• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • سیاستدانوں سے 38 ارب ڈالر کی ڈیل تو ڈرامہ ہے مگر ڈس کوالیفیکیشن کا اصل خطرہ فارن فنڈنگ کیس میں ہے۔۔۔ غیور شاہ ترمذی

سیاستدانوں سے 38 ارب ڈالر کی ڈیل تو ڈرامہ ہے مگر ڈس کوالیفیکیشن کا اصل خطرہ فارن فنڈنگ کیس میں ہے۔۔۔ غیور شاہ ترمذی

اپنے سیاسی مخالفین کو “کچھ بھی ہو جائے میں انہیں این آر او نہیں دوں گا، نہ ڈیل کروں گا اور نہ ڈھیل دوں گا” کے بلند و بالا نعرے لگانے والی پی ٹی آئی حکومت اب اپوزیشن راہنماؤں کی منت سماجت کر کے ڈیل کرنے کی کوششیں بھی کر رہی ہے اور دوسری طرف اپنے مضبوط اور تنخواہ دار میڈیا سیل کے ذریعہ سیاستدانوں سے پلی بارگین ہو جانے کا مژدہ بھی قوم کو سنائے جا رہی ہے ۔ ان افواہوں کے مطابق جن سیاستدانوں اور تاجروں سے ڈیل ہوئی ہے ان میں یہ لوگ شامل ہیں۔

(1):- ڈاکٹر عاصم 460 ارب = 2.875 ارب ڈالرز
(2):- شرجیل میمن 220 ارب = 1.375 ارب ڈالرز
(3):- عبد المجید غنی 210 ارب = 1.3125 ارب ڈالرز
(4):- سراج درانی 200 ارب = 1.25 ارب ڈالرز
(5):- میاں نواز شریف = 14 ارب ڈالرز
(6):- آصف زرداری = 10 ارب ڈالر
(7):- خواجہ سعد رفیق = 05 ارب ڈالرز
(8):- فریال تالپور 200 ارب = 1.25 ارب ڈالرز
(9):- شہباز شریف 190 ارب = 1.1875 ارب ڈالرز

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ کل ہوئے = 38.25ارب ڈالرز بحساب ایک ڈالر اگر 160 روپے کا ہو تو
اور
ابھی اس میں شاہد خاقان عباسی, میاں منشاء اور دوسرے کئی بڑے نام مثلاً ملک ریاض بحریہ ٹاؤن اور  دیگر شامل نہیں ہیں ،ان سے ملنے والے مبینہ اربوں ڈالرز کا حساب الگ سے  ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیل کے ان38.25 ارب ڈالرز کی وصولی کی خبر سے یقیناً سادہ لوح عوام کو وقتی طور پر خوش کیا جا سکتا ہے مگر جب بجلی کی قیمت مسلسل بڑھ رہی ہو, عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمت کم ہو رہی ہو اور ہمارے یہاں بڑھ رہی ہو, نئی 2 کروڑ نوکریاں فراہم کرنے کی بجائے پہلے ملازمین کو نکالا جا رہا ہو, کئی کئی مہینے سے ان کی تنخواہوں کی ادائیگی نہ ہو رہی ہو, نئے ٹیکس دہندگان بنانے میں بدترین ناکامی کا غصہ پہلے سے ٹیکس دینے والوں پر ٹیکس شرح بڑھا کر نکالا جا رہا ہو, شادی کے فنکشنز پر بھی ٹیکس لگانے کی بےہودہ تجاویز زیر غور لائی جاتی ہوں تو سادہ سے سادہ شخص بھی کچھ دنوں میں ہی یہ سمجھ سکتا ہے کہ ان38.25 ارب ڈالرز کی ڈیل والی درفنطنی بھی ان جھوٹے دعوؤں اور بڑکوں میں سے ایک ہے جو ڈی چوک اسلام آباد میں 126 دن کے دھرنے کے دوران ناچتے گاتے ہوئے مسلسل لگائی جاتی تھیں۔

پیپلز پارٹی اور نون لیگ تو خیر ہیں ہی اپوزیشن میں اور پرانی سیاسی پارٹیاں ہیں, وہ سنہ 2014ء سے عمران خاں کا جارحانہ رویہ دیکھ کر آنے والے حالات کا تجزیہ کر چکے تھے۔ اس لئے انہیں بخوبی اندازہ تھا کہ عمران خاں کی حکومت میں ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ جبر اور دباؤ کی جو بھی حدود ہیں وہ تحریک انصاف اختیار کر چکی اور اپوزیشن جماعتیں برداشت کر چکیں اور مزید کر رہی ہیں۔ فی الحال مگر اس وقت کا اہم ترین اور اصل مسئلہ یہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے غیر ملکی پارٹی فنڈنگ کیس کی کارروائی خفیہ رکھنے کے لئے دائر حکمران جماعت تحریک انصاف کی چاروں درخواستیں مسترد کر دی ہیں۔ الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کو تحریک انصاف اور اس کے قائد عمران خان کے لئے بڑا دھچکا قرار دیا جا رہا ہے۔ واقفان ِ حال کہتے ہیں کہ یہ وہ معاملہ ہے جسے تحریک انصاف اور اس کے چیئرمین کے لئے پانامہ سکینڈل قرار دیا جا سکتا ہے۔ واضح رہے کہ پی ٹی آئی کے سابق بانی رکن و عمران خان کے سابق دیرینہ دوست اکبر ایس بابر نے 2014ء میں الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) میں تحریک انصاف اور اس کے چیئرمین کے خلاف فارن فنڈنگ کیس دائر کیا تھا اور الزام لگایا تھا کہ غیر قانونی غیر ملکی فنڈز میں تقریباً 30 لاکھ ڈالر 2 آف شور کمپنیوں کے ذریعے اکٹھے کیے گئے اور یہ رقم غیر قانونی طریقے ‘ہنڈی’ کے ذریعے مشرق وسطیٰ سے پی ٹی آئی ملازمین کے اکاؤنٹس میں بھیجی گئی۔انہوں نے یہ بھی الزام لگایا تھا کہ فنڈز اکٹھے کرنے کے لئے استعمال ہونے والے غیر ملکی اکاؤنٹس کو ای سی پی میں جمع سالانہ آڈٹ رپورٹس سے چھپایا گیا۔ یادرہے کہ پاکستان کے انتخابی قوانین کے مطابق سیاسی جماعتیں غیرملکی شہریوں سے فنڈز حاصل نہیں کر سکتیں۔

الیکشن کمیشن نے اکبر ایس بابر کی پٹیشن سماعت کے لئے منظور کر کے پی ٹی آئی اور اس کے سربراہ عمران خان کو نوٹس جاری کیے۔ اس کے بعد ہر سماعت پر الیکشن کمیشن نوٹس جاری کرتا رہا، مگر پی ٹی آئی کی جانب سے نہ تو کوئی پیش ہوا اور نہ ہی کسی نے جواب دینے کی زحمت کی۔ یہاں تک کہ 2015آ گیا۔ اس سال پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کے سامنے یہ موقف اپنایا کہ ایک تو اکبر ایس بابر کو اس معاملے پر پٹیشن کا حق حاصل نہیں تھا، دوسرا الیکشن کمیشن ماضی کے اکاؤنٹس کے متعلق ایسی کوئی پٹیشن سننے کا مجاز ہی نہیں۔ اب ان دونوں اعتراضات کی سماعت شروع ہوئی۔ اکثر پیشیوں پر پی ٹی آئی کے نمائندے غیرحاضر رہے۔ الیکشن کمیشن نوٹس جاری کرتا رہا, ، آخر الیکشن کمیشن نے یہ دونوں اعتراضات مسترد کر دئیے۔ پی ٹی آئی اس فیصلے کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ چلی گئی۔ اس دوران الیکشن کمیشن نے بھی سماعت جاری رکھی مگر پی ٹی آئی ہائی کورٹ کی اپیل کو بہانہ بنا کر الیکشن کمیشن سے بھاگتی رہی اور یوں یہ سال بھی گزر گیا۔ 2016ء۔ میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے ان دونوں معاملات پر پی ٹی آئی کو دوبارہ الیکشن کمیشن سے رجوع کرنے کو کہا۔ الیکشن کمیشن نے دوبارہ ان اعتراضات کی سماعت کے بعد انہیں مسترد کر دیا۔ پی ٹی آئی اس فیصلے کے خلاف دوبارہ اسلام آباد ہائی کورٹ چلی گئی۔ اس مرتبہ انہوں نے نہ صرف اپنے سابقہ اعتراضات دہرائے بلکہ اسلام آباد ہائی کورٹ سے استدعا کی کہ وہ الیکشن کمیشن کو اس کیس کی مزید سماعت سے روکے۔ ہائی کورٹ نے یہ درخواست مسترد کر دی مگر اعتراضات پر سماعت جاری رکھی۔ اب 2017ء آ گیا۔ سنہ 2017ء۔ میں الیکشن کمیشن کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے لگا۔ کمیشن نے عمران خان اور پی ٹی آئی کو نوٹس پہ نوٹس بھیجنا شروع کیے مگر پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان صاحب نے الیکشن کمیشن پر تعصب اور جانبداری کا الزام لگادیا۔ جس پر الیکشن کمیشن نے انہیں توہین عدالت کا نوٹس دیا۔ جب اس کا بھی اثر نہ ہوا تو بالآخر الیکشن کمیشن نے عمران خان کی گرفتاری کا حکم جاری کر دیا۔ اس کے خلاف پی ٹی آئی پھر ہائی کورٹ چلی گئی، اس بنیاد پر کہ الیکشن کمیشن عدالتی اختیارات نہیں رکھتا اس لئے وہ توہین عدالت کا نوٹس جاری کرنے کا مجاز ہی نہیں۔ ہائی کورٹ نے گرفتاری کے وارنٹ منسوخ کر دئیے تاہم عمران خان کو الیکشن کمیشن کے سامنے پیش ہونے کی ہدایت کی۔ عمران خان کے وکیل نے الیکشن کمیشن کے سامنے معافی نامہ پیش کیا، بعد ازاں خان صاحب نے فرمایا کہ وہ معافی نامہ وکیل نے ان کی مرضی کے بغیر دیا تھا۔

مزید نوٹسز کے بعد بالآخر عمران خان خود کمیشن کے سامنے پیش ہوئے، کمیشن نے ان کی تازہ معافی قبول کی۔ اسی دوران سپریم کورٹ میں حنیف عباسی کی عمران خان اور جہانگیرترین کے خلاف درخواستوں کی سماعت شروع ہو چکی تھی۔ یاد رہے کہ حنیف عباسی نے عمران خان پر ایک تو بنی گالہ کی اراضی سے متعلق کیس کیا تھا، ان کا دوسرا مقدمہ پی ٹی آئی کی فارن فنڈنگ کے متعلق تھا۔ ان کا استدلال یہ تھا کہ عمران خان نے 2013ء میں الیکشن کمیشن کے سامنے بیان حلفی دیا ہے کہ ان کی جماعت غیرممالک سے فنڈنگ حاصل نہیں کر رہی جبکہ ان کے اکاؤنٹس میں غیرملکی فنڈز آتے رہے ہیں اس لئے جھوٹا بیان حلفی جمع کروانے پر عمران خان صادق اور امین نہیں رہے۔ اب یہ واحد کیس تھا جو بیک وقت الیکشن کمیشن آف پاکستان, اسلام آباد ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ آف پاکستان میں زیرسماعت تھا۔ سپریم کورٹ میں عمران خان کے وکلاء نے یہ موقف اختیار کیا کہ چونکہ کیس الیکشن کمیشن میں زیرالتوا ہے مگر الیکشن کمیشن اسے سننے کا مجاز ہی نہیں اور ہم نے ہائی کورٹ میں اپیل کر رکھی ہے, اس لئے سپریم کورٹ ہائی کورٹ کا فیصلہ آنے تک اس کی سماعت نہ کرے۔ سپریم کورٹ میں یہ اعتراض مسترد ہوا۔ اب کہا گیا کہ ماضی کے اکاؤنٹس پاسٹ اینڈ کلوزڈ ٹرانزیکشن ہیں، ان پر کوئی فردواحد اعتراض نہیں کر سکتا بلکہ صرف وزارت داخلہ اس معاملے پر عدالت سے رجوع کی مجاز ہے۔ یہ اعتراض بھی مسترد ہوا۔ کیس کی سماعت کے دوران جج صاحبان کی جانب سے یہ نکتہ بھی اٹھایا گیا کہ اگر دہری شہریت کے حامل پاکستانی تحریک انصاف کو فنڈ دیتے ہیں تو اس میں قابل اعتراض بات کیا ہے؟۔ جواب یہ دیا گیا کہ یہاں صرف دہری شہریت والے پاکستانیوں کی فنڈنگ نہیں ہے بلکہ بھارت اور اسرائیل کے شہریوں نے بھی مبینہ طور پر تحریک انصاف کی فنڈنگ کی ہے۔ الیکشن کمیشن کے نمائندے کا کہنا تھا کہ کمیشن یہ کیس سُننے کا مجاز ہے اور فارن فنڈنگ ثابت ہونے پر تحریک انصاف کا ڈیکلریشن اور رجسٹریشن بھی منسوخ کی جا سکتی ہے۔ سپریم کورٹ نے کیس کے ناقابل سماعت ہونے کے اعتراضات مسترد کرتے ہوئے اس پر جواب طلب کر لیا۔

یہاں ایک عجیب و غریب واقعہ پیش آیا۔ عمران خان کے خاص وکیل نعیم بخاری کے معاون نے عدالت کے سامنے امریکہ سے موصول فنڈنگ کی کچھ دستاویزات پیش کیں جن پر حنیف عباسی کے وکیل اکرم شیخ نے اعتراض کیا کہ وہ جعلی ہیں، اور الیکشن کمیشن یا اکبر ایس بابر کے پاس موجود اسی ویب سائٹ سے حاصل کردہ دستاویزات سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ مزید پڑتال پہ معلوم ہوا کہ غیرملکی شہریوں کے ناموں کی جگہ بھدے طریقے سے کاپی پیسٹ کر کے پاکستانی شہریوں کے نام بار بار دہرائے گئے تھے۔ اس پر جج برہم ہوئے اور انہوں نے وکیل سے پوچھا کہ آپ جانتے ہیں کہ عدالت میں جعلی دستاویزات پیش کرنے کے کیا نتائج ہو سکتے ہیں۔ وکیل صاحب نے نا صرف معذرت کی بلکہ یہ بتایا کہ انہیں یہ کاغذات کلائنٹ کی جانب سے مہیا کیے گئے ہیں، انہوں نے خود حاصل نہیں کیے۔ یہاں سماعت میں وقفہ ہوا اور جب دوبارہ سماعت کا آغاز ہوا تو عدالت بنی گالہ اور جہانگیرترین کے معاملات سنتی رہی اس معاملے پر مزید سماعت یا بحث نہ ہو سکی۔ تاہم عدالت یہ قرار دے چکی تھی کہ الیکشن کمیشن اس معاملے پر تفتیش اور کاروائی کا اختیار رکھتا ہے۔ یہ سن کر اسد عمر اور شیریں مزاری دوڑے دوڑے الیکشن کمیشن گئے اور جس ادارے سے تین سال دور بھاگتے چلے آئے تھے، وہاں مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی پر فارن فنڈنگ کے الزامات پر مبنی پٹیشن دائر کر دی گئی۔

اس موقع پر جہانگیر ترین نااہل قرار پائے۔ فارن فنڈنگ کے متعلق سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کا حق سماعت پہلے ہی تسلیم کر لیا تھا، کمیشن سے کہا گیا کہ وہ سیاسی جماعتوں کے پچھلے 5 سال کے اکاؤنٹس کی جانچ پڑتال کر کے ان پر فیصلہ دے۔ عمران خان کی اس کیس میں اہلی یا نااہلی کا فیصلہ اس کے بعد عدالت کے سامنے پیش ہوا تو عدالت مناسب فیصلہ کرے گی۔ یہاں ایک کنفیوژن یہ پیدا ہوئی کہ کیا الیکشن کمیشن فیصلے سے پچھلے 5 سال ، یا الیکشن سے پہلے 5سال کی جانچ پڑتال کا مجاز ہے؟۔

سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس سال جنوری میں تحریک انصاف کی دونوں درخواستیں مسترد کرتے ہوئے، الیکشن کمیشن کو فارن فنڈنگ کی تحقیقات کی مجاز اتھارٹی قرار دیا۔ اب پی ٹی آئی جس ادارے کو تین سال سے غچہ دیتی چلی آئی تھی، اس کے پاس اس کے سامنے پیش ہونے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا۔ الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کی ہدایات کے مطابق ایک کمیٹی تشکیل دی جس نے فنڈز کی جانچ پڑتال کرنا تھی۔ پہلی سماعت پر کمیٹی ٹوٹ گئی، ازسرنو تشکیل پانے اور ٹرمز آف ریفرنسز طے کیے جانے کے بعد اس کی سماعت جاری تھی جس کا فیصلہ سنا دیا گیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ تین رکنی کمیٹی میں دو ممبران فوجی اداروں سے لئے گئے تھے۔ یہ دہرانا بھی مناسب ہوگا کہ سپریم کورٹ اب تک “لاڈلے” کو تین مرتبہ بچا چکی ہے۔ بنی گالہ کیس میں نواز شریف اور جہانگیر ترین کیس سے مختلف معیار رکھ کر، سپریم کورٹ میں فارن فنڈنگ کی جعلی تفصیلات پیش کرنا نظرانداز کر کے اور پھر سپریم کورٹ ہی میں بنی گالہ مینشن کا جعلی این او سی جمع کروانا نظرانداز کر کے۔

الیکشن کمیشن نے پارٹی فنڈنگ کیس کے تحریری فیصلے میں تحریک انصاف کے وکیل پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ بطور ڈپٹی اٹارنی جنرل وکیل ثقلین حیدر کو تحریک انصاف کا دفاع کرنے کا کوئی حق نہیں۔تحریک انصاف کی چار متفرق درخواستوں پر فیصلہ سناتے ہوئے الیکشن کمیشن نے قرار دیا کہ پی ٹی آئی کے وکیل ثقلین حیدر بطور ڈپٹی اٹارنی جنرل ریاست کا کیس لڑتے ہیں، پارٹی فنڈنگ کے معاملے میں ریاست خود ایک فریق ہوتی ہے اور اس کا براہ راست اس مقدمے سے تعلق ہوتا ہے، ایسے میں ریاست اور پارٹی کا وکیل ایک کیسے ہو سکتا ہے۔الیکشن کمیشن نے فیصلے میں کہا کہ پارٹی فنڈنگ کیس قانونی طریقہ کار کی بدترین مثال ہے، تحریک انصاف نے اکبر ایس بابر کا نام استعمال کر کے معاملہ تاخیر کا شکار کیا، اکبر ایس بابر نے شواہد دینے ہیں ایسے میں انہیں تحریک انصاف کی درخواست پر کمیٹی کی کارروائی سے کیسے باہر کیا جاسکتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بھارتی, اسرائیلی شہریوں سے تحریک انصاف کے لئے فنڈز جمع کرنے, سپریم کورٹ میں چندہ دینے والوں کی جعلی فہرستیں دینے, الیکشن کمیشن سے ان فنڈز کو خفیہ رکھنے جیسے بڑے الزامات کے بعد تحریک انصاف کا کاروائی سے بچ سکنا بہت مشکل دکھائی دے رہا ہے۔ الیکشن کمیشن کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ ان الزامات کے ثابت ہونے پر نہ صرف تحریک انصاف کی رجسٹریشن منسوخ کر دے بلکہ پارٹی کے ساتھ ساتھ اس کے چیئرمین اور ممبران پارلیمنٹ کو بھی ڈس کوالیفائی کر دے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply