

ہمارے ایک دوست کا کہنا تھا کہ اس کی بیوی جتنا بُرا اور بد ذائقہ کھانا بناتی ہے شاید ہی کوئی بنا سکتا ہو۔ جب کہ اپنی ماں کے کھانے کی تعریف کیے جاۓ۔ جب ہم نے ہنس کر اس کے بچوں سے پوچھا تو بولے کہ ماما بہت مزے کا کھانا بناتی ہیں۔ دوست بولا کہ روز کھا کھا کر ان کے منہ کا ذائقہ ایسا ہی ہو گیا ہے۔ ان کو پتہ نہیں ہے کہ اچھا بنا ہوا کھانا کس کو کہتے ہیں۔

ایک بار اسی دوست کے گھر گئے، اور ان کے والد صاحب سے پوچھا تو کانوں کو ہاتھ لگا کر بولے کہ پتہ نہیں وہ اپنی بیوی کا کھانا کھا کھا کر اب تک کیسے زندہ ہیں۔

ایک دوسرے دوست ایک بار بولے کہ ان کی  تریمت  ہانڈی میں سبزی، گوشت، مصالہ اور دیگر چیزیوں کا ملغوبہ بنا کر آگ پر رکھ دیتی ہے اور دس منٹ کے اندر ہمیں وہ ملغوبہ کھانے پر مجبور کرتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مجبوری کا دوسرا نام شکریہ ہے اور وہ صبر و شکر کے ساتھ جو ملغوبہ ملتا ہے، اسے کھا لیتے ہیں۔ جبکہ ان کے بچوں کے نزدیک ان کی ماں سے بہترین کھانا کوئی بنا ہی نہیں سکتا۔

ہمارا ایک کزن بیوی کے ہاتھ کے پکے ہوۓ ہر کھانے کے ساتھ سبز مرچ ضرور کھاتا ہے، اس کا کہنا ہے کہ سبز مرچ بد زائقہ کھانے کو مزے کا بنا دیتی ہے۔

بقول جاوید اختر صاحب کہ ہمارے ہاں صدیوں سے کھانے کے معیار کا گراف بتدریج نیچے آرہا ہے کیونکہ ہر کوئی اپنی بیگم سے یہ کہتا ہوا پایا جاتا ہے کہ تم میری ماں جیسا لذیز کھانا نہیں بنا سکتیں۔

سادہ الفاظ میں کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہر ایک کو اپنی ماں کے ہاتھ کا پکا ہوا اچھا لگتا ہے۔ یہ احساس بھی اسے یا تو شادی کے بعد یا پھر ماں کے مرنے کے بعد پتہ چلتا ہے۔اسے اَپ ناسٹلجیا بھی کہہ سکتے ہیں۔

بانو قدسیہ کا ناول حاصل گھاٹ میں بھی ایک ایسے ہی ناسٹلجیا کے مارے ایک شخص کا ذکر ہے جو کہ امریکہ پہنچ کر مغربی زندگی سے نفرت کرنے لگتا ہے، اسے اپنے گاؤں کی یاد ستاتی ہے۔ وہ اب ہر وقت جدید مغربی طرز حیات کو کوستا ہے اور اس کے مقابلہ میں اپنے گاؤں کی روایتی گھسی پٹی زندگی کو ترجیح دیتا ہے۔

بُری حالت والے ماضی کو یاد کرنا اور اچھے حال کو کوستے رہنے کی بنیادی وجہ شاید یہ ہے کہ ہم برصغیر کے لوگ ماضی میں جینا پسند کرتے ہیں۔ہمیں اپنے اچھے حال سے نفرت ہوتی ہے۔

شاہ رُخ خان سے ایک بار انٹرویو میں پوچھا گیا کہ کیا آپ کو شہرت ملنے سے پہلے، جوہو بیچ پر کھڑے ہو کر گول گپے کھانا یاد آتے ہیں؟ جواب آیا کہ نہیں کیونکہ اب میں پورا کا پورا گول گپے کا ٹھیلہ اپنے گھر بلا لیتا ہوں۔ اسے کہتے ہیں کہ اپنے بہتر حال سے مطمئن ہونا، نہ کہ خستہ حال ماضی کو یاد کر کے آہیں بھرنا۔

شاید یہ وقت انسان پر عمر کے آخری حصہ میں تب آتا ہے، جب وہ اپنی مٹی ، علاقے یا اس رشتہ سے دور ہو جاتا ہے اور  یا اب ریٹائرمنٹ کی زندگی میں کرنے کو کچھ نہیں ہوتا، سواۓ ماضی کو یاد کرنے کے۔

بات کہاں سے کہاں نکل گئی، بہرحال معاملہ ادق ہے اور اس کا حل یہ ہے کہ کسی خاتون کے ہاتھ کے پکے ہوۓ کھانے کے  درست ذائقے  کا اندازہ لگانا ہو تو یا تو اس کی ساس سے پوچھیے ورنہ تنہائی میں اس کے شوہر سے۔

Advertisements
julia rana solicitors

(ویسے ہماری تریمت ہماری ماں سے زیادہ اچھا اور لذیز کھانا بناتی ہے۔ یہ بات ہم نے آج ٹینڈوں پر ڈھیر سارا اچار ڈال کر کھانے کے بعد لکھی ہے۔) 😜

Facebook Comments

عامر کاکازئی
پشاور پختونخواہ سے تعلق ۔ پڑھنے کا جنون کی حد تک شوق اور تحقیق کی بنیاد پر متنازعہ موضوعات پر تحاریر لکھنی پسند ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply